کالمز

گلگت بلتستان اور مجوزہ پیکج

ایک محفل میں ایک صاحب  زمانےکی نا قدری کا رونا رونے شروع  ہوءے تو  بولتے ہی چلے گےء حتیٰ کہ زمانے  کو بھی کھری کھری  سنا دیں  حالانکہ زمانے کا اس میں کیا قصور  یہ تو انسان ہے  جو اپنے عمل سے وقت  کو نیک  یا بد  بناتا ہے  بحر احال ہر معاشرے میں  ایسے لوگ موجود ہیں  جو صرف منفی عینک سے  ہی زندگی کو دیکھتے ہیں  اس کے بر عکس ایسے  رجائیت پسند  بھی موجود ہیں جو بدی کے واقعات سے بھی خیر کا پہلو نکالتے ہیں ۔۔ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں اسے پاکستان کہا جاتا ہے اس ملک سے بعد میں آزادہونے والے ممالک  ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کر چکے ہیں  جبکہ اس ملک کی پسماندگی  اور زبوں حالی  آجتک موضوع بحث ہے  کچھ حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود  پاکستانی قوم  روز بہ روز زوال کی طرف مائل ہے  اوراس کی بڑی وجہ  ہمارے حکمرانوں کی بے تدبیری اور اخلاقی گراوٹ ہے ۔۔۔۔۔ان حالات میں جب ہم  گلگت بلتستان  کے حالات اور واقعات کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو  اس ملک کے اس بے ترتیب نظام کا شکنجہ یا اثر ہمیں اس خطے میں  نمایاں نظر آتا ہے ۔۔اس علاقے کے بارے  آج تک کسی  بھی حکمران نے خیر کے پہلو سے سوچا ہی نہیں ۔۔۔۔میں یہاں سارا دوش حکمرانوں پر ڈالنے کے بجاےء اپنی کوتاہیوں کو بھی کوسنا چاہونگا اورزمانے کو کھری کھری سنانے کے بجاے ء اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ  کیا ہم نے گلگت بلتستان کو صحیح معانوں میں ترقی کی طرف گامزن کرنے کی سعی کی ہے  تواس کا جواب ہمیں نفی ہی میں  ملے گا۔۔۔۔میں یہ بھی نہیں کہونگا کہ ہم نے خود اپنے ہاتھوں اس  خطے کو آذاد کروایا اور  ایک اسلامی ملک پاکستان سے الحاق کیا۔کیونکہ زبانی حد تک یہ بات صحیح لگتی ہے لیکن کویئ دستاویزی ثبوت نہ ہونے کے باعث ہماری اس بات پہ کویئ وزن نہیں۔۔۔۔ہم لوگ ابھی تک اس نشے میں ہیں کہ ہمارے اسلاف نے بڑی قربانیاں دی ہیں اس میں کسی شک کی کویئ  گنجائیش ہی نہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی سوچیں کہ ہم نے اپنے خطے کے لےء کیا قربانیاں دی ہیں۔۔اس کا جواب بھی کویئ حو صلہ  افزانہں ۔۔۔قوم کی شیرازہ بندی میں زبان اورثقافت بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔قومیں اپنے افکار کی بنا پر دنیا میں عروج پاتی ہیں تاریخ میں کسی ایسی قوم کا ذکر نہیں ملتا جس نے اہنے اسلاف  اقدار یا  دیانت کے بغیر مقام پایا ہو۔۔آج جب ہم اس خطے کے حالت کو دیکھتے ہیں تو  مایوسی ہوتی ہے ۔۔۔۔ہم آج تک ایک قوم نہیں بن سکے۔۔۔ہمیں اس بات کا فخر تو بہت زیادہ ہے کہ ہماری ایک الگ شناخت ہے ہماری ایک الگ پہچان ہے  ہم ایک قوم ہیں لیکن تاریخ کی طرف نظردوڑاتے ہیں تو اس خطے میں  قدیم ریاستیوں کا وجود تو ہمیں نظر آتا ہے لیکن قوم کہیں نظر نہیں آتی۔۔جہاں ہمارے اسلاف کی قربانیاں ہیں وہاں ان کی آپس کی چپقلش اور جنگ و جدل کے نتیجے میں  شروع دن  سے ہی اس خطے میں بیرونی حکمرانوں کے لےء راہ ہموار ہویئ اور بیرونی حکمرانوں کی غلام رعایا کا حق ادا کرتے چلے آرہے ہیں.

