کالمز

انجا م کا ہو خطر ہ آ غا ز بدل ڈالو

نا ہیدہ غا لب

اِ س کا ئنا ت کو چلا نے کے لیے اللہ تبا ر ک و تعا لیٰ نے کچھ قو ا نین و ضو ا بط بنا ئے ہیں۔اور انہی قوا نین کے تحت دینا کانظام چلتا ہے۔صبح کے بعد شا م کا ہو نا،دن کے بعد را ت کا ہو نا ،را ت کو تا ر و ں کا او ر چا ندکا نکلنا پھر صبح کو سو ر ج کا نکلنا وغیر ہ وغیر ہ اللہ کے بنا ئے ہو ئے قوا نین کا منہ بو لتا ثبو ت ہے۔کیا کبھی آ پ نے یہ سو چا ہے کہ اگر اِس کا ئنا ت کے بنا نے وا لے نے کا ئنا ت کو چلا نے کے لیے کوئی قانون نہ بنا تا تو کیا ہو تا ۔؟کیا جس طر ح سے آ ج یہ کا ئنا ت قا ئم ہے او ر جس خو بصو ر تی سے کا ئنا ت کا یہ نظا م چل رہاہے، بغیر قوا نین کے اِ س کا ئنا ت کا کیا حا ل ہو تا۔؟قوا نین کا اطلا ق کیے بغیر زند گی کے ہر پہلو میں ہمیں بد نظمی اور بے ڈھنگا پن نظر آ ئے گا۔کیو نکہ زندگی کے ہر پہلو ،ہر شعبے کی لیے قوا نین و ضو ا بط مقرر ہیں اور ان پر عمل پیرا ہو نا ہر فر د کے لیے لا زم ہے۔

changeدسمبر کی وہ کو نسی تا ر یخ تھی یا د نہیں جب ہمارا گلگت جا نا ہوا۔ گلگت کی سڑ کیں کھچا کھچ گا ڑ یو ں سے بھر ی پڑ یں تھی۔با زا ر و ں میں خو ب چہل پہل تھی ۔ہر ایک اپنی زند گی کی رنگینیو ں میں مست نظرآ رہا تھا ۔ہم نے گا ڑی سڑ ک کے کسی کنا ر ے کھڑ ی کی اور قر یب ہی کسی دُ کا ن میں کچھ لینے کی غر ض سے چلے گئے۔ابھی کچھ خر ید نے ہی لگے تھے کہ لو ڈ سپییکر کی آ واز آئی ،جس نے ہمیں اپنی طر ف متو جہ کیا ۔۔۔ کچھ اِ س طر ح کے جملے سنا ئی دیے ۔۔۔۔’’یہ جو جا پا نی گا ڑ ی سڑ ک کے کنا ر ے کھڑ ی کی گئی ہے وہ سڑک کی غلط جا نب کھڑ ی کی گئی ہے۔جس کی بھی ہے جلد آ کر صحیح جا نب کھڑ ی کر یں ،نہ کر نے کی صو ر ت میں قا نو نی کا رروا ئی عمل میں لا ئی جا ئے گی۔‘‘ ہم نے بھا نپ لیا کہ یقیناََ ہم غذر کے ر ہنے وا لے ہیں اور وہا ں ٹر یفک کے قوا نین ہو ں گے لیکن ہمیں کبھی سیکھا یا نہیں گیا کہ اِ ن پر کس طر ح سے عمل کر تے ہیں ،ہم فو ر اََ دُکا ن سے با ہر نکلے تو پتہ چلا کہ جنا ب کا اشا رہ ہما ر ی طر ف ہی تھا۔اور سا تھ سا تھ یہ بھی کہے جا رہا تھا کہ ہما ر ے مُلک میں اکثر لکھے پڑ ھے لو گ ہی قا نو ن تو ڑ تے ہیں(سچ بے شک جتنا بھی کڑ و ا ہو سچ ،سچ ہو تا ہے۔)یقیناً ہما رے مُلک میں قا نو ن تو ڑ نے میں لکھے پڑھے ہی پہل کر تے ہیں۔ اُس دن میں نے گلگت کی ٹر یفک کا بہت غو ر سے مطا لعہ کیا اور مجھے بہت خو شی محسو س ہو ئی کہ آ خریہا ں قا نو ن کا کتنا پا س رکھا جا تا ہے اور اس مصر و ف تر ین شہر کی ٹر یفک پو لیس کو دا د دیے بغیر نہیں ر ہ سکی۔ اور سا تھ ساتھ ٹر یفک انتظا میہ کے اس مثبت کا ر نا مے پر با ر با ر دل سے دُ عا ئیں نکلتی رہی۔لیکن یہا ں افسو س صر ف اور صرف یہ رہ گیا کہ کا ش میر ے غذر میں بھی ٹر یفک کے اِس اصول کی پا بند ی کی جا تی اور سب پر یہ قا نو ن لا گو ہوتا۔کیو نکہ گا ہکو چ با زا ر میں ہر ایک کو دیکھا جا ئے تو ،جس دُکا ن میں کسی کا کا م ہو گا ڑی اُسی دُکا ن کے با ہر کھڑی کی جا تی ہے۔یو ں سڑک کے دو نو ں جا نب ، گا ڑیو ں کی پا رکنگ ہو تی ہے جبکہ سڑک اتنی چو ڑ ی بھی نہیں ہے۔یہ مسلہ وا قعتاََ قا بل غو ر ہے۔اور ساتھ سا تھ یہ بھی کہ سڑک میں جگہ جگہ مختلف ٹھیلے لگا ئے جا تے ہیں جبکہ سڑک کو دیکھی جا ئے تو اتنی گنجا ئش نہیں کیو نکہ آئے دن ٹر یفک میں اضا فہ ہو تا رہتا ہے۔۔(میں یہ وا ضح کر نا چا ہو ں گی کہ ٹھیلو ں کی و جہ سے کسی کا رو زٍ گا رِ زندگی چلتا ہے،یہ بہت ہی اچھی با ت ہے،میر ا یہاں کہنے کا مقصد صر ف اور صرف قا نو ن کی پا سدا ری ہے۔ )

