کالمز

امن ایک خواب

ذہنی امراض کے ایک ہسپتال کا دورہ کرتے ہوئے  ایک وزیر  نے ڈاکٹر سے پوچھا  آپ کو یہ کیسے معلوم  ہو جاتا ہے  کہ مریض صحت یاب ہوگیا ہے ۔ ڈاکٹر نے جواب  دیا سر  وہ سامنے  جو پانی کا ٹینک  ہے  ہم اس میں  نلکا کھول دیتے ہیں  پھر مریض  کو بالٹی دے کر  کہتے ہیں  کہ ٹینک  خالی کرو۔۔وزیر نے پوچھا  لیکن اس طرح کیسے معلوم  ہو جا تا ہے۔ ڈاکٹر نے جواب دیا   ۔سر جومریض  صحت یاب ہو جائے  وہ فوراً   نلکا بند کر دیتا ہے ۔۔وزیر بولا  واہ  کیا عمدہ ترکیب ہے  میرے ذہن میں نہیں  آئی ۔۔ گلگت بلتستان میں   بھی کچھ ایسا ہی معاملہ نظر  آرہا   ہے ۔لگتا ایسا ہے کہ یہاں کے لوگ  بھی ذہنی مریض بن چکے ہیں ۔اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ٹینکی خالی کرو تو بجائے یہ نلکا بند کرنے کے  ٹینک  خالی کرنے پر  لگ جاتے ہیں  اور یہاں کے کرتے دھرتے حکمرانوں کو بھی  کسی کے سمجھانے کے باوجود بھی    یہ بات سمجھ نہیں آتی  وہ اس لئے کہ ٹینکی خالی کرنے سے پہلے  اگر نلکا بند  کر دیا گیا تو  ان کی دال نہیں گھلنے والی. اس لئے  وہ چاہتے ہیں کہ  ساری قو م ذہنی کرب اور ذہنی مرض میں مبتلا رہے اور ان کی دکان  چلتی رہے ۔

سکول سے آتے ہوئے دو بچوں  کی نظر ایک بورڈ پر پڑی  لکھا تھا کہ  کالے جادو کا توڑ روحانی عمل  سے علاج دشمن آپ کے قدموں میں  محنت کے بغیر  امتحان میں کامیابی روحانیت اور محنت  کے بغیر کامیابی  حاصل کرنے کے لئے بھی گلگت بلتستان کے باسی  سب سے بازی لے گئے ہیں  یہاں کے روحانی طبیب  اللہ  میاں کے چھوٹے بھائی کچھ ایسے ہی  بورڈ لگا کر لوگوں کا علاج کر رہے ہیں اور انہیں ایسی ایسی تعویزیں  عنایت کر رہے ہیں کہ  اللہ اللہ خیر سلااور ساتھ میں  یہ ہدا یت بھی  کرتے ہیں کہ خبردار تعویز  کو کبھی نہ کھولنا  ورنہ اس کا بڑا نقصان ہو سکتا  ہے اور ہم ہیں کہ   اندھی تقلید  اور ان کی بات کو قران کا حرف سمجھ کر  ایسے عمل پیرا ہو جاتے ہیں کہ اگر  ان روحانی اطبا کی  باتوں  پر عمل نہیں کیا تو  جنت کے حصول   میں دشواری  کا سامنا  ہو سکتا ہے اور  روحانی طبیب    بدلے میں کیا   ہدیہ وصول کرتے ہیں اس کو بیان کرنے کی  قطعً  ضرورت نہیں      یہاں کے    سبھی  باشعور لوگ  اس سے واقف ہیں۔ کیا مجال ہے کہ کوئی یہ پوچھے کہ اے  وقت کے حکمرانو اور روحانی  طبیبو   کیوں  ٹینکی خالی کرنے سے پہلے نلکا بند نہیں کروادیتے ہو اور کیوں  محنت   کے بغیر   کامیابی حاصل کرنے  کے جھانسے دے کر  یہاں کے معصو م اور سیدھے سادھے مسلمانوں  کی سوچوں  کو منجمد کرنے پر تلے ہوئے ہو ؟  اور جب کبھی بھولے سے  کوئی ایسے سوالات پوچھنے  کی ہمت کر بھی لے تو   اسے   ایسے ایسے القابات سے نوازا جاتا ہے کہ    ہاتھ  خود بخود کانوں کو چھونے لگ جاتے ہیں اور توبہ ہی بھلی لگتی ہے ۔ایسی باتیں صرف وہی لوگ ہی کر سکتے ہیں جو کسی لالچ کا شکار نہیں ہوتے اور صرف اور صرف اپنی محنت سے آگے بڑھنے  کے خواشمند ہوتے ہیں  اور  ایسے  لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے  ۔ وہ اس لئے کہ سچ سننے  کے  لئے کوئی تیار نہیں اور سچ بولنے والے  بھی کم ہیں ۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ    یہاں کے اخبارات اور رسائل جنکے  پہلے صفحے میں  سچائی اور حق پرستی کے نعرے درج ہیں  وہ بھی  سچ کو چھاپنے کے بجائے      مکھن  لگانے کے ماہر ۔ نہ جانے   ان کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ مریض مکھن   اور میٹھی چیز کھلانے سے نہیں بلکہ   کڑوی  دوائی پلانے سے ہی صحت یاب ہوگا  اس لئے آج  دل کرتا ہے کہ  کچھ کڑوی باتیں کی جائیں   ان کے بغیر کوئی چارہ نہیں چاہئے ان باتوں کے بدلے  جو بھی لیبل لگتا ہے لگے۔

