کالمز

ٹوٹ بٹوٹ کے مرغے 

ایک آدمی نے مکھی کی پہچان کا عجیب طریقہ نکالا۔ایک روز اس نے اعلان کیا کہ آج میں نے چھ مکھیاں ماریں ۔تین نر تھیں اور تین مادہ ۔اس کے دوست نے پوچھا نر اور مادہ کآ آپ کو کیسے پتا چلا۔ اس نے جواب دیا ۔بڑی آسانی سے ۔تین مکھیاں مٹھائی پر بیٹھی تھیں اور تین آئینے پر ۔۔اور یقیناً ان حروف کو پڑھتے ہوئے قارئین کو ہنسی نہیں تو تھوڑی سی مسکراہٹ ضرور آئی ہوگی ۔ویسے ہسنا منع نہیں پر حروف پہ ذرا غور کریں لطیفہ ہے بڑا مزیدار۔آئنیہ اور مٹھائی کی مثال بھی بڑی زبردست اور معانی خیز ہے ۔ آئینہ تو بنا ؤ سنگھار کے لئے استعمال ہوتا ہے اور میٹھا کن کو پسند ہوتا ہے سب کو معلوم ہے۔۔لگتا یوں ہے کہ گلگت بلتستان کے گورنر نے بھی شائد یہ لطیفہ پڑھا ہوگا تبھی تو اسے خیال آیا ہے کہ اب نر اور مادہ کی پہچان کا وقت آ چکا ہے ۔ گورنر صاحب اب تک کیوں خون کے گھونٹ پی کر بہت سارے آرام و آسائیشوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھے اور چپ چاپ اپنے اوپر مراعات اور نوازشوں کی ہونے والی بارش کو بڑی سلیقہ مندی اور اف کئے بغیر سہتے رہے ہیں ۔اور جس طرح گورنر صاحب اور اس کی حکومت نے خون کے گھونٹ پی کر ان مراعات کو برداشت کیا عوام بے چاری بھی پچھلے پا نچ سالوں سے گورنر اور وزیر اعلیٰ کی عیاشیوں اور موج مستیوں ،اقربا پروری، کمزوروں کو دیوار سے لگانے والی پالیسی اور کرپشن سے حاصل شدہ رقوم سے موٹے تازہ ہونے پر اندر اندر سے جل بھن کر اپنے گورنر وزیر اعلیٰ اور وزرا ء کی ان مراعات اور آسائیشوں کا بڑ ے ارمان اور حسرت سے تذکرہ کرتی رہی ہے ۔پچھلے پانچ سالوں تک کرپشن کے آرام دہ بستر اور نوازشوں کے تکیے پر محو خواب رہنے والے گور نر کو یکا یک اور اچانک کرپشن کا بچھونا کیوں بُرالگنے لگا ہے ۔گورنر صاحب کو صوبائی حکومت کی بد نامی کا بھی بڑا پاس ہے اور اس بد نامی کی فکر اسے گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے ۔۔دال میں کچھ کالا ضرور ہے بلکہ مجھے تو پوری دال ہی کالی نظر آ تی ہے ۔محسوس یہی ہو رہا ہے کہ آئینے کے سامنے بیٹھ کر بناوٗ سنگھار کرتے کرتے گورنر صاحب شائد اکتا گئے ہوں یا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ گورنر صاحب اس پرانے آئینے کو کسی نئے اور امپورٹیڈ آئنے سے تبدیل کرنا چاہتے ہوں یا اب آئینے کے بجائے مٹھائی کے ٹوکرے سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہوں ۔۔