اگر میں غلط نہیں سا ل 2014سے کا فی تعدا د میں ٹر یفک پو لیس اپنے فر ا ئض انجا م دیتے ہو ئے نظر آتی ہے۔لیکن سوا ل یہا ں یہ پیدا ہو تا ہے کہ لا ئسنس دیکھنے کاجو مر حلہ ٹر یفک پو لیس کے پا س ہے کیا اُس پہ صحیح طر ح سے عمل کیا جا تا ہے؟ کہتے ہیں جیسا دیس ویسا بھیس۔۔میں یہ و ثو ق کیسا تھ کہہ سکتی ہو ں کہ کو ئی بھی بر وقت اپنا لائسنس اپ ڈیٹ نہیں کرتااور بہت سے تو بغیر لا ئسنس کے ہی چلا تے ہیں جو کہ سراسر قا نو ن کی خلا ف ورزی ہے۔یہا ں پر لمحہ فکر یہ ہے کہ آ خر ایسا کیو ں ہے اور اِس کا حل کیا ہے؟یا اِس مسلے کا کو ئی حل ہی نہیں۔اگر ہے تواس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔؟

معا شر ے میں جب بھی کو ئی مثبت تبدیلی آ تی ہے ہر ایک اُس کو سر ا ہتا ہے یہا ں میر ے کہنے کا مقصد مو ٹر سا ئیکلو ں کی بھر ما ر ہے۔لیکن جس طر ح تیز رفتا ری سے چلا ئی جا تی ہے اور جس عمر کے نو جو ا ن چلا تے ہیں ،وہ مسلہ اصل میں قا بل ذکر ہے۔اگر ہم با ہر مما لک کی ٹر یفک کا مطا لعہ کر یں تو 18سا ل سے کم عمر کے نو جو ا نو ں کو لا ئسنس ہی نہیں دیا جا تا۔18سا ل کی عمر میں ڈرا ئیو نگ ٹیسٹ لینے کے بعد لا ئسنس جا ری کیا جا تا ہے لیکن افسو س ہم صرف دوسر ے ممالک کی مثالیں لیتے ہیں جبکہ اپنے ملک میں قوانین پر عمل نہیں کر تے۔مو ٹر سائیکلو ں سے ایک اور با ت بھی یا د آئی کہ دا ئیں با ئیں دیکھنے کے لیے جو آئینے لگا ئے جا تے ہیں وہ یقیناََ کسی بھی مو ٹر سا ئیکل میں نظر نہیں آتے۔اور جہاں تک اشا رہ بتیو ں کی با ت کی جا ئے کو ئی بھی ان اصو لو ں پر عمل کر تا ہو ا نظر نہیں آ تااور خا ص طو ر پر را ت کے وقت گا ڑ ی چلا تے ہو ئے جب سا منے سے کو ئی گا ڑ ی آ جا ئے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ گا ڑی کی بتیا ں مدہم نہیں کی جا تی۔ایک اور بڑا مسلہ گا ڑ یو ں کی تیز رفتا ر ی کو رو کنے کے لیے جو سپیڈ بر یکر ز جگہ جگہ بنا ئے گئے ہیں وہ دور سے نظر ہی نہیں آ تے ۔اگر ان سپیڈ بر یکرزکو رنگا جائے یعنی کہ رنگ دار بنا دیا جائے تودور سے ہی گا ڑی کی رفتا ر کم کی جا سکتی ہے۔اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب ،جہا ں جس کسی کا بھی دل کر ے وہ اپنے دروازے کے باہر سپیڈ بریکر بنا دیتا وہ بھی کچا جسے حا دثا ت میں اضا فہ ہو سکتا جب کہ یہ حقیقت ہے کہ اپنی مر ضی کی بنیا دپر بلا ضرو رت سپیڈ بریکرزبنانا قانون کی خلا ف ورزی میں آتا ہے۔ذرا سو چئیے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button