کالمز

سوشل میڈیا

 سوشل میڈیا زندہ باد.  انٹر نیٹ کی  دنیا کتنی پیاری دنیا ہے. اس کے  چاروں اور رنگینیاں ہی رنگینیاں  اور اس کے درمیان ہم  لوگ۔۔۔ چاہے گھر میں ہمیں کوئی پوچھتا  نہ بھی  ہو تو اس سوشل میڈیا پر ہم اپنے آپ کو  اس دنیا کا بادشاہ اور پرنس سمجھتے ہیں۔۔ ایسے کمنٹس اور پوسٹ شیئر کرتے ہیں جیسے  سچ مچ کے  فلاسفر اور دانشور  ہوں اوریوں سمجھنے لگتے ہیں  کہ  ہمارے کہنے اور لکھنے سے  پورا معاشرہ   سدھر جائیگا۔۔۔

بے شک ہم دل چوہے کا رکھتے ہوں لیکن اس میڈیا پر  تو ہم سے بڑھ کر کوئی شیربن نہیں سکتا  ۔۔بے شک چھوٹے  سے  مچھر کو دیکھ کر ہماری  جان ہی کیوں نہ  نکلتی ہو، لیکن سوشل میڈیا پر کسی کی مجال نہیں کہ  ہمیں  ڈرا سکے ۔۔۔ بے شک عملی زندگی  میں کتنے  جھوٹے بھی ہوں یہاں تو  ہم سے سچا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔۔

الغرض  ہم اس (سوشل میڈیا)  کے  ثمرات سے کما حقہ  مسفید ہو رہے  ہیں۔۔۔ بلکہ مستفید کیا، ہم تو اسی میں ڈوبے ہوئے ہیں. اب تو ہم نے اسے اپنا  شریک حیات سمجھا ہوا ہے …. کہیں میں نے غلط لفظ تو استعمال نہیں کیا؟ چلو ایسی بات ہے تو دوشیزہ سمجھو!  کیوں، یہ بھی عجیب لگا؟.میرے خیال میں شاید محبوبہ بہتر رہیگا. بلکہ یہ کہنا مناسب کہ ہم نے اسے ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہوا ہے ۔۔

ہم پر اس کی  بڑی مہربانیاں ہیں. اتنی زیادہ  کہ جن کا کوئی شمار نہیں.  ایک ہو تو بتا وٗں  کیا کیا بتاوٗں  بتانے والی ہوں تو بتا وٗں۔۔  اس کی مہربانی سے اب ماشا اللہ  گھر والوں کے ساتھ دسترخوان پر نہیں  بیٹھتے۔ زندگی اتنی مصروف  ہوگئی ہے  کہ بچوں کی یاد ہی  نہیں آتی  تو ایسے میں ان کی پڑھائی وغیرہ کے بارے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔ کس کو پڑی ہے کہ ان کے بارے سوچے۔  اب ہماری ایک الگ دنیا بن چکی ہے.  وہی دنیا جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے.

جی ہاں سوشل میڈیا  بس اپنی ایک ریاست  جس کے ہم بادشاہ  جہاں سے ہم دوسروں کو للکارتے ہیں اور اسی دنیا کی سلف سروس کے  مزے  سے بھی لطف اندوز  ہو تے ہیں.  اور تو اور اپنے علاوہ  اپنے  یاروں کو بھی  باخبر رکھ سکتے ہیں  تاکہ وہ بھی ملکوں ملکوں  کے حسن سے  محظوظ ہو سکیں۔۔  کیا نہیں ہے اس سوشل میڈیا میں.  تعلیم  بھی حاصل کر سکتے ہیں اگر چا ہیں تو . مگر اس کا   فائدہ  تعلیم تو ہم حاصل کر چکے ہیں ۔ بہت ہو چکا  یہاں بھی تعلیم  پھر کیا فرق ہوا اس  سوشل میڈیا اور سکول میں ۔۔  بس کرو یار ایسا مشورہ اپنے جیب میں رکھو. سوشل میڈیا تو انٹرٹیمننٹ کے لئے ہے. میرے بھائی انٹرٹینمنٹ کے لئے  کیا سمجھے …..   نہیں سمجھے  نرے بدو ہو یار!  ابھی تم بچے ہو  ان باتوں کو نہیں سمجھوگے.