Hidayat Ullahمیرے  لیے  یہ ممکن نہیں کہ اس چھوٹےسے کالم میں وہ سارے حقائق بیان کرسکوں. بس اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے ایک قوم اور خطے کے باسی ہونے کا حق  ادا نہیں کیا  اور ہمارا شیرازہ بکھر گیا. ہم لوگوں نے اپنے ہیروز  گوہرامان اورعلی شیرخان انچن کو بھی ظالم اورڈاکو کے لقب سے  بھی نوازنے میں پس و پیش نہیں کیا اور یوں بہادر اور نڈر حکمران  گوہرامان کی وفات کے بعد  اس بکھرتے گروہ کو ہماری ہی دعوت پر  مہارجہ نے اپنی نگرانی میں لیکر ایک شناخت  شمالی سرحدی صوبہ   کے نام سے دی جو پاکستان کے وجود  میں آنے تک برقرار رہی۔۔اس کے بعد کے حالات سے سبھی لوگ واقف ہیں  ان کو میں یہاں دہرانا مناسب نہیں سمجھتا ۔۔کیا  کیا معاہدے ہوے ۔لیکن ایک بات اور میں کہنا چاہتا ہوں  کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے   ہم نے اس زمانے میں بھی  مذہبی تعصب قومیت پرستی اور  مفادپرستی  کو مقدم جانا اور اپنے ہیروز کرنل مرزہ حسن خان بابرخان اوردیگرسے بھی وفا نہیں کیا اورانکی خدمات کو فراموش کرکے  دو ٹکوں کی خاطر  بہت سے ایسے  گل کھلاےء جنکا ذکر بھی یہاں ممکن نہیں اور ذکر کر کے اپنے آپکو شرمندہ کرنا نہیں چاہتا ۔۔

۔بات یہاں ختم نہیں ہوئی ہم نے اپنے زیرک سیاستدانوں کو بھی نہیں بخشا مثلاجوہر علی خان مرحوم ،وزیرغلام عباس مرحوم،فضل الرحمان عالمگیر، وکیل شیر ولی اور امان اللہ  جو آج کل جے کے ایل ایف کی سربراہی کررہے ہیں  ان سب باتوں کی طرف دیکھتا ہوں تو بےساختہ  یہ شعر میرے ذہن میں گونجتا ہے۔۔۔ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔۔۔۔آج بھی اس خطے کے لوگوں کے پاس کویئ ایجنڈا نہیں  یہاں کے سیاسی لیڈر اور دانشور طبقہ ابھی تک مخمسے کا شکار ہیں  آج بھی مفادات کی سیاست کا غلبہ ہے اوریہی وجہ ہے کہ آٹھاسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی  اس خطے  کا مستقبل  تاریک ہی نظرآرہا ہے ۔۔۔تاریخی لحاظ سے  اس حقیقت سے کویئ انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان بننے تک  یہاں مہارجہ کشمیر کی حکومت رہی اور پاکستان بننے کے بعد بھی   اس علاقے کو پاکستان میں باضابطہ شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی پاکستان کے آئین میں اس علاقے کا علحیدہ سے کویئ ذکر ہے  اور یوں اب تک یہ علاقہ پاکستانی کنٹرول کے باوجود ابھی تک کشمیر ہی کا حصہ ہے اور متنازعہ کہلاتا ہے  اور جب تک یہ علاقہ متنازعہ  رہیگا  حکومت پاکستان خودسے اس علاقے کو پاکستان کا حصہ  نہیں بنا سکتی تاوقتیکہ  ہندوستان اور کشمیریوں کی رضامندی شامل نہ ہو یا اقوام متحدہ حق راےء شماری نہ کراےء ۔۔

آج کل ایک نیے  پکیج کے بارے  بڑےتبصرے اور بحث جاری ہے اور ہمارے وزیر اور سیاستدان بڑے بڑے اخباری بیانوں سے لوگوں کو  اسی طرح سبز باغ دکھا رہے ہیں جیسے وہ 2009 کے پکیج کے بارے   دکھا رہے تھے لیکن ہوا کیا کھودا پہاڑ  نکلا چوہا  اوراب بھی ایسا ہی ہوگا  ۔میرے خیال میں  ہمارےحقوق کا راستہ کشمیر سے نکلے گا اس کے علاوہ کویئ راستہ نہیں باقی راستے صرف شارٹ کٹ ہی ہو سکتے ہیں  جو کچھ عرصے بعد اپنی افادیت  کھودیتے ہیں ۔۔۔اب کے بار بھی ایسا ہی ہوگا میرے تجزیے کے مطابق جو کچھ مستقبل میں ہونے جا رہا ہے وہ کچھ اس قسم کا ہو سکتا ہے۔۔۔۔جی بی کی متنازعہ حثیت برقرار رہیگی۔۔۔۔۔ممبران کی تعداد بڑھنے کا امکان لگتا ہے ۔۔۔۔۔کچھ جی بی بزنس رولز تبدیل ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔جی بی ابزرور قومی اسمبلی کی مہمان گیلری میں پہنچ سکتے ہیں۔۔۔۔۔بے اختیار صوبایئ نظام برقراررہیگا ۔۔۔۔نیےء نظام سے کچھ اور لوگ مرعات یافتہ طبقے میں شامل ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔۔دیکھیں آنے والے وقتوں میں حکومت پاکستان کیسے اس خطے کو قومی دھارے میں لاتی ہے۔۔۔اللہ اس خطےکے عوام کی حالت زار پر رحم کرے.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button