کالمز

استحکام پاکستان کے لئے حقیقی جمہوری نظام ناگزیر

تحریر بائی ایم غازی خان آکاش(ایڈوکیٹ)

ہم اور آپ وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان سے عقیدت اور محبت رکھتے ہیں تو پھر ہم اور آپ کو اس کا عملی مظاہرہ بھی کرنی کی ضرورت ہے۔وطن عزیر پاکستان ہم اور آپ سب کا وطن ہے اس لئے ہم سب کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے استحکام کے لئے ہر قربانی سے دریغ نہیں کرنی چاہیے۔ہر شخص کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ حقیقی جمہوری نظام حکومت کی بحالی اور جمہوریت کی مضبوطی کے لئے عملی جدوجہد کریں۔عوام میں سیاسی و سماجی شعور بیدار کریں اسطرح یہ مشن پورے ملک کے شہروں سے دیہاتوں تک وسعت دے دی جائے جب تک عوام یا عام آدمی کے اندر سیاسی شعور کو بیدار نہ کیا جائے تب تک جمہوریت اور جمہوری اقدار محض ایک خواب بن کر رہ جاتے ہیں۔چونکہ ہمارے ہاں جمہوریت کے نام الیکشن تو ہوتے ہیں حکومتیں بھی بنتی ہے اور یہ حکومتیں عوام کے ہی ووٹوں سے قائم ہوجاتی ہے مگر عام آدمی کو جمہوری نظام حکومت کا مفروضہ معلوم نہیں ہوتا۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک میں مخصوص طبقات عوام کی جمہوریت لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے آرہے ہیں اور الیکشن میں نت نئے نعروں اور جھوٹے وعدوں سے سادہ لو عوام کو بڑے اور سہانے خواب دکھا کر اقددار حاصل کرنے کے لئے ووٹ وصول کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے ذاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہیں اوراصل جمہوریت کو لپیٹ کر پارلیمان کے آلماریوں میں رکھ دیتے ہیں گو کہ جمہوریت دنیا کا بہترین نظام حکومت ہیں یہ نظام حکومت اس لئے بہترین ہے کہ یہ نظام عوام کے لئے ہوتا ہے اور عوام ہی کے ذریعے قائم کیا جاتا ہے لیکن وطن عزیز کے جمہوری نظام میں فرق یہ ہے کہ یہاں حکومت عوام ہی کے ذریعے قائم ہوتی ہے لیکن عوام کے لئے نہیں بلکہ صاحب اقددار و صاحب اختیار طبقات کے اپنے خاندانوں، عزیز و اقارب ،دوستوں اور کاروباری شراکت داروں کے لئے ہوتی ہے نام حکومت جمہویت ہی ہوتا ہے لیکن عملی طور پر جمہوریت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے عوام کی جمہوریت سے وابستگی ویسی نظر نہیں آتی جو ہونی چاہیے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام میں جمہوریت سے متعلق آگاہی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے عوام کو کس طرح یقین دلایا جائے کہ عوام کے تمام معاملات و مسائل کا حل جمہوری نظام حکومت کے ذریعے ممکن ہے اس کے لئے ہر ذی شعور فراد یا اشخاص کو حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے عملی طور پر جدوجہد تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے جمہوری نظام حکومت ایسا نظام حکومت ہے جس میں عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام ہی کیلئے ہوتی ہے۔

Captureیہ نظام حکومت بہتر تو ہے مگر اس نظام حکومت کو حقیقی معنوں میں کس طرح عوامی جمہوری نظام حکومت بنایا جائے جس سے عوام کو معلوم ہو کہ اس جمہوری نظام میں عوام کے تمام معاملات کا حل موجود ہیں اور عوام کو اس کی افادیت پر پورا بھروسہ بھی ہو جس کیلئے حقیقی جمہوریت کو عوامی خواہشات اور عوام کی مرضی کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا۔