 قارئین آپ تو سمجھ گئے ہونگے نا؟  اور ہاں یاد آیا  سوشل میڈیا  کا سب سے بڑا کمال جس نے   انقلاب برپا کر دیا ہے ۔۔ وہ یہ کہ اس  دنیا میں لڑکیاں بہت زیادہ پیدا ہوتی ہیں اور تو اور  یہاں بغیر اپریشن سکینڈوں  میں آپ جو بننا چاہتے ہیں  بن سکتے ہو کوئی قید نہیں۔ عمر کی شق تو سرے سے ہی نہیں اور اس سے بھی زیادہ  دلچسپ بات یہ ہے کہ  آپ بیک وقت لڑکا اور لڑکی  دونوں بھی بن سکتے ہو  اور آپ خود کے دوست اور سہلی بھی بن سکتے ہو  آپ شبو بن کر  اپنے آپ نشو سے  دوستی  کی پینگیں بھی  بڑھا سکتے ہو  ایک نشو کیا  پنکی منی  ببلی سے بھی دوستی کر سکتے ہو۔۔  اگر آپ کا موڈ  کچھ اور بننے کا بھی ہے تو گھبرائیں نہیں یہ تو  بائیں انگلی کا  کھیل ہے اس دنیا میں دوستوں کی بھی کوئی کمی  نہیں ہوتی  ایک ایک  کے ہزاروں دوست اور ایسے دوست جو ہر وقت آپ  کے منہ کا ذائقہ تبدیل کرتے رہتے ہیں.  مرچ مصالحے کی بھرمار ہر قسم کا ذائقہ سوشل میڈیا میں ہر وقت اور ہر دم  اور بھی بہت کچھ  بس پوچھو ہی نہیں  ہم سب بھی  تو یہی چاہتے ہیں  نا کہ  آزادی ہو  کوئی پابندی نہ ہو  جو جی میں آئے  اسے کر گزریں  کوئی روکنے والا نہ ہو  کوئی پوچھنے والا نہ ہو جب گالی دینا چاہے تو بے دھڑک  دے سکیں جب اول فول بکننا ہو تو  زبان ایک گز کی نہیں بلکہ دوگز کی نکلے ۔ مدر پدر آزاد زندگی ہو۔۔ میرے بھائیو یہ  ہے وہ دنیا  جس کو سوشل میڈیا  کا نام دیا گیا  ہے  جو ہماری ایک انگلی کے قابو میں ہے اور انگلی  ہمارے قابو میں.  اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنی انگلی کو سوشل میڈیا کی دنیا میں اور زبان کو اپنی عملی زندگی میں  کیسے قابو میں رکھتے ہیں  اور اسی انگلی  اور زبان کو قابو میں رکھنا  ہی  ہمارے اور معاشرے  دونوں کے لئے  سود مند ہے!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

6 کمنٹس

  1. شکریہ ادار کرے اس سوشل میڈیا کا کہ اس نے ایسے ایسوں کو پہچان دی اور وہ اپنے تیں خود کو فلسفی اور سماجی ناقد اور نہ جانے کیا کیا ثابت کرنے کی ہمیشہ تگ و دو میں رہتے ہیں اور جب دال نہیں گلتی تو آوٹ پٹانگ کے مضامین لکھ دیتے ہیں …. سوشل میڈیا ایک مضبوط حقیقت ہے اور اس میں صرف فیس بک نہیں بلکہ بلاگ، ویب سائٹس، ٹویٹر وغیرہ سب کے سب شامل ہیں، بلکہ ایس ایم ایس تو سوشل میڈیا کا سب سے مضبوط حصہ ہے …

