کالمز

آپریشن کی مخالفت کیوں؟؟

ڈوڈشال واقعے کے بعد دیامر کی جنگلات میں آپریشن کے حوالے سے جب مقامی پرنٹ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا توسمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ کچھ لکھوں یا میں بھی خاموش بیٹھ کر مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے جاری کردہ اخباری بیانات پڑہتے ہوئے محو تماشا رہوں۔لیکن یہ بات بھی محسوس کیا جارہا تھاکہ اس طرح کے اہم معاملات میں خاموشی بھی شریک جرم کے برابر ہے دوسری بات ایک لکھاری کا کام صرف حکومتی اداروں اور سیاست دانوں پر انگلیاں اُٹھانا نہیں ہوتا بلکہ صحافتی ذمہ داریوں میں اسطرح کے اہم واقعات کے بارے میں عوام کو حقیقت سے اگہی دینا بھی شامل ہوتا ہے۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے اگر کسی اہم موضوع قلم اُٹھائیں تو کسی بھی طرح سے مسلکی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ اہل قلم کیلئے مشکل مرحلہ ہوتا کہ عوام کے سامنے اس حوالے سے صفائی پیش کریں۔مجھ پر ہمیشہ سے تلخ باتیں عوام کے سامنے کا الزام ہے یہی وجہ ہے کہ کچھ نام نہاد مفادپرست اخبارات کے دروازے ہمارے لئے بند ہے نہ صرف میں بلکہ انکے دروازے سچ اور حقیقت بیاں کرنے والوں کیلئے بند ہی ہوتا ہے۔

my Logoلیکن کوئی بات نہیں بقول شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کے،اگرچہ بت ہے جماعت کے آستینوں میں،مجھے ہے حکم اذان لاالہ اللہ۔آج کوشش گا کہ دیامر سے ملحقہ جنگلات جس کی سرحدیں جو خیبرپختون خواہ سے ملتی ہے اس حوالے سے کچھ ماضی حال اور مستقبل کی پس منظر میں چند باتیں قارئین تک پونچائیں۔یہاں پر یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ کچھ حضرات پر یقیناً اس طرح کی باتیں ناگراں گزرے لیکن سچ اور حقیقت سے عوام کو اگاہ کرنا بھی معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے ذمہ داری بنتی ہے۔میرے نزدیک ریاست کسی خاص مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کیلئے نہیں ہوتے بلکہ ریاست میں بسنے والے تمام مسالک ایک گلدستے کے مانند ہے لہذا کوئی بھی نہیں چاہئے گا کہ گلدستے میں موجود ایک بھی پھول کو نقصان پونچے جس کے سبب گلدستے کی خوبصورتی میں منفی اثرپڑے۔ ہم اگر گلگت بلتستان کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے بات کریں توہمارا خطہ جعرافیائی اور اور معاشی وسعت کے حوالے سے اہمیت رکھنے کے ساتھ بین الاقوامی طاقت ورممالک کے عین سنگم پر واقع ہے اور اس خطے کی آئینی اور قانونی حیثیت بھی اب تک واضح نہیں ہے یوں کوئی قابض ہے تو کسی کوقبضہ کرنے کی دل میں تمنا ہے لہذا اس خطے کو آذادی کے فورا بعد ہی اسطرح کے صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا جو کہ تاحال جاری ہے لہذا کسی بھی ایکشن کوکسی خاص مکتب فکر اور علاقے سے جوڑنا خطے کی سلامتی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے دراصل ہمیں بین الاقوامی اور داخلی سازش کو سمجھتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔مجھے افسوس ہوتا ہے ہمارے ان نمام نہاد مذہبی پیشواں اور وفاقی ملازم سیاست دانوں کی بیانات پر جو کسی بھی ایکشن کے بعد قومیت اور فرقے کا نعرہ لگا کر عوام میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ایسے لوگوں کو عوام ووٹ دیکر منتخب کیا جاتا ہے ایسے میں انکا کام عوام کو گمراہی سے نکالنے کیلئے کردار ادا کرنا ہونا چاہئے تھا.

بلکل یہی صورت حال مذہبی پیشواں کا بھی ہے انہیں چاہئے کہ اگر عوام میں کسی مسلے کو نہ سمجھنے کی وجہ اشتعال میں پیدا ہو جائے تواُسے روکیں اور عوام کو ریاست اور ریاستی ذمہ داریوں سے اگاہ کریں لیکن ہمارے ہاں تو بدقسمتی سے رہنما ہی جلتی آگ پر تیل ڈالتے ہیں ایسے میں ایک عام آدمی سے شکوہ کرنا ہی بیکار ہے۔اگر ماضی کی دریچوں میں دیکھیں تو یہ بات میڈیا اور انٹیرنیٹ پر عام ہے کہ اُس وقت کچھ غیر مقامی مُلاوں نے اُسوقت کے ڈیکٹیتر ضیاالحق کو مشورہ دیا تھا کہ کسی بھی طرح گلگت بلتستان پر چڑھائی کیا جائے بلکل ایسا ہی ہوا انہوں نے طالبان کی مدد سے انسان تو انسان جانوروں کو بھی نہیں بخشا لیکن بدنام کون ہوئے ؟مقامی لوگ اور ہماری آپس میں دوریاں اتنی بڑھ گئی کہ ہمیں عرصہ دراز بعد گندم کے سہارے سے ایک دوسرے کوگلے لگانا پڑا۔اب جب عوام ایک طویل دوریوں کے بعد خطے کے کچھ سپوتوں کی کوششوں سے ایک دوسرے کو گلے لگاکر ماضی کی تلخیاں ختم کرکے غلط فہمیوں کی وجہ سے پیدا ہونے کدورتوں کو دور کیا ۔ایسے میں اچانک ڈوڈوشال تھانے پر رات کی تاریکی میں عسکری وردیوں میں ملبوس تین درجن سے زائد شرپسند حملہ کرتے ہیں عملے کو باآسانی یرغمال بنا کر تھانے میں موجود اسلحہ جات کے سمیت فرار ہوجاتے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سلسلے میں سب سے بڑی غلطی پولیس کی ہے کیا تھانہ سونے کیلئے ہوتا ہے یا عوام کی حفاظت کیلئے بنایا جاتا ہے؟

