کالمز

معاشرتی ناہمواریاں۔ آخر کب تک؟؟

my Logoارسطو نے کہا تھا کہااگر کسی معاشرے کے مزاج کا اندازہ لگانا ہوتو اس میں موجود افراد کے افعال پرغور کیا جائے۔اسی فلسفے کے تحت کوشش کروں گا کہ کچھ ہماری معاشرتی مزاج کا اندازہ لگا کر معاشرے کی ناہمواریوں پر روشنی ڈالیں کیونکہ معاشرتی ناہمواریاں اس وقت ہمارے خطے میں شدت اختیار کرچکی ہے ہمارے معاشرے میں بعض لوگ تمام معاشرتی ناہمواریوں کو پس پشت ڈال کر پیسہ کمانے میں لگے ہوئے ہیں انہیں معاشرتی احساس اور ذمہ داری کے نام سے ہی نفرت ہوتے ہیں ۔لیکن اگر ہم پُرانے وقتوں کی بات کریں جب ہمارا معاشرہ ترقی یافتہ دنیا سے کوسوں دور تھا مگر معاشرتی رواداری اور معاشرتی اقدار کو قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا تھاجس کی ایک وجہ اس زمانے کے علمائے دین بتائے جاتے ہیں اُس وقت چونکہ ہمارے معاشرے کا نظام ایک طرح سے علماء کے ہاتھ میں ہوا کرتے تھے اور علماء اپنی علمانہ فکر اور عمل سے کسی حد تک معاشرتی ناہمواریوں کوختم کرنے کیلئے کردار ادا کرتے تھے اُس وقت کے علماء کا ہر عمل سیاست اور انفرادیت سے پاک ہوتا تھا۔کہتے ہیں معاشرتی تربیت کا یہ عالم تھا کہ ہر بچے کو دن میں ایک بار کسی عالم کے سامنے رجوع ہونا ضروری سمجھاجاتا تھا جہاں بچوں کو دینی اور دنیاویعلوم سے روشناس کیا جاتا تھا۔لیکن آج کے معاشرے پر جب بحث کریں تو مایوسی ہوتی ہے کیونکہ آج ہمارے معاشرے میں لوگ اپنی رسم رواج دینی اور دنیاوی ثقافت کو خیر باد کہہ کر غیر مقامی اور غیر اسلامی رسم رواج کو معاشرے میں اتنا پھیلا دیا جسے اب کنٹرول کرنا بھی چاہیں تو ناممکن نظر آتا ہے۔معاشرے کی اس بدلتی ہوئی صورت حال کو دیکھ کر لوگوں نے لہولعاب کی لوزامات کو گھر اور معاشرے کا حصہ بنا دیامُلا کی تعداد تو کہیں ذیادہ بڑھ گئے لیکن معاشرے کی ڈوبتی کشتی کوبچانے میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر پائے ۔ حدیث نبوی ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں لیکن آج بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ علماء کی ایک کثیر تعداد نے اس ٹائیٹل کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرتے ہوئے معاشرے سے علماء دین کیلئے وہ ادب اور احترام بھی ختم کروایا جو کہ معاشرتی پستی کی ایک خطرناک علامت ہے کیونکہ جس طرح کسی بھی گھرکا ایک سربراہ ہوتا ہے بلکل اسی طرح معاشرے میں علماء کی حیثیت ایک معاشرتی سربراہ کی طرح ہوتی ہے اور اُن سے معاشرے کے لوگ دینی اور دنیوی معاملات میں سبق لیتے ہیں لیکن جسے اوپر ذکر کیا کہ کچھ لوگوں نے علماء کے لبادے میں اس وقت معاشرے میں معاشرتی ناہمواریوں کو ہمورا کرنے کیلئے کردار ادا کرنے کے بجائے معاشرے کو اپنی انا کا بھینٹ چڑھا یا ہوا ہے۔اسی طرح ہم ٹیکنالوجی کی بات کریں تو ہم نے جدید دنیا میں داخل ہونے کی کوشش میں وہ سب کچھ اپنا لیا جس کی غیر ضروری استعمال سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ہماری معاشرتی ساکھ کو نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ دنیا میں جب کوئی نئی چیز متعارف ہوتی ہے تو کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ قومیں اپنی روایات کو چھوڑ دیں یا اسے ختم کریں لیکن جب سے ہمارے معاشرے میں جب سے ٹی وی ڈش کا کلچر عام ہوا تو ایک طرف معاشرتی حیا انسان کے اندر سے ختم ہوگیا تو دوسری طرف ہماری ثقافت اور قومی ورثوں کو بھی دھچکا لگا۔اگر تعلیم کی بات کریں تو تعلیم معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے لیکن ہمارے معاشرے میں آج بھی نئی نسل کو تعلیم کی طرف توجہ دینے کیلئے کوئی ضابطہ موجود نہیں حالانکہ ماضی میں سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود بھی لوگ علم کی نور سے منور ہونے کیلئے ہندوستان وغیرہ کی طرف ہجرت کرتے تھے اور اہل علم کی ایک الگ حیثیت اور پہچان ہوتی تھی کیونکہ وہ شخص علم حاصل کرنے کے بعد علم کی تقسیم کو مشن بنا کر لوٹتے تھے مگر آج علم نوکری کی حصول اور معاشرتی عزت کیلئے حاصل کی جاتی ہے جس سے معاشرے میں اہل علم کی قدر اور قیمت بھی کم ہوگئی۔ہمارے تمام دینی اور دنیاوی علمی درسگاہیں معیار پر توجہ دینے کے بجائے کاروباری نقطہ نظر میں خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں شرح خواندگی تو 95فیصد بتائے جاتے ہیں لیکن معیار تعلیم بلکل نہ ہونے کے برابر ہے جس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔خطے کی

