کالمز

مخلوظ نظام تعلیم اورایڈکون کا فراڈ

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے حالیہ اجلاس کی کارروائی کے دوران ممبران اسمبلی کی جانب سے "ایڈکون” نامی ایک غیرسرکاری ادارے پر گلگت بلتستان کے بارہ سو کے قریب طلباء سے فی کس آٹھ سو کے حساب سے مجموعی طورپر دو کروڈ روپے ہتھیالینے کا الزام عائد کرکے مذکورہ ادارے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ سامنے آنے پر مجھے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعہ کی یاد آگئی۔ ہوا یوں تھا کہ آج سے دوبرس قبل میں روزنامہ محاسب کے نیوز ڈیسک پر اپنے معمول کے کام میں مصروف تھا کہ رات ساڑھے نو بجے کے قریب گھر سے چھوٹے بھائی کا ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں انہوں نے مجھے یہ خوشخبری دینے کی کوشش کی تھی کہ ژونگ موبائل نیٹ ورک کی طرف سے ان کے نام پانچ لاکھ کا انعام نکلا ہے۔ میں ایس ایم ایس کو اہمیت دئیے بغیر اپنے کام میں مصروف رہا تو تھوڑی دیر بعد پھر ایس ایم ایس بھیجا کہ بھائی جلد گھر آجائیں ژونگ والوں نے پانچ لاکھ کے انعام کے بدلے پانچ سو کے کارڈ مانگ لئے ہیں دیر کرنے کی صورت میں انعام کے پیسے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ اتنے میں میں بھی کام نمٹا کر گھر کی طرف نکل پڑا تھا لیکن میرے گھر پہنچتے پہنچتے بھائی نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہوئے دکان سے پانچ سو روپے کے کارڈ منگوا کر تین سو کے کارڈز فون کرنے والے شخص کے نمبر پر بھیج بھی دئیے تھے جس پر مجھے سخت غصہ آیا اور بھائی کے ہاتھ سے موبائل اٹھاکر دیوار سے دے مارا۔ تھوڑی دیر بعد جب غصہ ٹھنڈا ہواتو موبائل اٹھا کر اسی نمبر پر کال ملائی اور انعام سے متعلق تفصیلات جاننے کی کوشش کی تو موصوف نے فوراً کال کاٹ دی اورنمبر بھی بند کردیا ۔ یوں بھائی کے تین سو روپے فضول میں چلے گئے۔

SAFDAR ALI SAFDARاسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ جو اکثر لوگوں کے ساتھ پیش آتا رہتا ہے وہ یہ کہ نامعلوم نمبروں سے ایک ایس ایم ایس آجاتا ہے جس میں یہ لکھا جاتا ہے کہ "بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ہونے والے گھر گھر سروے میں آپ کے نام پچیس ہزار روپے منظور ہوچکے ہیں مذید معلومات اور رقم کے حصول کے لئے آپ اس نمبر پر کال کریں” ۔ یہ ایس ایم ایس بہت سارے دوستوں اور عزیزوں نے مجھے فارورڈ کیا اور اصل حقیقت معلوم کرنے کی اپیل کہ لیکن مجھے اس چیزکاکوئی علم تھا نہ ہی اسے کوئی اہمیت دی تاہم گزشتہ ماہ میں پھر رات کے وقت روزنامہ رہبر میں دفتری کام میں مصروف تھا کہ وہ ایس ایم ایس میرے نمبرپربھی موصول ہوا ۔ میرے ساتھ ایڈیٹر روزنامہ رہبر محبوب خیام صاحب اور دیگر ساتھی بھی موجود تھے جب یہ ایس ایم ایس موصول ہوا۔ میں نے بلاتاخیر ایس ایم ایس کے آخر میں درج شدہ نمبر پر کال ملائی اور علیک سلیک کے بعد استفسار کیا کہ جناب آپ کی طرف سے موصولہ ایس ایم ایس کے ذریعے پچیس ہزار روپے مل جانے کی خبر سن کر نہایت خوشی ہوئی لیکن یہ تو بتادیں کہ میں وہ پیسے کہا سے اور کیسے حاصل کرسکتا ہوں۔ جواب میں انہوں نے خوبصورت انداز میں کہا کہ آپ قریب کسی ایزی پیسہ کی دکان پر جاکر فلاں نمبر پر کال کریں تو طریقہ کار سمجھایا جائیگا ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ یہ بات کسی سے بھی شیئر کرنا نہیں۔ میں اس گیم کی مذید گہرائی میں جانے کے لئے ساتھیوں کے مشورے پر تھوڑی دیر کے لئے رکا اور پھر ان کے دئیے گئے نمبر پر کال کرکے بتایا کہ جناب میں ایزی پیسے کی دکان پر پہنچ چکاہوں آگے کیا حکم ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ پہلے آپ اس نمبر پر اتنے کا لوڈ بھیجوا دیں تو پھر آگئے کی تفصیل بتائی جائیگی جس پرہم لوگ ان کے اس فراڈ کو سمجھ گئے ۔

