چترال

چترال میں شکار کا سیزن ،مرغابیوں کا قتل عام شروع

چترال (جہانزیب) سردیوں کے موسم خصوصاً فروری اورمارچ کے مہینوں کو اگر مرغابیوں کے بے دریغ قتل عام کا سیزن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ شکار کے سیزن کے آمد سے قبل ہی شکار کے شوقین حضرات دریائے کے کناروں پر مصنوعی تالاب بنانے کا آغاز کرتے ہیں۔ اصولی طور پر پانی یہ تالاب پرندوں کے مختلف انواع و اقسام کے لئے مسکن ہوتے ہیں مگر حقیقت میں یہ تالاب بے زبان مخلو ق خدا کے لئے مقتل گاہ بن رہے ہیں جہاں پر مرغابیان سکون اور آرام کی نیت سے اترتے ہیں مگر بعد میں شکاریوں کے پیٹ میں اتر جاتے ہیں۔ پرندوں کا شکار نا جائز نہیں مگر جس طرح کا شکار چترال میں ہورہا ہے یہ کسی بھی صورت ظلم عظیم سے کم نہیں۔درحقیقت چترال ان پرندوں کا مسکن نہیں بلکہ گزرگاہ ہے کیونکہ یہ پرندے دو مواقع پر چترال کا رخ کرتے ہیں۔ ماہرین کا مانناہے کہ یہ پرندے سائبیرین نسل کے ہیں اور وہیں انکا مستقل مسکن ہے مگر جب سائبیرین علاقوں میں موسم نا موافق ہو تی ہے تو یہ پرندے دوسرے معتدل آب وہواوالے علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور پھر جب انکے قدرتی مسکن میں موسم برابر ہو جائے تو یہ پرندے دوبارہ اپنے اصل مسکن کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ضلع چترال ان مسافر پرندوں کا اہم ترین گزرگاہ ہے مگر سفر کے ان دو مواقع پر انکی بے دریغ نسل کشی کی جاتی ہے۔ ضلع چترال کے طول و عرض میں مرغابیوں کے شکار کے لئے بڑے بڑے تالاب بنائے جاتے ہیں جن پر لاکھوں روپے لاگت آتی ہے۔ اسکے بعد بے دریغ اور بیدردی سے شکار کا آغاز ہو تا ہے۔ چترال میں شکار کھیلنے کے حوالے سے کوئی قوانین نظر نہیں آتے ہیں جسکی وجہ سے جسکا جتنا جی چاہے آبی حیات کی بیخ کنی میں مصروف ہے۔ شکار کے اس عمل کے شوقین اکثر با اثر لوگ ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں کام کرنیوالے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سیزن میں ان پرندوں کی افزائش کا وقت بھی ہوتا ہے لیکن بے دریغ شکار کی وجہ سے نہ صرف یہ مرغابیاں مارے جارہے ہیں بلکہ انکے افزائش پر نہایت ہی منفی اثر پڑ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے سیزن میں ان پرندوں کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔

حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے یہ اسٹے آرڈر جاری کیا ہے جسکے تحت سائبیرین مرغابیوں کے شکار پر پابند عائد کی گئی ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے اس اسٹے آرڈر کے توسط سے چترال میں بھی مرغابیوں کے شکار پر پابندی عائد کی جائے یا کم ازکم اس کے حوالے سے کوئی ضابطہ تشکیل دیا جائے تا کہ حیاتیاتی تنوع کے ان اہم عناصر کی نسل کشی رک سکے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button