Hidayat Ullahگلگت بلتستان کی موجودہ صورت حال میں سیاسی لیڈروں عوامی نمائندوں اور وزراء کے بیانات سے اندازہ یہی ہو تا ہے کہ یہ سب کچھ آنے والے الیکشن دنگل کے ڈنکے ہیں، جو اتنے زور سے بجائے جارہے ہیں ۔ ان بیانوں سے بعض اوقات یہ خطہ سچ مچ کا صوبہ لگنے لگتا ہے ۔۔لیکن پھر قوم پرستوں کے الگ ریاست اور وزیراعلیٰ کا خطے کو آئنی صوبہ بنانے تک جہدوجہد جاری رکھنے کا عزم ، جماعت اسلامی کے اصولی موقف آزادکشمیر سے الحاق کے بیانات جب نظرسے گزرتے ہیں تو 2009 کے پکیج اور احساس محرومی لوٹ آتی ہے ۔۔دیگر باتوں سے ہٹ کر آئنی صوبے کی بات بھی وزیر اعلیٰ اور وزراء کے منہ سے کچھ عجیب سی لگتی ہے ان کے پچھلے پانچ سالوں کی جہد و جہد سب کے سامنے ہے ۔اور یہ آئنی صوبہ ایک خواب سا ہی لگتا ہے جسے پچھلے آٹھاسٹھ سالوں سے دیکھا جا رہا ہے ۔ویسے بھی جس خطے میں لوگوں کو تعلیم اور بنیادی ضرورتوں کی سہولتیں ہی میئسر نہ ہوں وہاں آئنی حقوق کی باتیں یا نعرے بے معانی بے سود اور بے کار سے لگنے لگتے ہیں ۔ کوئی لاکھ مخالفت کرے یا میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھے اس حقیقت سے کسی کو انکار ہو ہی نہیں سکتا کہ گلگت بلتستان کی سیاست ہو یا آزاد کشمیر کی وہ وفاق کے گرد ہی گھومتی ہے ۔

گلگت بلتستان کی سطح پر پیپلز پارٹی کی صدارت کی تبدیلی کی باتیں ہوں یا الیکشن کمشنر کی تقرری کا مسلہ یا مسلم لیگ ن کی آنے والے الیکشن میں کامیابی کی جہد و جہد یا آنے والے الیکشن میں وفاق کی مدا خلت کے خدشے یا پھر مقامی سطح پر علماء بورڈ کی تقرریوں پر اختلافات یا ایک مذہبی جماعت کی بڑی سرعت کے ساتھ تنظیم سازی، یا گلگت بلتستان مسلم لیگ کیو کے ذمہ داران کا ایک ٹکت دو مزے حکومت میں ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ کی مخالفت اور اب میری بلی مجھے ہی میاوءں کے مصداق پیپلز پارتی کے گورنر کا اپنی ہی جماعت اور وزیر اعلیٰ کے کرپشن کو طشت ازبام کرنا ۔اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ الیکشن کی ٹیمیں میدان میں اتر چکی ہیں اور نیٹ پریکٹس میں جتی ہوئی ہیں ۔دوسری طرف ملکی سطح پر کراچی میں دو مکتبہ فکر کے اشخاص کا یکے بعد دیگرے مارے جانا اور گلگت دنیور میں گجر حیات خان کا قتل کچھ نیک شگون نہیں لگتے ۔

ملکی حالات سے قطعی نظر گلگت بلتستان کے مذکورہ بالا حالات اور واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ سارے علامات اور اشارے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مفادات یا انتخابی کہانی شروع ہو چکی ہے ہو بہو وہی کہانی جو ہم سنتے اورپڑھتے آئے ہیں اگر کسی نے نہیں پڑھی یا سنی ہے تو ان کی یاد دہانی کے لئے لکھ دیتا ہوں ۔وہ کہانی ہے ٹوٹ بٹوٹ کے مرغے ۔اور یہ ایسے مرغے ہیں کہ ایک کی دم کالی اور ایک کی لال اوریہ دونوں مرغے ہر پانچ سال بعد شہر کی سیر کے لئے نکلتے ہیں ۔۔کبھی ایک ہوٹل سے انڈا کھاتے ہیں تو دوسرے ہوٹل میں چائے نوش فر ما رہے ہوتے ہیں ۔شہر کے سب ہوٹل فائیوسٹار ہیں جہاں صرف ٹوٹ بٹوٹ کے مرغے ہی نظر آتے ہیں دیسی مرغوں اور مرغیوں کے لئے ہدایات درج کی گئی ہیں جس میں یہ لکھا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے ڈربوں میں کالی دم اور لال دم کے نعرے اوربانگ دیتے رہیں ۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button