شفاف مردم شماری بمعہ تصدیق بھی کرنی ہوگی ،الیکشن کمیشن میں ذمہ دار اور دیاندار سٹاف کی تقرری میرٹ پر کی جانی چاہیے، ووٹ کاسٹ کرنے کا جدید ترین نظام رائج کرنا ہوگا،پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمروں سے مونیٹر کیا جائے،قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے لئے میرٹ کی بنیاد پر ٹیکٹ دیا جائے ،امیدواران دیاندار،عوام دوست،باصلاحیت،فرض شناس اور با اخلاق ہوں ہر امیدوار کے لئے لازم ہو کہ وہ اپنے حلقے کے کل مجموعی آبادی کے تناسب سے ووٹ کی مجموعی تعداد میں سے ستر فیصد ووٹ حاصل کریں تاکہ وہ حقیقی معنوں میں عوامی نمائندہ یا نمائندے قابل قبول ہونگے اگر کسی امیدوار نے ستر فیصد ووٹ نہیں لے سکیں تو پھر پچاس سے ساٹھ فیصد ووٹ لینے والوں کے درمیان دوبارہ الیکشن کرایا جائے تاکہ ان میں سے جو ستر فیصد ووٹ حاصل کریں گا اسی کو کامیاب قرار دیا جائے گا۔اور یہی طریقہ اپنانے سے جمہوریت کو فروغ ملے گا اور اس سے کم ووٹ لینے والے کو ہار تصور کیا جائے گا۔ہر حلقے سے ووٹوں کی مقدار کو ستر فیصد پر محیط کرنا چاہیے کیونکہ کئی حلقوں میں لاکھوں کی آبادی میں سے چند ہزار ووٹ حاصل کرنے والے کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے جو جمہوریت کے لئے بھی اور عوام کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔اس طرح ہر وہ نظام جو جمہوریت سے واسطہ رکھتا ہے صاف اور شفاف ہونا چاہیے اور عوام کو ان تمام معاملات تک با آسانی رسائی حاصل ہونا چاہیے تاکہ عوام خود سے تمام معاملات کی آگاہی حاصل کرسکیں۔اور بہتر فیصلے کر سکیں گے جس سے جمہوریت مضبوط اور مستحکم ہوگی۔اچھے باصلاحیت ،دیاندار،عوام دوست ،بااخلاق لوگ اقتدار میں آئیں گے تو وہ عوام کی جان مال،عزت نفس اور دیگر معاملات میں بہتری لائیں گے،معیشت میں استحکام لائیں گے،بہتر اور عوامی امنگوں کے مطابق قانون سازی ہوگی۔داخلہ پالیسی اور خارجہ پالیسی ملک و قوم کے مفادات کے مطابق بنائیں گے ،ہمارے تمام اداروں کو مضبوط بنائیں گے،ملکی دفاع کو مضبوط تر بنائیں گے،طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرکے یکساں نظام تعلیم لائیں گے،میرٹ کو بحال رکھیں گے،بے روزگاری کے خاتمے کیلئے بہتر منصوبہ بندی کرکے سالانہ تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات روز گار کا بندوبست کریں گے ،کم تعلیم یافتہ اور ان پڑھ لوگوں کو انکی صلاحیت کے مطابق ہنر سکھانے کا انتظام اور روز گار کے ذرائع گاؤں گاؤں،شہر شہر اور قصبوں تک پھیلائیں تو یہ سمجھا جائے گا جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے۔جمہوریت حقیقی معنوں میں بحال ہوگی تو پھر جمہوری نظام حکومت کامیاب ہوگا اور اس طرح عوام خوشحال ،امن پسند،تعلیم یافتہ ہونگے تو ترقی یافتہ کہلائیں گے تو پاکستان میں استحکام آئیں گا اور جب تک ہر شخص عام و خاص فرض شناسی سے استحکام پاکستان کے لئے کام نہیں کریں گا تو جمہورت محض ایک خواب رہے گا۔محض جمہوریت کا نام لے کر الیکشن کرانا اور چند طبقات کو ایوانوں میں لانا پھرعوام کے نام پر اپنے ذاتی ایجنڈوں پر کام کرنا عزیز و اقارب نوکریوں سے نوازنا ،اعلی عہدوں پر اپنے لوگوں کو تقرر کرنا،نپوٹیزم نظام کو فروغ دینا اور اسی کو جمہوریت کا نام دینا ایک دھوکہ ہوگا عوام کے لئے اور جمہورت کے لئے بھی دھوکہ ہوگا۔