کالمز

ماں جی کی نشست

شمس الحق قمرؔ گلگت 

ایک مہربان دوست نے فیس بک میں مجھے ایک صوتی کہانی میں TAG کیا ۔یہ کہانی ایک سکول ٹیچر کی تھی جو کہ ایک بچے کی زندگی کے گرد گھومتی ہے ۔ بحیثیت استاد اس کہانی نے نہ صرف مجھے بار بار سوچنے پر مجبور کیا بلکہ کئی مرتبہ پھوٹ پھوٹ کے رونے کے بعد بھی ذہن میں ایک تشنگی سی رہ گئی تو سوچا کہ اس کہانی کو ترجمہ کرکے قارئین کی نذر کروں شاید دل کی بھڑاس نکل جائے ۔ میں بار بار سوچتا ہوں کہ کتنا خوش قسمت ہوں میں اور وہ تمام جو اس میراث پیغمبری سے منسلک ہیں اور کتنا کم ظرف و بد نصیب ہوں میں اور وہ سب جو اس پیغمبرانہ پیشے سے تعلق تو رکھتے ہیں لیکن اس پیشے کی اصل روح کو نہیں سمجھ پائے۔

ایک دن مس عائشہ جماعت کے کمرہ جماعت میں دخل ہوئی تمام بچوں کے لئے اس کا پہلا جھوٹا جملہ یہ تھا ’’ بچو ! میں تم سب سے محبت کرتی ہوں‘‘ اُسے معلوم تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے وہ تمام بچوں سے محبت نہیں کرتی تھی کیوں کہ اُسی جماعت میں اسلم نام کا ایک ایسا بچہ بھی بیٹھا ہوا تھا جس پر نظر پڑتے ہی مس کی طبیعت خراب ہو جاتی تھی ، یہ بچہ پڑھائی میں بھی کمزور تھا اور صفائی ستھرائی کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی سُست تھا لیکن مس ہر روز سب سے محبت کی ڈھونگ رچاتی اور اندر ہی اندر سے کُڑتی اور اپنی جھوٹی اداکاری کا رونا دل ہی دل میں رویا کرتی ۔مس عائشہ کو اس جماعت کی زمہ داری لئے اب صرف تین مہینے ہو گئے تھے ، سکول کا قانون یہ تھا کہ ہر تین مہینے کے بعد بچوں کی کارکردگی پر مبنی رپورٹ والدین کو بھیجی جاتی لیکن یہ رپورٹ والدین کو بھیجنے سے پہلے ادارے کا سربراہ اُن تمام رپورٹ پر ایک نظر ڈالتا اور ضرورت کے تحت رپورٹ میں رد و بدل کروانے کے بعد رپورٹ والدین کو بھیجنے کی اجازت دیتا ۔مس عائشہ نے اسلم کی کارکردگی رپورٹ کے تمام خانوں میں عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا جس پر پرنسپل نے مس عائشہ کو بلا کر اُسے تاکید کی کہ کارکردگی رپورٹ کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو اُن کے بچوں کی اچھی کارکردگی کے بارے میں معلومات ملیں لہذا آپ کو یہ رپورٹ مثبت خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے ۔ عائشہ نے کہا کہ وہ اس معاملے میں مثبت رائے دینے کے حق میں بالکل نہیں ہیں۔