اگر ہم گلگت بلتستان کے تناظر میں ہی بات کریں تو ہمارے سامنے بگ بورڈ نامی جعلی سٹاک ایسکسچینج کی مثال موجود ہے جس کے ذمہ داران نے چند سال قبل علاقے کے سینکڑوں لوگوں سے بھاری منافع کا جھانسہ دیکر کروڑوں روپے ہھتیالئے جن میں زیادہ تر کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے تھا جبکہ بہت سارے شہداء کے لواحقین بھی شامل تھے۔ اسی طرح بتایا جاتا ہے کہ ایک اور فراڈ گروہ بھی اسلامک بنکنگ کے ذریعے حلال منافع دینے کا جھانسہ دیکر دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کو ذمینوں کے معاوضہ جات کی مد میں ملنے والی رقوم اور سمیت بہت سے کاروباری شخصیات سے بھی بھاری رقوم بٹور کر فرار ہوگیا۔بات یہاں تک ہی نہیں بلکہ بہت ساروں کو فریضہ حج کی ادائیگی پر بھیجوا دینے اور دیگر کاروباری سکیموں کے نام پر بھی مسلسل لوٹ لیا جاتارہا ہے۔

اس سب سے بڑھکر پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے اقتدار کے ان ساڑھے چار سالوں میں علاقے کے سینکڑوں بے روزگار افراد سے نوکریاں دلوانے کے نام پر بھی کروڑوں روپے لوٹ لئے گئے اور بے شمار لوگوں سے بھاری رشوت کے عویض نوکریاں بھی فراہم کی گئیں مگر کسی میں یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ ایسے معاملات کو قانون ساز اسمبلی میں اٹھائے اور "ایڈکوں” نامی ادارے کی طرح ان سے بھی علاقے کے لوگوں سے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے لوٹی جانے والی رقوم کی پائی پائی کا حساب لینے کا مطالبہ کریں۔ مجھے یاد نہیں کہ سوائے قوم پرست رہنما نوازخان ناجی کے کسی نے پیسوں کے عویض نوکریاں دیکر علاقے میں رشوت کے مکروہ کلچر کو فروغ دینے کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی ہو۔ کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اس پوری گیم میں اسمبلی کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ خود بھی بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ملوث ہیں اور ان کے خلاف آواز اٹھائے جانے سے وہ ان سے ناراض ہوجائیں گے۔تب ہی تو دوسروں کی غلطیوں پر بڑی جرات سے انگلیاں اٹھا رہے ہیں حالانکہ نہ صرف "ایڈکون”بلکہ اکثر اداروں میں داخلہ لینے یا نوکری کے لئے اپلائی کرنے پر تھوڑی بہت فیس ادا کرنی پڑتی ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور نوکریاں لینے کے امیدوارں کو کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ ظاہری بات ہے ” ایڈکون” اگر کسی کو سکالرشب پر تعلیم دلانے کی آفر دیتا ہے تواس کے لئے اپلائی کرنے اور انٹری ٹسٹ میں شامل ہونے کے لئے آٹھ سو روپے خرچ کرنا اتنی بڑی بات تو نہیں۔

