کالمز

بارشوں نے آئینہ دکھا دیا

کہتے ہیں بارش خدا کی رحمت ہوتی ہے اور یہ جب جم کر برسے توعوام کیلئے ایک زحمت بلکہ عذاب بن جاتی ہیں ہمارے گاوں میں زمانہ قدیم سے ایک روج چلی آرہی ہے وہ ایسا ہے کہ جب کبھی گاوں میں پانی کی قلت پیداہونے کے امکانات نظر آجائے تو لوگ ایک بزرگ سید کی قبر پر جاکر اجتماعی دعا کے ساتھ بارش کیلئے نذرنیاز کرتے ہیں اور جب بارش جم کر برسے تو بھی گاوں کے لوگ انکے قبر پر جاکر خدا سے دعائیں کرتے ہیں یعنی ہمارے معاشرے میں نہ بارش کی قلت برداشت ہوتی ہے نہ کثرت۔اسکی ایک وجہ جو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں سہولیات کا فقدان ہے کیونکہ بارش نہ ہونے کے سبب ہمارے لوگ بہتی دریا کو دیکھتے ہوئے بھی عدم سہولیات کے سبب مستفید نہیں ہوسکتے ،اور بارش کی کثرت اس لئے برداشت نہیں ہوتے کہ کسی بھی ممکنہ نقصانات سے نمٹنے کیلئے ہمارے معاشرے میں سہولیات موجود نہیں ہوتے۔

my Logoاب سوال یہ ہے کہ اسطرح کی سہولیات کا فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ظاہر سی بات ہے حکومت وقت اسطرح کے تمام مسائل کو حل کرنے کا ذمہ دار ہے اب حکومت کون ہے؟ یہ بھی ایک سوال ہے کیونکہ حکومت خود چل کر عوام کی دہلیز پر نہیں پونچتے لہذا ہر حلقے کا ایک ممبر ہوتا ہے جسے عوام ووٹ دیکر قانون ساز اسمبلی تک پونچا دیتے ہیں تاکہ وہاں جاکر عوامی مسائل کی حل اور معاشرتی ترقی کیلئے عملی اقدامات کریں لیکن ہمارے ہاں صورت حال کچھ مختلف ہے ۔اسی حوالے سے اگر میں سب سے پہلے اپنے گھر کی بات کریں تو ہمارے حلقے(سکردو حلقہ نمبر3 (کے عوام نے ایک صاحب کو کاندھوں پر اُٹھایا بڑی عزت دی بھاری اکثریت کے ساتھ جتوا کر قانون ساز سمبلی جو انکے لئے ایک خواب بن چکی تھی وہاں پونچا یا ،عوام خوش اب تو اپنے علاقے سے ہی نمائندہ منتخب کیا ہے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گے سکول ہسپتال بنیں گے نگہانی صورت حال سے نمٹنے کیلئے یہاں ادارے قائم کئے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔معلوم ہوا موصوف تو کچھ اور نیت سے وہاں گئے تھے جوکہ انکی ذاتی مفادپر مبنی تھا۔پھر عوام نے اس حلقے کے پرانے نمائندے کو دوبارہ منتخب کیا اب انکے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ صاحب ہر علاقے میں کچھ لوگوں کو نواز کرووٹ حاصل کرنے کا عادی ہے عوامی مسائل کی طرف توجہ دیناہمیشہ سے انکے منشور میں شامل نہیں رہے ذاتی طور پر نہایت قابل احترام اور علمی شخصیت ہے لیکن انکی سیاسی قلابازیاں کبھی کبھی عوام کو بھی متذبذب شکار بناتے ہیں کہ اس بار کونسی پارٹی کیلئے نعرہ لگانا ہے ،موصوف عوامی خدمات کے دعوے بھی بڑے کرتے ہیں لیکن جب کوئی آفت آجائے یا کوئی اور معاشرتی مسائل رونما ہوجائے تو انکی خدمات کا پول کھل جاتا ہے۔ حالیہ بارشوں نے ان تمام نمائندوں کو آئینہ دکھا دیا جو عوامی خدمت کے بڑے دعوے کرتے تھے جس طرح بارشوں نے عوامی املاک کو بہالے گیا بلکل اسی طرح حکومتی دعوے بھی بارشوں میں بہہ گئے ایسے میں اب عوام کو سوچنا چاہئے ایسے نمائندے کا کیا فائدہ جو قدرتی آفات کے وقتوں میں بھی عوام کو یاد نہیں کرتے یا ایسے آفات سے نمٹنے کیلئے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔اب اگر ہم GBDMA کی کارکردگی کے حوالے سے بات کریں ہمارے ایک دوست کے مطابق انہوں میں گلگت میں قائم سیل پر فون کرکے بتایا کہ میرا تعلق کھرمنگ غاسنگ منٹھوکھا سے ہے اور ہمارے گاوں میں بارش نے تباہی مچائی ہے لوگ بے یارو مد گار حکومتی امداد کے منتظر ہے یہاں سردی کی وجہ سے کم عمر بچے بیمار ہونا شروع ہوگئے ہیں آگے جواب ملتا ہے کہ سڑک کی بحالی تک ہمارا وہاں پونچنا مشکل ہے کیونکہ راستے بند ہیں اور ہمارے پاس فضائی سروس کیلئے ہیلی کاپٹر دستیاب نہیں یعنی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے جو سیل قائم کیا تھا وہ بھی سہولیات سے محروم تھے ایسے میں اس خطے کے عوام کا اللہ ہی نگہبان ہے۔