بہر حال پرنسپل ایک اچھا ماہر تعلیم تھا اُس نے فیصلہ کیا کہ بچے کی گزشتہ رپورٹ مس عائشہ کے حوالے کئے جائیں تاکہ اُسے اندازہ ہوکہ بچے کی تعلیمی کارکردگی ماضی میں کیسی رہی ہے ؟ مس عائشہ ایک ذمہ دار معلمہ تھی ،بچے کی گزشتہ رپورٹ بڑی توجہ اور انہماک سے پڑھ لیں ۔یوں رپورٹ میں درج دو جملوں نے مس عائشہ کو ہلا کے رکھ دیا ۔لکھا گیا تھا کہ ’’ اسلم اپنی جماعت کا سب سے قابل ترین طالب علم ہے‘‘ یہ جملہ محض بچے کی حوصلہ افزائی کے لئے لکھا گیا تھا کیونکہ اس کی والدہ کو کینسر کی بیماری تھی اس لئے وہ اپنے بچے کی پڑھائی اور زندگی کے دوسرے امور پر توجہ دینے سے قاصر تھی دوسرا جملہ گزشتہ رپورٹ کا یہ تھا ’’ اس بچے پر گہری توجہ کی ضرورت ہے ورنہ ہم اِسے کھو بیٹھیں گے ‘‘ ۔ یہ جملے اور بچے کی والدہ سے متعلق معلومات پڑھ کر مس عائشہ پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی اور  اسلم کے حوالے سے اُس کی تمام تر منفی سوچ اور رویّے مامتا کی محبت سے معمور ہو گئیں ۔

دوسر ے دن دوبارہ کمرہ جماعت میں داخل ہوئی حسب معمول وہی جملہ دوبارہ کس دیا کہ ’’ میں تم سب بچوں سے محبت کرتی ہوں ‘‘ لیکن اب کے بار بھی وہ جھوٹ بول رہی تھی کیو نکہ وہ اسلم کوباقی تمام بچوں سے بڑھ کر چاہتی تھی ، اُس پر سب سے زیادہ توجہ دیتی تھی اور جنون کی حد تک اُس سے محبت کرنے لگی تھی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا ایک دن وہ گھڑی آئی جب مس عائشہ کی جماعت کے تمام طلبہ نے میٹرک کے امتحان کے قریبی دنوں میں ایک الوداعی پارٹی کا اہتمام کیا ، سب بچوں نے مس کیلئے تحفے تحائف گفٹ پیک میں سجا سجا کر پیش کئے جس میں ایک تحفہ تھا جو کو پرانے اخبار میں لپٹا ہوا تھا. ظاہر ہے  کہ یہ تحفہ اسلم کا تھا کیو ں کہ اس کی ماں کینسر کی بیماری کی وجہ سے اپنے بیٹے کو اکیلا چھوڑ چل بسی تھی اس لئے جو تحفہ اسلم نے پرانے اخبار میں لپیٹ کے پیش کیا اس اخبار کے اندر ایک  استعمال شدہ زنانہ پرفیوم اور چاندی کی صرف ایک چوڑی تھی ۔ مس نے جب یہ تحفہ کھولا تو کمرہ جماعت میں اسلم کے ناقص تحفے کے تبادلے پر ایک زوردار قہقہ بلند ہوا ۔ مس نے یکدم اپنے جسم پر استعمال شدہ پرفیوم کا اسپرے کیا اور چوڑی اپنے دائیں کلائی پر سجا لی ۔ اسلم اپنی مس کے قریب گئے اور اُس کی آنکھوں میں پیار کی موتیاں ٹمٹما ر ہی تھیں اُس نے اپنی مس سے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’ آپ سے میری والدہ کی خوش بو آ رہی ہے ‘‘ یہ پرفیوم اسلم کی والدہ استعمال کرتی تھی اور چاندی کی وہ چوڑی تھی جو کہ اسلم کی والدہ کے آخری رسومات کے وقت دائیں کلائی سے نکالی گئی تھی یہ وہ لمحہ تھا گویا مس کو دو جہاں کی دولت مل گئی تھی کیوں کہ یہ جو بھی تھا اُس بچے کی طرف سے مالا تھا جسے مس عائشہ اپنے سگے بچوں سے بڑھ کر چاہتی تھیں۔دونوں کی آنکھیں اشکِ نشاط ومسرت سے لبالب بھری تھیں کیوں کہ اسلم کو مامتا کی بے لوث محبت ملی تھی اور عائشہ کو اُس کے پیشے کا معراج اور انسانی ہمدردی کا اوج کمال ۔