یہ دھندہ تو آپ کی اپنی قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی میں بھی ہورہا ہے ۔جہاں پر ہرسال نئے داخلہ لینے والے طلباء وطالبات سے’ فاونڈیشن سمسٹر‘ کے نام پر ساڑھے سات ہزار روپے وصول کئے جاتے ہیں اور دو ہفتے کی کلاسوں کے بعد میرٹ لسٹ جاری کرکے سینکڑوں طلباء و طالبات کو فارغ کیا جاتا ہے۔ کیا آج تک کسی نے اس بات کا نوٹس لیا ہے؟ حالانکہ یونیورسٹیوں میں ماسٹرز ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء وطالبات کی فیس ادا کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت نے اٹھا رکھی ہے اس کے باوجود قراقرم یونیورسٹی میں ’ فاونڈیشن سمسٹر‘ کے نام پر ماسٹرز اور ایم فل میں داخلہ لینے والوں سے ساڑھے ساتھ ہزار روپے کیوں وصول کئے جارہے ہیں ۔ کیا کسی رکن اسمبلی نے یہ جاننا گوارہ سمجھا کہ وہ پیسے آخر کس کھاتے میں لئے جاتے ہیں اور کہاں خرچ ہوتے ہیں؟ وہاں پر بھی تو انہی کے حلقوں سے تعلق رکھنے والے غریبوں کے بچے پڑنے آتے ہیں ۔ ان کو کسی کام کی فکر ہے تو وہ صرف قراقرم یونیورسٹی سے مخلوط نظام تعلیم کے خاتمے کی ہے۔ آو بھائی اگر تمہیں قراقرم یونیورسٹی کے اندر مخلوط نظام تعلیم پر اس قدر تحفظات ہیں توصرف لڑکیوں کے لئے علیحدہ یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے۔ ویسے بھی آپ ہی کے محسن و سابق صدر آصف علی زرداری نے سکردو میں بینظیر بھٹو یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ آپ لوگوں میں اگر تڑ ہے تو اس پر عملدرآمد کراکر صرف لڑکیوں کی کلاسیں چلانے کا ارادہ کیوں نہیں رکھتے۔ قراقرم یونیورسٹی تو ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جہاں پر دنیا کے کسی بھی ملک سے لوگ آکر تعلیم حاصل کرسکتے ہیں چاہے مرد ہوں یا خواتین۔ ہم لوگوں کے پاس قراقرم یونیورسٹی کے معاملات میں مداخلت کرنے یا اس کے قوائد وضوابط میں ردوبدل کرنے تک کا اختیار بھی نہیں۔ ہاں اگر اختیار ہے تو اپنے بچوں اور بچیوں کو نہ صرف یونیورسٹی بلکہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخل کرانے سے قبل اپنی ،والدین ، خاندان اور معاشرے کی عزت و وقار کا خیال رکھنے اور علاقائی اقدار کی پاسداری کرنے کی ہدایت کا ہے اور یہ ہمارا دینی واخلاقی فریضہ بھی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ لوگ علاقے کے نفع نقصان کے بارے میں اس قدر فکرمند ہیں تو ان ٹھیکداروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے جو تعمیراتی منصوبوں پر کام ادھورا چھوڑ کر ایڈوانس میں پیسے ہڑپ کرلیتے ہیں یا منصوبوں میں ناقص مٹیریل استعمال کرکے عوام اور حکومت کو مسلسل نقصان پہنچادیتے ہیں؟یا ان لوگوں کے خلاف جو آپ کے علاقے کی معزیز عدالتوں کے فیصلوں کا مذاق اڑاکر عدالتی احکامات کے باوجود پیشی پر جانے سے انکار کردیتے ہیں۔ان سب چیزوں کو پس پشت ڈال کر اسمبلی میں غیرضروری معاملات کو زیر بحث لاکر وقت ضائع کرنا کونسی قانون سازی ہے۔

بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں نکل گئی۔ اس لئے اب آخر میں پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ میرے بہت سے دوست انٹرنیٹ کے ذریعے بھی انعامات کی آفر اور پھر ان انعامات کا جھانسہ دیکر پیسے بٹورنے کی پیشکش کے واقعات بھی بیان کرتے رہتے ہیں جبکہ بہت سے لوگ موبائل پر وائس چینجر لگاکر یا ایس ایم ایس کے ذریعے لڑکی بن کر بیلنس لوٹنے کا دھندہ بھی کیا کرتے ہیں۔ اب تو سماجی رابطے کی ویب سائٹ (فیس بک) پر بھی جعلی اکاونٹس بناکر دوستیوں اور پیسوں کی آفردیکر لوگوں کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ بھی عروج پر پہنچ چکا ہے۔ لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا ہم اس طرح کے فراڈ کو یک دم معجزہ یا حقیقت سمجھ کر انعامات کی لالچ میں اپنی جمع پونجی بھی گنوا بیٹھیں رہے یا ایسے عناصر سے متعلق تھوڑی بہت تحقیقات کرکے سادہ لوع لوگوں کو گمراہ کرنے والے والے نوسربازوں کو بے نقاب کریں۔

ہوسکتا ہے کہ "ایڈکون” کو بھی اسی طرح کی کوئی شرارت سوجھی ہو مگر سکالرشپ پر تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمندوں کو ادارے اور اس کے کارندوں سے متعلق مکمل معلومات حاصل کرنے کے بعد اپلائی کرنا چاہیے تھا ۔ بہرکیف جو ہوا سو ہوا اب اس مسلے کے خلاف شورمچانا ’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چک گئے کھیت‘ کے مترادف ہوگا.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button