کالمز

یوم آزادی ،تجدیدِ وفاداری وتشّکر کا دن

الواعظ نزار فرمان علی

جشنِ آزادی کے پُر مسرت، روح پرور اور عظیم الشان یومِ سعید پر قارئین کرام اور تمام پاکستانیوں کو لاکھوں مبارکباد،رب العّزت کے حضور دعا ہے کہ اے پاک پروردگار وطن اور اس کے مکینوں کی کل مشکلات آسان فرما،سکھ سلامتی،ترقی و خوشحالی عطا فرما،تحریک آزادی سے لے کر آج تک جن سپاہیوں،کارکنوں،لیڈروں نے ملک کے قیام و بقا کیلئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے یا خداوند ذوالجلال ان کے مقامات بلند کرکے غریقِ رحمت فرما آمین

آج کا مبارک تاریخی دن سرزمین پاک سے اپنے عہد وپیمان اور وفاداری و حب الوطنی کی تجدید کا دن ہے،یہ کہ ملک ترقی یافتہ بنے یا ترقی پزیر رہے ،لاڈ پیار ملے یا ڈانٹ ہمیں مرتے دم تک صالح اولاد کی طرح خیر خواہ اور وفادار رہنا ہے۔ یہ شکر گزاری کا بھی دن ہے ہمیں نیلے آسمان تلے ایسی سرزمین عطا ہوئی جہاں پر اپنی مذہبی، اخلاقی اور روحانی جذبات کا اظہار نہایت پر اعتماد اور پرسکوں انداز سے کر سکتے ہیں۔آزادی ایک انمول نعمت ہے اگر اس کا مول جاننا ہے تو گہرے سمندر کی مچھلی سے پوچھو جسے مصنوعی تالاب میں ڈال دیا گیا ہے،اس پرندے سے جس کے پر کاٹ کر پنجرے میں بند کیا گیا ہو،وہ شخص جو سلاخوں کے پیچھے عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے،اس مریض سے جسے ڈاکٹر نے کچھ نعمتیں تا حیات نہ کھانے کی ہدایت دی ہے،چوزا جو انڈے کے خول سے نکلنے کی تک و دو میں ہے،بیج جسے مٹی کے تہوں میں دفنایا گیاہے جو روشنی کی تلاش میں زحمتیں جھیل رہاہے اوراس معصوم بے سہارا بچے سے پوچھیں جو پیدائش سے جوانی تک بورڈنگ میں بچپن/ نوجوانی گزار چکاہے اور اس نے اپنوں کی ایک جھلک تک نہ دیکھی ہو۔مشرق و مغرب کے متنازعہ علاقوں میں آزادی کی جنگ لڑنے والے دلیر سپاہیوں سے کہ انہیں عشروں سے حصول آزادی کی جدوجہد کی کتنی بڑی قیمت ادا کرناپڑی اورمزید دینگے،ہماری آنکھیں اشکبار اور سینہ پھٹنے لگے گا۔اور ہم پر رشک کرتے ہوئے کہیں گے کہ خدا را اس نایاب نعمت کی قدر کرو ورنہ تمہاری حالت ہم سے بھی زیادہ بدتر ہوگی۔قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے لگوتو تم ان کا احاطہ نہ کر سکوگے( القرآن)اسی لئے مولانا رومی فرماتے ہیں’’نعمت کا شکر تیری نعمت کواور زیادہ کریگا،ناشکری تجھ سے(تیری پہلی) نعمت بھی چھین لے گی‘‘تیررھویں صدی ہجری کی آخری اور انیسویں صدی عیسوی کی وہ دہائی ہمارے لئے ایک نئی صبح،امید بہار بن کر آئی اور ہمیں اپناگھر مل گیا۔الحمداللہ آج ہم جس زرخیز زمین پر سبزہلالی پرچم تلے آزاد اور کھلی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں یہ بزرگان دین کی دعاؤں،سرسید احمد خان کی دانش،علامہ اقبال کی بینش،قائد اعظم کی ولولہ انگیز رہنمائی میں مرد و زن ،نوجوان،بزرگ،غازیوں اور شہدا ء کی لازوال قربانیوں کے مرہون منت ہے

جی ہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان جو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت اور ایک اہم ایٹمی طاقت ہے