ایک لمحہ فکریہ ہے اسکے بعد جو صورت حال پیدا ہوگئی ایک فطری عمل ہیکیونکہ ریاست اور ریاستی اداروں کی بھی ایک ذمہ داری بنتی ہے کہ عوام کی جان مال کی حفاظت کیلئے کچھ لائحہ عمل طے کریںیوں حکومت نے ایسا ہی کیا کیونکہ اگر خامشی سے بیٹھ جاتے اور خدانخواستہ کوئی اور سانحہ رونما ہوجاتا تو بھی عوام نے حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہرانا تھا۔لہذا ریاست اور ریاست میں رہنے والوں کی حفاظت کیلئے ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون کرنا ایک مہذب شہری کی علامت ہے۔ اس سلسلے میں عوام کو چاہئے کہ افواج پاکستان کی مدد کریں اور انہیں بتائیں کہ گلگت بلتستان کی حدود سے خیبرپختواہ اور کوہستان کے تمام جنگلات کوکلیر کرکے سیل کردیں کیونکہ ماضی میں اکثر ایسا ہی ہوا ہے کہ دہشت دوسرے صوبے سے آکر یہاں وارادت کرکے چلے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے الزام ہمارے ہی لوگوں پر لگایا جاتا رہا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ کوئی بھی شخص انفرادی طور کسی جرم میں ملوث ہو تو اُسعلاقے کو مورد الزام ٹھرانا درست نہیں۔لہذا موجودہ صورت حال میں جو آپریشن دیامر سے ملحقہ جنگلات میں افواج پاکستان اور گلگت بلتستان اسکواٹس کی باہمی تعاون سے کیا جارہا ہے اسے منطقی انجام تک پونچا دینا چاہئے جسے یقیناًخطے میں امن امان برقرار رکھنے کیلئے ایک بہتر حکمتی عملی ثابت ہوگی۔

اسی طرح اگر دوسرے علاقہ جات میں بھی اگر اسطرح کی واردات کا خدشہ ظاہر ہوجائے آپریشن ضروری ہے کیونکہ اسطرح کے آپریشن سے عوام کا کوئی تعلق نہیں اور اگر کوئی بھی شخص کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہو انکے خلاف ایکشن لینا خطے کی بہترین مفاد میں ہوگا۔لیکن خیال رکھا جائے کہ اسطرح کے ایکشن سے کسی عام آدمی کا نقصان نہ ہو۔دوسری بات ملکی میڈیا کو اس آپریشن تک کا ضرور رسائی ملنا چاہئے تاکہ عوام کسی بھی قسم کے غلط فہمی میں نہ رہے۔ گلگت بلتستان میں ایک طویل جدو جہد کے بعد ہمارے ہی لوگوں کی وجہ سے ایک پیار محبت کی فضا قائم ہوئی ہے اور اگر جیسے کہا جارہا ہے کہ اس فضا کو ختم کرنے کی سازش میں اسطرح کے اقدمات اُٹھائے جارہے ہیں تو عوام کبھی بھی قبول نہیں کرے گا۔لہذا حکومت گلگت بلتستان جنکے بقول یہ آپریشن انکی مرضی سے کیا جارہا ہے انہیں چاہئے کہ جس طرح شمالی وزیرستان میں میڈیا کو بقاعدہ کوریج کی اجازت ہے بکل اسی طرح بھی میڈیا کو لانا چاہئے کیونکہ اس وقت کسی بھی پاکستانی میڈیا میں اس حوالے سے کوئی خبر نہیں چل رہا ۔عوام سے بھی گزارش ہے کہ اسطرح کے واقعات پر جذباتی ہونے کے بجائے صورت حال کو سمجھ کر فیصلہ کریں کیونکہ یہ بات سو فیصد حقیقت ہے کہ ہمارے خطے میں کچھ کلعدم دہشت گرد جماعتیں متحرک ہیں جو موقع ملتے ہیں ہم پر ایک بار پھرحملہ آور ہو سکتے ہیں لہذا احتیاط اور حوصلے کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے ضرورت ہے کیونکہ دشمن قوتیں عوام کو اسطرح کے معاملات میں الجھا کر اصل مسلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔اور ہمارا اصل مسلہ سیاسی حقوق کا حصول ہے جس کیلئے جب تک عوام کے اندر انقلاب لانے کی سوچ پیدا نہیں ہوتے اسطرح کے واقعات سرزد ہوتے رہیں گے ۔لہذا عوام کو تمام تر غلط فہمیوں کو بالائے طاق رکھ کر خطے کی شناخت کی تعین کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ ہم سب کا حامی ناصر ہو۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button