اس واقعے کے بعد رسم یہ چل نکلا کہ اسلم ہر سال کے آغاز میں اپنی مس کو ایک خط لکھتا اور ہر سال تکرارا کے ساتھ ایک ہی جملہ لکھتا اور وہ جملہ تھا ’’میں نے اپنی زندگی میں چند ایک مشفق لوگ دیکھے ہیں لیکن آپ نے سب سے بڑھ کے محبت دی ہے ۔ آپکا بیٹا اسلم ‘‘ چند سالوں تک مکتوب نگاری کا یہ سلسلہ جاری رہا پھر دھیرے دھیرے دونوں طرف سے مصروفیات بڑھیں اور مکتوب نگاری کا سلسلہ بھی مدہم پڑ گیا ۔پھر معلوم نہیں ہو سکا کہ اسلم کہاں چلا گیا ۔یوں وقت لمحوں ،دنوں ،مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہوتا گیا ۔ مس عائشہ اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئی، اسلم کو نہیں دیکھے اب ۱۰ سال بیت گئے تھے ۔ایک دن ڈاکئے نے ایک خط تھما دیا ، واپسی پتے پر لکھا ہوا تھا ،ڈاکٹر اسلم ۔

اسلم پی ایچ ڈی امتیازی نمبروں سے مکمل کر چکا تھا ۔یہ خط ڈاکٹر اسلم کی شادی کا دعوت نامہ تھا لیکن اس خط کے آخر میں لکھا ہوا تھا ’’میں نے اپنی زندگی میں چند ایک مشفق لوگ دیکھے ہیں لیکن آپ نے سب سے بڑھ کے محبت دی ہے ۔ آپکا بیٹا اسلم ‘‘ مس عائشہ کا دل باغ باغ ہو گیا ۔مقررہ تاریخ پر مقررہ جگہے پرجب پہنچی تو ڈاکٹر کی تقریبِ شادی خانہ آبادی میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔مس عائشہ جاکے پائیںِ نشست ایک کرسی پر بیٹھ گئی لیکن بہت جلد اُس جگے سے اُٹھائی گئی اور ایک محافظ نے رہنمائی کرتے ہوئے سب سے آگے والی صف میں پہنچا دیا ۔ اسلم مس عائشہ سے کافی دیر تک چمٹا رہا اب بھی دونوں کی آنکھوں میں آنسووں کا سمندر اُسی طرح موجزن تھا جسطرح سکول کی الوداعی تقریب میں تحائف کے تبادلے پر ہوا تھا ۔ مس عائشہ اسلم کے، تحفے پر دئے ہوئے پرفیوم کو خاص خاص موقعوں پر استعمال کیا کرتی تھی اور چاندی کی چوڑی بھی بڑی احتیاط سے استعمال کیا کرتی تھی ۔آج مس عائشہ نے اُسی پرفیوم کا اسپرے کیا تھا اور دائیں کلائی میں اسلم کی سگی ماں کی وہی چاندی کی ایک چوڑی باندھی ہوئی تھی ۔ رسمِ مضاحفے کے بعد اسلم نے مس عائشہ کو ایک سجی ہوئی نشست پر بیٹھنے کا اشارہ کیا جس پر لکھا ہوا تھا (ماں جی ).

اسلم نے ماں جی کا تعارف ان الفاظ میں کیا ’’ اس نشست پر میری ماں جی تشریف فرمأ ہیں ۔ ماں جی! اگر آپ کی محبت شامل حال نہ ہوتی تو شاید آج میں اس مقام پر نہ ہوتا یہ سب تیری مہربانی اور تیرا دیا ہوا حوصلہ ہے ‘‘ ۔پھر ما ں جی نے اپنے خیالات کا کچھ اس انداز سے اظہار کیا ’’ اسلم تم نے مجھے یہ احساس دلا یا کہ ایک ٹیچر پہلے ماں ہوتی ہے پھر ٹیچر ‘‘ ۔

اس کہانی کو بیان کرنے والے شخص نے تمام اساتذہ سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر سکول کے ہر کمرۂ جماعت میں ایک اسلم ضرور ہوتا ہے جس کا خیال رکھنا اور اُس سے حقیقی والدین جیسا سلوک کرنا ہمارا فرض ہے کہیں ہم کسی اسلم کو کھو نہ دیں

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button