جسے اسلام کا قلعہ بھی کہا جا تا ہے ۔ہم سے اسلاف کی عطا کردہ اس عظیم نعمت کا حق ادا نہیں ہوا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہم کفران نعمت کاشکار ہوگئے ہیں ،ملک دو لخت ہوگیا،جمہوریت فطری طور پر پنپ نہ سکی ،ادارے مضبوط نہ ہوسکے،جہالت،غربت،کرپشن،فرقہ واریت،دہشت گردی،بھتہ / رشوت خوری،اقربا پروری،کام چوری عام ہوتی چلی گئی۔ یہ بات بھی عام ہے کہ اس دھرتی پرپیدا ہونے والا بچہ اپنے کندھوں پر لاکھوں روپے کا قرضہ رکھتا ہے مزیدبرآں ہم نے جہالت،بیماری اور کرپشن میں دنیا کے کئی ترقی پذیر ملکوں سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ہمارے بعد آزاد ہونے والے بیشتر قریبی ممالک ہیلتھ،ایجوکیشن اور ٹیکنالوجی میں ہم سے کئی گنا آگے نکل چکے ہیں۔بہرحال ہر پاکستانی ملک کو درپیش بڑے مسائل اورنچھلی سطح کے الجھے ہوئے معاملات سے خاصا پریشان ہے اور بہتری کے لئے دعا گو اور پُر امید بھی ہے۔ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ شاید ہی دنیا میں ایسا ملک یا معاشرہ ہو جو بیان کردہ مسائل و پریشانی سے سو فیصد محفوظ ہو۔اگر ہم اپنی انگلی کی طرف دیکھیں اور مستقل اسے دیکھتے ہی رہیں تو ہمیں انگلی کے پیچھے کی تمام چیزیں دھندلی نظر آئیں گے بلکل اسی طرح اگر بحیثیت پاکستان زندگی کے ہر موقع / موڑ پر اس کے مثبت پہلوں کو انگلی کی طرح فوکس کریں گے تو ہمیں بھی منفی پہلو دھندلا نظر آئے گا اور ہم ایک کامیاب قومی زندگی گزار سکیں گے۔بقول حضرت علامہ اقبال

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

ہمارے ملک میں کیا کچھ نہیں ہے خدا کے فضل و کرم سے چہار موسموں،اہم فصلوں،رسیلے پھلوں،تیل ،گیس و کوئلے اورقیمتی پتھروں کے کانوں،بہتے دریا،کھلے سمندر،فلک بوس پہاڑ K2، خنجراب ٹاپ سے چھانگا مانگا کے جنگلات تک،لواری ٹنل سے گوادر پورٹ تک،شاہراہ قراقرم سے انڈس ہائی وے تک،گندم ،کپاس خشک میوہ جات ،پھولوں،پھلوں اور بیج کی پیداوار ،کھیلوں کا سامان ہو یا آلات جراحی، دفاعی ساز وسامان ،دستکاری، چمڑے ، انجینئرنگ اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات، اور ایسی بیسیوں اشیاء مقامی طور پر تیار ہوتی اور برآمد کی جاتی ہے۔ہمارا ملک ٹیلنٹ Hub ہے۔ہر سال A اورO لیول کے بین الاقوامی امتحانات میں پوزیشن ہولڈرز پاکستانی بچے ہوتے ہیں،مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ اپنی نئی تحقیقات و انکشافات کے ذریعے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔پاکستان کی قابل افرادی قوت لاکھوں کی تعداد میں دنیا کے کئی ممالک میں اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں۔کرکٹ،ہاکی،سکواش،اسنوکر،باکسنگ ،ریسلنگ،کوہ پیمائی،اسپیشل گیمز میں عالمی ریکارڈ قائم کیے،موسیقی،گائیکی،اداکاری،نثر و شاعری ،مصوری اور دیگر اصناف میں بھی اپنی مثال آپ ہیں،بے شک یہ بات دنیا بھی مانتی ہے مختصر یہ کہ ہماری ترقی،کامیابی اور خوشحالی کا خواب اس وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جب نہ صرف حکومت بلکہ اس کے شانہ بشانہ تمام ادارے اور افراداپنی صلاحیت و استطاعت کے مطابق اپنا رول ادا کریں۔رشوت خوری ،تنگ نظری و اقربا پروری کو ترک کر دے،نسلی ،لسانی اور مسلکی تعصب کی سیاہ پٹی کو اتار پھینکیں،غور فکر اور مطالعے کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں،صحافت اصلاح کا ذریعہ ،سیاست دان سیاست کو خدمت سمجھیں،افسر شاہی اپنے آپ کو قوم کا خادم بنائیں،سول سوسائٹی حکومت اور عوام کی مشکلات کم کرنے میں اپنا غیر جانب دار رول ادا کرے۔ نوجوان اندھی تقلید چھوڑ کر تحقیق کی بنیاد پر محنت کو اپنا شعار بنائیں۔دنیا کو بدلنے سے پہلے اپنے آپ کو بدلیں،دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں،اگر کسی کو خوشی نہیں دے سکتے تو اس کا مزاق بھی نہ اڑائیں اور ہاں جو کام کل کرنا ہے وہ آج سے اور جو آج کرنا ہے وہ ابھی سے شروع کریں تو یقیناًدنیا کی اقوام میں ہماری صداقت،لیاقت ، امانت اور برتری کا دعویٰ برحق ٹھہرے گا۔ علامہ اقبال کے خوبصورت شعر سے اختتام کرونگا

نگاہ بلند سُخن دلنواز جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لئے

پاکستان زندہ باد آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button