پھر ایسی جمہوریت سے تو عوام کے لئے فوجی امریت ہی افضل ہوگی کیونکہ عام آدمی کو براہ راست کوئی فرق نہیں پڑتا صرف ایوانوں میں نمائندے نہیں ہوتے بلکہ عوام کے ہر دل عزیز عوام کے خیر خواہ محب وطن ہوتے ہیں جو عوام کا استحصال نہیں کرتے اور نہ ہی عوام سے جھوٹے وعدے اور دھوکے دیتے ہیں بلکہ مشکل کی ہر گھٹری میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔گویا براہ نام جمہوریت اور امریت میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا کیونکہ امریت میں وردی والے ہوتے ہیں ،برائے نام جمہوریت میں بے وردی والے ہوتے ہیں۔جمہوری امریت میں مخصوص لوگ ایوانوں میں ہوتے ہیں جو عوامی منشور کے بجائے اپنے ذاتی منشوروں پر کام کرتے ہیں المختصر یہ کہ حقیقی جمہوریت کے لئے جدو جہد لازمی ہے جب حقیقی جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونگی تو عوام کو انکی مسائل حل ہوتے ہوئے نظر آئیں گے عوام کے منشاء و خواہش کے مطابق قوانیں بنیں گے اور ترامیم بھی عوام ہی کے مفاد میں ہونگی اسطرح تمام قومی ادارے جب مضبوط ہونگے تو ملک میں امن و آشتی آئیں گی تمام محروم طبقات کو قومی دھارے میں لایا جائے گا،عدل و انصاف کے جدید اور بہتر نظام کو فروغ ملے گا عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم ہوگا ،تما م اسکولوں اور مدارس کو جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا،اور دینی تعلیم کو ہر لیول پر لازم کرنا ہوگا،سرکاری دفاتر سے عوام کو بد دلی نہیں ہوگی بلکہ انصاف کی توقع رکھیں گے،معاشرے میں بھائی چارے کی فضا قائم ہوگی،جدید اور اعلی تعلیم ترقی و خوشحالی کی ضامن ہوگی ملک میں خوشحالی ہوگی تو امن بھی ہوگا اور جمہوریت مقبول و مضبوط ہوگی اور ملک میں استحکام آئیں گا۔ہم سب کو استحکام پاکستان کیلئے حقیقی جمہوری نظام حکومت کی حمایت کرنی ہوگی اور حقیقی جمہوریت کی بحالی اور استحکام پاکستان کے لئے اہم کردار میڈیا کا ہے خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکڑونک میڈیا بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حقیقی جمہوری نظام کی بحالی کیلئے عوام میں شعور بیدار کرنے کی سب سے اہم ذمہ داری میڈیا والوں پر عائد ہوتی ہے ،ذمہ دار میڈیا خلوص نیت سے عوام میں جمہوریت کی بحالی کیلئے شعور بیدار کرنے کا عزم لے کر آگے بڑھے تو وجہ نہیں کہ بہت مختصر عرصے میں ملک میں حقیقی جمہوری نظام حکومت کو تقویت ملے گی اور عوام خوشحال ہوگی اور ملک میں استحکام آئے گا اور اس کا کریڈٹ بھی میڈیا کو جائے گا۔

لیکن اگر میڈیا اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کرتا محض کاروبار کریں تو پھر کبھی بھی حقیقی جمہوریت نہیںآسکتی اس لئے تمام اداروں کی مضبوطی ملک کے بہترین مفادات کیلئے اپنا ذاتی مفادات کو قربان کرنا ہوگا جس میں ہم سب کی بھلائی ہے اور جمہوریت کا حسن یہ کہ عوام سے سچ بولا جائے،سچا منشور دیا جائے اور اس پر عمل در آمد کیا جائے جو کچھ عوام کے مفاد میں کہا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور عوام کی آراء کو فوقیت دیا جائے حقیقی جمہوریت کی بحالی سے عوام کی معیار زندگی میں بہتری آئے نہ کہ خستہ حالی ۔اگر جمہوری نظام حکومت عوام کیلئے ہے تو پھر عوام کے معیار زندگی اور سٹیٹس میں بہتری آنا چاہیے۔ اور اس طرح حقیقی جمہوری نظام کو رائج کیا جائے۔

’’ عوامی حکومت عوام کے ذریعے عوام ہی کے لئے ہوتی ہے‘‘ (ابراہم لنکن)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button