نظام تعلیم کو ایک طرف حکومتی نااہلیوں نے بند دوازے تک پونچا دیا تو دوسری طرف فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعے ڈگریاں لیکر نوکریاں حاصل کرنے والوں نے نظام تعلیم کو مزید تباہی کی طرف دھکیل دیا جس کے سبب معاشرے میں غریبوں کے بچوں کیلئے بہتر علم کا حصول ناممکن عمل نظر آتا ے کیونکہ خطے میں ذیادہ تر غریبوں کے بچے ہی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ہماری آبادی کا اکثریتی طبقہ آج بھی غربت کی لیکر سے بھی نیچے کی زندگی گزارتے ہیں ایسے میں سرکاری سطح پر بہتر تعلیم کی عدم دستیابی معاشرتی استحصال کی ایک بدترین مثال ہے۔ معاشرتی رہن سہن کے حوالے سے بات کریں تو بھی لگتا ہے کہ معاشرے میں صرف امیر اوراسررسوخ رکھنے والے طبقے کو ہی جینے کا حق ہے ایک غریب انسان کو گندم لینے کیلئے بھی سب سے آخریصف میں کھڑا کیا جاتا ہے اسی طرح ہمارے ہاں چونکہ کوئی صنعتی ذرائع توموجود نہیں البتہ سرکاری فنڈز نمائندوں اور انکے آلہ کاروں کیلئے ایک صنعت سے کم نہیں سوشل میڈیا کے ذریعے نے راقم نے اس حوالے سے مختلف علاقہ جات کے لوگوں کا تجزیہ لیا تو معلوم ہوتا ہے کہ دیہی ترقی کے نام پر پورے گلگت بلتستان کی سطح پر یونین کونسل کے تمام فنڈز حکام بالا کی ملی بھگت سے کھا جاتے ہیں اور ایسے لوگ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں صاحب مجلس بھی ہوتے ہیں اور صاحب محراب ممبر حضرات نہ صرف اسطرح کے غیر شرعی اور معاشرتی حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی پشت پناہی کرتے ہیں بلکہ ایسے عناصر کو معاشرے پر مسلط بھی کیا جاتا ہے۔بیت المال کے فنڈز سے ہمارے معاشرے میں غریب آدمی تو ہمیشہ محروم رہ جاتا ہے لیکن اس طرح کے مسلط لوگ امیری میں بھی غریبوں کی حق کھا کر مزے کرتے ہیں لیکن یہاں بھی صاحب ممبر اور محراب حضرات کا منہ نہیں کھلتا یوں ایک غیر شرعی عمل اور غریبوں کی حق پر ڈاکے کو بھی حلال کی سٹمپ لگ جاتی ہے۔اکثر اوقات ایسا بھی سننے کو ملتا ہے کہ معاشرے پر مسلط عناصرمقامی علماء کوذاتی مفادات کی خاطرایسے معاملات میں الجھا دیتے ہیں جس سے نہ وہ دین کا رہتا ہے نہ دنیا کاجو کہ معاشرے کیلئے ایک تباہ کن صورت حال ہے ۔آگے چلتے ہوئے اگر کاروباری میدان میں نظر دوڑائیں تو ذخیرو اندوزی کساد بازای ناجائز منافع خوری ایک رواج بن چکی ہے لیکن کوئی پرسان حال نہیں لوگ جہنم کی خوف اور جنت میں حوروں کی لالچ میں نماز روزے تو ادا کر رہے ہیں ہوتے ہیں لیکن عبادات کی روح سے غافل نظر آتا ہے۔اس وقت معاشرے میں لوگوں کے پاس دین کو سُننے اور سمجھنے کیلئے وقت کی بہت کمی ہے اورہاں دین کی راہ پر چل کر ظاہری طور سے انکے کاروبار میں وہ چمک دھمک نہیں آسکتا یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اس طرح کے کاموں کا مزاج بنالیا جس کیلئے جیسے اوپر ذکر کیا کہ اسلامی اسٹمپ لگانے والا مولوی بھی بازار میں باآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔اب اگر ہم ریاست کی ذمہ داریوں کے حوالے سے بات کریں تو خطے کی آئینی اور قانونی حیثیت کے حوالے عوام بخوبی اگاہ ہے یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے فائدہ مند دھندوں نے ادارے اور اداروں میں کام کرنے والوں کی چار چاند لگے ہوئے ہیں اسطرح کے بدعنوانیوں کے سبب آج بھی معاشرے میں حقدار تک انکے حق نہیں پونچ پاتے ۔ یوں ہم بدقسمتی سے یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ہمارے معاشرے میں نام کے تو سارے اسلامی رسم رواج پائے جاتے ہیں لیکن اسلامی نظام کے روح کی پاسداری کرنے سے قاصر ہے یا ایسا بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بھی مغربی معاشرے کی طرح صرف اور صرف جسم کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور معاشرے کا ہر فرد تمام توانیاں صرف انفرادی طور پر مادی جسم کو پالنے میں صرف کی جارہی ہے جسکی وجہ سے ہر گزرتے دنوں میں معاشرے میں جسموں کی تعداد میں اضافہ اور معاشرتی ذمہ داریوں نے بری نظر آتا ہے۔(نوٹ اس کالم کو لکھنے کیلئے سوشل میڈیا اور معاشرے کے لوگوں کی آراء اور تجزیات کا سہارا لیا ہے)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button