آفس کے کا م میں مصروف تھا کہ    کسی طالب علم کی آواز آئی  ۔مے آئی کم ان سر  ۔میں نے جواب میں کہا  ۔یس کم ان  ۔لڑکا اندر آیا اور کہا کہ  سر قراقر م یونیورسٹی میں   ہنگامہ ہوا ہے  اور لڑکے کہہ رہے ہیں  کہ   سکول بند  کریں  میں نے طالب علم کو ٹوک دیا اور کہا کہ  یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس وقت سکول بند ہونے میں دو گھنٹے باقی  تھے ۔اس خبر کی وجہ سے  اساتذہ او رلڑکے بڑے پریشان ہوئے اساتذہ نے  ایک د م سے اپنے اپنے موبائل  اٹھائے  اور اپنے عزیزوں کی خریت معلو م کرنے لگے  ۔میں حیران اور پریشان  دیکھتا رہا کہ یا الہیٰ یہ ماجرہ کیا ہے  پڑھائی وغیرہ کیا ہونی تھی.  سب گھبرائے ہوئے پریشان  اور یوں دو گھنٹے   بغیر پڑھائی  کے قراقرم یونیورسٹی  کی    مذہبی تقریب    منانے  اور   مخالفت کے تنازعے  کی نذر ہوگئے     آفس  سے نکل کر مارکیٹ  کی طرف  چل پڑا  تو شہر  کا ماحول   بھی بدلا  بدلا  سا پایا.  ایک ہی موضوع  تھا   قرا قرم  یونیورسٹی  کا تنازعہ ۔ٹائر جلا کر روڈ ز بلاک کردئے گئے تھے.   سکولز کے  طلبا پریشان اساتذہ پریشان والدین پریشان   کوئی ایسا نہیں تھا جو پریشان نہیں تھا  اگر پریشان نہیں تھے  تو وہ لوگ نہیں تھے  جنہوں نے اس ڈرامے کو سٹیج کیا تھا ۔

مذہبی تقریبات جو مسلمانوں کے لئے  محبت اور چاہت کا پیغام  ہوتی  تھی  اب ان تقریبات نے بھی فرقہ واریت کا روپ دھار لیا ہے اور چند    ڈالر پسند لوگوں کی وجہ سے    بجائے محبتیں اور قر بتیں بڑھانے کے نفاق کی علامت بن  گئی ہیں اور اب دنگل  بج چکا  اور یہ دنگل  شروع کرنے والے اور کوئی نہیں  یہ وہ لوگ ہیں جن کو  ہم اور آپ نے  اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا ہے  جنکا کا م انصاف فراہم کرنا تھا انہوں نے    یہاں کے باسیوں کے اندر  نفاق اور نفرت کے بیج بوئے ہیں جس کی  کوئی انتہا نہیں ۔میں سوچوں میں گم تھا اور   خیالوں میں یورپ کے تعلیمی اداروں  اور اپنے ملک کے تعلیمی اداروں کا موازنہ کر رہا تھا.   میرے علم کے مطابق  یورپ کے  کے کسی تعلیمی ادارے میں   حضرت عیسےٰ کا دن  منانے  کی کوئی تاریخ نظر نہیں آتی.  کسی ہندو ملک میں گوتم بدھ کا دن منانے کا  منظر  آنکھوں میں نہیں گھومتا.  یہاں تک کہ  پاکستان سمیت کسی مسلمان ملک میں اللہ کے محبوب اور ختم الر سل  کا دن    نہیں منا یاجاتا ۔۔

اسی اثنا    میرے  کانوں میں  شور شرابہ کی آوزیں پڑی کچھ جوشیلے نوجوان   انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے اور   اس واقعہ  میں انتظامیہ کو  اصل ذمہ دار ٹھرا رہے تھے  کہ ا نتظامیہ کو تقریب کے حوالے  سے پچھلے کئی ہفتوں سے جاری   کشیدگی  کاعلم ہونے کے باوجود   اس کشیدگی کو کم  یا ختم کرنے کے بجائے اسے عروج تک پہنچایا  حالانکہ  حکمرانوں کو  اس کے منفی اثرات سے آگاہ کیا گیا تھا.لیکن اس کے باوجود  قراقرم یونیورسٹی میں  ہنگامہ اور مذہبی تقریب کے منانے  کی ہٹ دھرمی  اس بات کی غمازی کر تی ہے کہ   کہ  یہاں کے باسی اور انتظایہ گلگت بلتستان میں امن  قائم کرنا نہیں چاہتے اور امن کے نا م پہ  انتظامیہ پیسے بٹور رہی ہے اور اپنے چیلوں  کو نوازنے کی پالیسی پر گامزن ہے  اور یہاں کے مسلک زدہ وزیر اور ممبر گلگت کےمعصو م اور بے گناہ لوگوں کے جانوں سے کھیل کر  اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں   ۔۔ممکن ہے کہ کئی لوگ ا س   کالم کو تعصب پرستی کا لیبل   بھی لگا دیں  کوئی جو سجھتا ہے تو    سمجھ لے  لیکن حقیقت  یہی ہے کہ گلگت بلتستان میں شر فساد  اور بے امنی صرف اور صرف  پڑھے لکھے جاہل ااور  عقل کے اندھے مسلک زدہ سیاسی لیڈروں کے ہاتھوں کھلونا بن کر  علاقے میں انتشار پھیلانے کے ذمہ دار ہیں.

