نوجوان

یوتھ کانفرنس

ستمبر کی 7اور8تاریخ کو دودن کی یوتھ کانفرنس مقامی ہوٹل چترال میں دھوم دھام سے منعقد ہوا۔میزبان اور منتظم AKRSPتھی۔کانفرنس میں نوجوانوں کی کارکردگی ،محنت،ہنر،جذبہ تعمیر ،مستقبل نظری،عزم وہمت،پھر ان کے نئے اشیاء کی نمائش اور ان کی تربیت وآگاہی میںAKRSPکے علاوہ دوسری غیر سرکاری تنظیموں کی کارکردگی کی کھل کر تشریح وتوضیح کی گئی۔ڈی۔سی چترال خود تشریف لاکر کانفرنس کی اہمیت کو آجاگرکیا۔ان کے علاوہ چترال میں تمام محکموں کے اعلیٰ افسرز،معززین ،وکلاء،سیاسی زعماء،اہل قلم،صحافی،شعراء وادبا،زندگی کے ہرطبقے سے تعلق رکھنے والے افراد،نوجوان اور چترال کی بیٹیوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔میں سن سن کے خوابوں کے جزیرے میں چلاگیا ۔مجھے یہ شرف حاصل نہ تھا ۔میں نہ معزز شہری،نہ نوجوان ایک ادنیٰ شہری جس کا تعارف گمنام رہنا ہے اور معاشرے کے پسے ہوئے لوگ اس چکاچوند سے ہمیشہ دور رکھے جاتے ہیں۔ان کو اپنی افسردگی سے فرصت نہیں ملتی اس لئے کسی نے کہا۔

درمحفل راہ مِدہ ،ہمچومنے را
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را

محمد جاوید حیات
محمد جاوید حیات

سٹال لگائے گئے تھے۔مصنوعات کی نمائش تھی۔NGOSکے ترقیاتی کاموں کی تشہیر تھی۔مختلف موضوعات پر Presentationتھے۔معزز مہمانوں نے سٹالوں کا دورہ کیا۔نہایت کامیابی سے یوتھ کانفرنس ا ختتام پذیر ہوئی۔کسی ملک،کسی قوم اور کسی معاشرے میں آگاہی سب سے ضروری چیز ہے ۔برے بھلے کی تمیز اسلام کی روح ہے اپنے نفع ونقصان کا احساس انسان کا بنیادی فرض ہے۔اگر کوئی قوم دوسروں پر انحصار کا عادی ہو تو اس کو لقمہ بنابنا کے کھلانا پڑے گا اور پھر دنیاسے اس کانام ونشان مٹ جائے گا۔اگر خود انحصار ہو تو وہ شیروں کا کھچار تعمیر کرے گی۔اور اس میں شیر پلیں گے۔اس کی ترقی کے راستے میں کوئی روکاوٹ نہ ہوگی وہ آگے ہی بڑھتی جائے گی۔ہم روایتی لوگ اس خصوصیت سے خالی ہیں۔گھر میں ایک کمائے باقی کھانے کے عادی ہیں۔اگر نوکرہی نہیں تو لفظ ’’بے روز گار‘‘کا لاحقہ لگار گھوڑا بیج کر پاؤں پھیلا کر گھر بیٹھیں گے۔NGOSنے اس طلسم کو توڑے ہیں۔انہوں نے نوجوانوں ،گھر بیٹھی خواتین،بے روزگار بزرگوں اور گھر گرہتی سے فارغ خواتین کو کام پہ لگایا۔آج ان کے ثمرات عیان ہیں بڑی بات یہ ہے کہ خود انحصاری کا جذبہ بڑھا ہے۔NGOSکے تعلیم یافتہ کارکن نئے نئے اصطلاحات اور الفاظ کو کھوار زبان میں شامل کرکے کام کی وقعت بڑھائی ہے۔لیپ ٹاپ اور پتلون کلچر اور چمکتی گاڑیوں نے اس جذبے کو دو آتشہ بنادیا ہے۔یوتھ کسی قوم کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں ان کی مناسب تربیت ہو تواس قوم کے ترقی نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

NGOSنے جہاں جہاں کام کیا ہے وہاں واضح طورپر ترقی آتی ہے۔مگر NGOSکا ایک الگ کلچر ہے ان کے اہلکار اپنے آپ کو عام لوگوں سے الگ رکھ کر ان میں اگاہی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اگر وہ لوگوں میں واقعی گھل مل جائیں تو کیا کمال ہو گا۔علاقہ تورکھو میں بچی نے آنکھوں میں آنسو بھر کے مجھ سے کہا۔NGOکی گاڑی نے میری بکری کچل دی میں نے کہا ’’وہ جو آپ کے لئے بجلی بنارہے ہیں‘‘بات بہت پرانی ہوگئی ہے۔NGOSمختلف میدانوں میں کام کررہی ہیں۔کلچرل پریزرویشن کے نام پہ بہت پیسے خرچ کردیتے ہیں۔اور کلچر میں ناچ گانوں اور شاعری کے علاوہ کسی چیز پر توجہ نہیں دیتے۔اگر کلچر کے نام پر چترال کی وہ عظیم روایات جن میں پردہ،مذہب ترین زبان،رشتے ناتے،شرافت اخلاق،سادگی محفوظ کرنے کی کوشش کی جائے تو تہذیب اکیڈیمی جو چترال کہلاتا ہے ان کا ممنون احسان ہوگا۔اگر یہ آگاہی پیدا ہوجائے تو ہمیں اپنے مقام کا اندازہ ہوگا اور اسباب کو اقدار پر ترجیح نہیں دیں گے۔ہمارے کردار کا معیار بڑھے گا جو اصل ترقی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button