اسی طرح اگر ہم ریسکیو سروس کی بات کریں تو سُنا ہے ہمارے ہاں ریسکیو 1122 کا ادارہ موجود ہے جنکا کام ہنگامی صورت حال میں فوری سہولت دینا ہے لیکن حقیقت میں یہ ادارہ صرف کچھ لوگوں کو نوکریوں کی حصول کا ذریعہ بنا ہوا ہے کیونکہ یہ ادارہ صرف شہری علاقوں تک محددود ہے جبکہ خطے کی آبادی کا 65فیصد لوگ بالائی علاقہ جات میں بستے ہیں اور اسطرح کے قدرتی آفات سے ہمیشہ بلائی علاقے متاثر ہوتے ہیں۔لیکن ہم قربان جائے ہمارے ان نمائندوں کی ویثرن پر جو ووٹ لینے تک بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن بعد از ووٹ عوام کو گڈبائے کہہ کر گلگت یا اسلام آباد میں سرکاری فنڈز غبن کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 1122کا سروس خطے میں تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر قائم کریں بالائی علاقہ جات کو اولین ترجیح دیکر یہاں اسطرح کی خدمات کو یقینی بنائیں لیکن یہ سب کام کرنے کیلئے جذبہ اور درد چاہئے وہ کہاں سے لائیں کیونکہ ہمارے تمام نمائندے حرام خوری کے سبب کاہل ہوچکے ہیں انہیں کرپشن کے علاوہ کوئی دورسرا کام کرنا آتا ہی نہیں۔اسی طرح اگر ہم ہلال احمر سوسائٹی اور ایدھی سروس کی بات کریں تو ان اداروں کو صرف شہروں تک محدود رکھنے کے بجائے بالائی علاقہ جات تک رسائی کیلئے کوشش کرنا بھی انکی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے جس طرح اسلام آباد میں شاہی حکمرانی ہے بلکل یہی اسی طرح غیرآئینی وزیرعلیٰ گلگت بلتستان بھی شاہی مزاج رکھتے ہیں۔گزشہ دنوں ایک صاحب نے موجودہ حکومت کا گلگت کو نظرانداز کرنے کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا پڑھنے کے بعد تاثر یہ ملتا تھاجیسے حکومت نے بلتستان میں دوھ اور شہد کی نہریں بنادیا بلتستان کو ان پانچ سالوں میں ترقی یافتہ شہروں کی فہرست میں شامل کر دیا۔وہ صاحب یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت گلگت کو محروم رکھا ہوا ہے عرض یہ ہے کہ جو مسائل گلگت کے ہیں اسی مسائل سے بلتستان کے عوام بھی دوچار ہے جو تکلیف گلگت کے عوام محسوس کر رہے ہیں اُس سے کہیں ذیادہ بلتستان کے عوام کوفت کا شکار ہے۔آج بارش کے بعد آپ سکردو یادگار شُہدا پر کھڑا ہو کر ترقی کے مناطر دیکھیں تو شائد اندازہ ہوجائے کیونکہ حالیہ بارشوں نے ہمارے حکمرانوں کے کارکردگیوں کی قلعی کھول کر رکھ دیا ہے سکردو شہر کی جو بدتر صورت حال ہے شائد آج سے پہلے کبھی نہیں ہونگے اسی طرح بلتستان کے بالائی علاقہ جات کے جو مسائل ہے جسکا کوئی پوچھنے والا بھی نہیں جبکہ گلگت کے بلائی علاقہ جات بلتستان کی نسبت قدرے بہترہے لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ مہدی شاہ چونکہ بلتستان سے تعلق رکھتے ہیں لہذا انہوں نے بلتستان کو ذیادہ فائدہ پونچایا، مہدی شاہ کی حکومت میں بلتستان کو جو جانی اور مالی اور معاشرتی مقام کے حوالے سے جو نقصانات ہوئے شائد کسی دور میں ہوا ہو،مزید تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔لیکن حالیہ بارش کی تباہ کاریوں اور حکومتی بے حسی ہمارا اصل مسلہ ہے اور ہمیں اس صور ت حال سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کیلئے فیصلے کرنے ہونگے عوام کو اب اپنے نمائندوں کا استقبال کس طرح کرنا چاہئے اپنے مسائل کو تکلیف کو محسوس کرکے کرسکتے ہیں ۔حکومت وقت کے پاس ابھی جو بھی وقت بچا ہے اس میں بہتر ہے کہ کچھ عوامی مسائل کو محسوس کرتے ہوئے فیصلے کریں ۔تمام بالائی علاقہ جات میں مستقل ایمبولنس سروس ریسکیو ٹیم کا یونیں کونسل کی سطح پر تعیناتی جیسے اہم ایشو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اسکے علاوہ حکومت کو چاہئے آرمی کی نگرانی میں کہ جلداز جلد بارش کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیکر نقصانات کا تخمینہ لگاکر عوام کو معاوضہ دیا جائے اور متاثریں کی بحالی کیلئے پورے گلگت بلتستان کی سطح پر ایمرجنسی نافذ کرکے سردی کی آمد سے پہلے عوام کا اپنے اپنے گھروں میں واپسی یقینی بنائیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button