اس سے پہلے بھی  ایک کالم میں نشاندہی کی گئی تھی کہ اس سارے جھگڑے میں مذہب سے زیادہ سیاسی عزائم صاف اور واضح  نظر آتے ہیں  اور  قراقرم یونیورسٹی میں مذہبی تقریب  کو ہر حال میں منعقد  کروانے کی ذمہ داری  صوبائی حکومت کا حصہ ہیں.   وہ  لوگ  جو اصل صورت حال سے نا واقف جنہوں نے اس تقریب کو  اپنی انا کا مسلہ بنایا یونیورسٹی اور گلگت کے ماحول کو ایک مذہبی تقریب کے بہانے محبت بڑھانے کے بجائے   نفرتوں کو جنم  دینے کے آلہ کار بنے  وہ کس منہ سے دوسرے فریق کو  تعلیی اداروں میں مذہبی تقریبات منانے سے روک سکیں گے ۔  اگر  حکومتی اہلکار  اور وزیروں کی سرپرستی  میں  مذہب کو آڑ بنا کر  سیاسی اور ذاتی گھناونے  کھیل جاری رہئنگے تو  امن اور انصاف کیونکر ممکن ہوگا     ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ جس سچ سے جھگڑے کا احتمال ہو وہاں اگر جھوٹ سے امن  اور صلح کی گنجائش نکلتی ہو تو اس  سچ سے  جھوٹ بہتر ہے  ۔ایک اچھے  ماحول کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے اگر  یہ مذہبی تقریب کسی مسجد  یا   کھلی جگہ میں منعقد کی جاتی    اور سب فرقوں سے تعلق رکھنے ولوں کو دعوت دی جاتی تو   یہ کتنی اچھی بات ہوتی اور  یوں اس  مذہبی تقریب سے  نفرتیں بڑھنے کے بجائے  چاہت کے  پھول بکھرتے  اور اس کا مقصد بھی پورا ہوتا  لیکن  اسلا م کے ٹھیکیداروں کو یہ بات کہاں پسند ہے وہ تو اسلا م کے نا م پر اپنی نمبرداری اور دکانداری چمکانے میں مصروف ہیں ان کو اسلا م سے کیا غرض ہے  ان کا اسلا  م تو   دن  منانے کی حد تک ہے        جن کو منانے کے ٹھیکے ان کو ملے ہیں اور  یہ ایسے پراجیکٹ ہیں کہ    بجائے مکمل ہونے کے  ہر وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار  رہتے ہیں اور بنتے نہیں بنتے  اور کبھی تکمیل   کے مرحلے تک نہیں پہنچتے  اور پہنچنا بھی مشکل ہے  وہ اس لئے کہ  اس  ایشو  سے  کئی لوگوں کے   بنک بیلنس میں اضافہ ہوتا ہے   ۔مساجد بورڈ  پارلمانی کمیٹیاں اور اس سے  متعلق  دیگر ادارے بھی   لوگوں کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں    ان کو اس کام کے بدلے پاکٹ منی مل ہی جاتی ہے ۔

ان باتوں  سے کوئی یہ  نہ سمجھے کہ راقم امن کی مخالفت یا  اسلام اور آئمہ کرا م  کی شان  میں  گستاخی   کر نے بیٹھا ہے ۔ان ہستیوں کی  شان تو بہت اونچی ہے.  کوئی ان کے خاک پا تک نہیں پہنچ سکتا    ۔تکلیف  بس اس بات کی ہے کہ   جو لوگ ان پاک ہستیوں کے ناموں  پر اپنی سیاسی اور مذہبی مفادات   کے لئے  مذہبی لبادے میں  شیطانی ہتھکنڈے استعمال کر کے   اس علاقے کو  خون سے رنگنا چاہتے ہیں  ان دشمنوں کو یہاں کے لوگ پہچان نہیں پا رہے۔  علاقے میں امن امان اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کے لئے  برے کو برا اور  اچھے کو اچھا کہنے کی جرات پیدا کرنی ہوگی اور  بغیر محنت   کے کامیابی دلانے والے نا م نہاد  روحانی  حکیوں اور  جھوٹے تعویزوں  سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا.  ن سے چھٹکارہ پائے بغیر   گلگت بلتستان میں امن قائم ہونا ایک خواب کے سوا اور کچھ نہیں.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button