  2. یہ سوشل میڈیا ہی کے مرہون منت ہے کہ ہدایت اللہ اختر [………] بھی کالم نویس بن بیٹھا ہے اور اپنی تنگ نظری اور ذہنی پراپندگی کا اظہار کر سکتا ہے۔مجھے معلوم ہے کہ موصوف نے اغلاط سے بھرا ہوا یہ گھٹیا مضمون کیوں لکھ مارا ہے۔
    موصوف نے اگلے روز فیس بک پر ایک سادہ سی موسیقی کی محفل کے بارے میں اپنی تنگ نظری اور فکری پسماندگی کا ثبوت دیتے ہوئے سنگین الزامات لگائے اور فتوے جاری کیے ، جس پر کچھ پڑھے لکھے اور باشعور نوجوانوں نے موصوف کو دلائل سے رد کر دیا۔
    اس کٹھ مُلا کو یہی دکھ ہے کہ مدرسے کے ان پڑھ لڑکوں کے برعکس سوشل میڈیا کے پڑھے لکھے لوگ اس کے نفرت انگیز اور تکفیری اور جہادی پراپیگنڈے کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
    یہ شخص خود کش دھماکوں، طالبانی دہشت گردی ،کلاشنکوفی شریعت اور اقلیتوں پر ظلم و ستم کی کبھی مذمت نہیں کرتا ، اگر مجبوراً کرنی بھی پڑے تواس کا لہجہ ملتجی ہوتا ہے اور اس میں تاویلیں تراش کر مجرموں کو بری الذمہ قرار دیتا ہے۔ مگر یہ شخص غریبوں کے فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کے خلاف گلا پھاڑتا پھرتا ہے، طالبان کے مخالفین کو بھرپور جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔مگر طالبان اور ان کے حامیوں کی دہشت گردی پر دم سادھ کر اپنی منافقت کا اظہار کرتا ہے۔
    نہایت بے شرمی سے کہتا ہے کہ اسلام میں موسیقی حرام ہے مگر طالبان کے ہاتھوں ہزاروں پاکستانیوں کے قتل پر صاد کرتا ہے۔
    ہماری بدقسمتی ہے کہ اس طرح کے […….] ہمارے صحافی اور کالم نویس بن بیٹھے ہیں۔گلگت کے اخبارات تو خیر اس جیسے ان پڑھ ہی چھاپتے ہیں مگر مجھے افسوس پامیر ٹائمز جیسے موقر بلاگ پر بھی ہوتا ہے جو ہر قسم کی خرافات کو پڑھے بغیر شائع کرتا ہے۔

  3. کچھ لوگوں کے ھاتھ میں سوشل میڈیابالکل ایسا ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں استرا …..

  4. ” چاہے گھر میں ہمیں کوئی پوچھتا نہ بھی ہو تو اس سوشل میڈیا پر ہم اپنے آپ کو اس دنیا کا بادشاہ اور پرنس سمجھتے ہیں۔۔ ایسے کمنٹس اور پوسٹ شیئر کرتے ہیں جیسے سچ مچ کے فلاسفر اور دانشور ہوں”گ

    …………یہ بات خود آپ کے بارے میں کتنی صحیح ہے ، کبھی سوچا ہے؟

    "الغرض ہم اس (سوشل میڈیا) کے ثمرات سے کما حقہ مسفید ہو رہے ہیں۔۔۔ بلکہ مستفید کیا، ہم تو اسی میں ڈوبے ہوئے ہیں. اب تو ہم نے اسے اپنا شریک حیات سمجھا ہوا ہے …. کہیں میں نے غلط لفظ تو استعمال نہیں کیا؟ چلو ایسی بات ہے تو دوشیزہ سمجھو!”

    سوشل میڈیا کو ایسا بس آپ ہی سمجھتے ہونگے، ورنہ تو اس کے بہت سے فائدے بھی ہیں بزرگوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ” سوشل میڈیا کا سب سے بڑا کمال جس نے انقلاب برپا کر دیا ہے ۔۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں لڑکیاں بہت زیادہ پیدا ہوتی ہیں اور تو اور یہاں بغیر اپریشن سکینڈوں میں آپ جو بننا چاہتے ہیں بن سکتے ہو کوئی قید نہیں۔ عمر کی شق تو سرے سے ہی نہیں اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ بیک وقت لڑکا اور لڑکی دونوں بھی بن سکتے ہو اور آپ خود کے دوست اور سہلی بھی بن سکتے ہو آپ شبو بن کر اپنے آپ نشو سے دوستی کی پینگیں بھی بڑھا سکتے ہو ایک نشو کیا پنکی منی ببلی سے بھی دوستی کر سکتے ہو۔”

    صاحب غلطی آپ ہی کی ہے۔ آپ جو ڈھونڈ رہے تھے وہ آپ کو ملا نہیں تو آپ سوشل میڈیا کو گالیاں دے رہے ہیں۔ دراصل اس میں سوشل میڈیا کا کوئی قصور نہیں کہ جس کو نشو یا پنکی سمجھ کر اپ نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا وہ بعد میں میں ببلو یا پپو نکلے۔ دوسری طرف بھی تو آپ جیسا کوئی استاد ہوسکتا ہے نا جی۔۔۔۔۔۔۔۔

  5. I read the Aeticle it is ery nice and interesting the author of this article i ean r Hidayatullah has done a great job he has pointed out the present situation socail media it self not a bad things if it shoud be used properly

Back to top button