کالمز

بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال

my Logoخطے میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کا پانچ سال مکمل ہونے جارہے ہیں خبریں گردش کر رہی ہے کہ الیکشن وقت پرہونگے مگر اسلام آباد کی موجودہ صورت حال اور الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کی تیاریاں دیکھ کر لگتا ہے کہ الیکشن تاخیر سے ہی ہوں گے۔لیکن آنے والے الیکشن میں کسی کو آنے کی خوشی اور کسی کو جانے کا غم اور کوئی نئی امید کے ساتھ گلگت بلتستان کی سیاست میں قدم رکھنے کیلئے پُر عزم نظر آتے ہیں ۔ دوسری طرف یہاں پر ابھرتی ہوئی انقلابی تحریکوں کا متحرک ہونے کے ساتھ اُنہیں عوام میں پذئرائی ملنا بھی سیاست میں تبدیلی کے حوالے سے اہم سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔لہذااس بار کامیابی کیلئے وفاقی پارٹیوں کو قومی ترقی اور تعمیر کے حوالے سے واضح پالیسی دینے ہونگے کیونکہ ماضی میں ان پارٹیوں نے سوائے کرپشن اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کے علاوہ عوامی اور قومی ترقی کیلئے کوئی بھی نمایاں کارنامہ سر انجام نہیں دیا اگر ہم صرف گزشتہ پانچ سالوں کی بات کریں جسے یہ لوگ مکمل جمہوری نظام تصور سمجھتے ہیں اس نظام سے عوام کوکیافائدہ ہوا؟ کونسے اہم منصوبے کو قومی ضرورت سمجھ کر مکمل کر لیا گیا، کونسی نئی صنعت کی بنیاد رکھی، کیا یہاں عالمی معیار کے مطابق تعلیمی ادارے بنائے گئے؟ایسا تو کچھ نہیں ہوا البتہ کرپشن کی نت نئی کہانیاں عوام سنتے رہے۔یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ سیاسی نظام نے آج تک عام آدمی کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی لانے کیلئے کو ئی قابل ذکر اقدام نہیں اُٹھایااور اگر ہم حقیقت کی نگاہ سے دیکھیں توہمارے ہاں الیکشن ایک طرح سے وفاقی نوکری ہوتی ہے جس کیلئے بدقسمتی سے عوام کواستعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں الیکشن کے دوران جان بوجھ کر جنگ کا سماں پیدا کیا جاتا ہے تاکہ عوام اگلے پانچ سال تک انہی رنجشوں اورکدوروں میں پھنسے رہے اور یہ لوگ عوام کے نام پر لئے گئے سرکاری فنڈز سے کوٹھیاں بناتے رہیں۔مجھے میرے لڑکپن کا وہ دن یاد ہے جب ہم بھی حقیقت سے لاعلمی کے سبب بھی تمام معاشرتی اخلاقی حدود کوپار کرکے مخالف پارٹی کوزیر کرنے کیلئے ایڑی چوٹی لگا دیتے تھے، لیکن یہ سب لاشعوری میں تھا جو کہ آج بھی میرے لئے باعث ندامت ہے کیونکہ محسوس ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کی سیاست کا کوئی منطق نہیں یہاں وہی حاکم ہوا کرتے ہیں جنہیں وفاق پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہو۔دوسری بات گلگت بلتستان کی سیاست دان بشمول عوام نظرئیے کی سیاست نہیں کرتے بلکہ لوٹا کریسی یہاں کی سیاست کا اہم جزو سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہاں آج تک ایک مضبوط سیاسی نظام قائم نہیں ہو سکے جوخطے کی اصل قومی ضرورت پر توجہ دے۔سچ تو یہ ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد وفاق کی طرف سے ملنے والی مخصوص بجٹ کی بندر بانٹ ہی دراصل یہاں کی سیاست کا محور ہے لہذا اسطرح کے نظام سے نہ عوام خوشحال ہو سکتا ہے نہ خطے کی آئینی حیثیت کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے ۔اور اگر کوئی پوچھے کہ سیاست دانوں نے عوام کی سیاسی پرورش کیسے کی تو بڑی معذرت کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے نام نہاد سیاست دانوں نے عوام کو معاشرے میں ذمہ دار قوم بنانے کے بجائے وفاق پرستی اور اسلام آباد سے آئے ہوئے خوش شکل خواتین وزیروں کے سامنے بھنگڑے ڈالنے تک ہی محدود رکھا۔لہذا اس بار قومی ضرورت کومدنظر رکھتے ہوئے ووٹ کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے یا پھر عوام کو چاہئے کہ کم از کم ایک بار اس نام نہاد الیکشن کا بائیکاٹ ہی کر دیں تویقین سے کہہ سکتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے غیر متوقع فیصلے ہونگے ۔ اگر ماضی کی سیاست کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وفاق کے ماتحت جماعتوں نے کبھی بھی عملی طور پر خطے کی آئینی حیثیت کے حوالے سے کسی ملکی اور غیر ملکی فورم پر آواز بلند نہیں کیایہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں نوجوان طبقہ محسوس کر رہے ہیں کہ آج بھی ہم ایک محکوم اور مظلوم قوم ہے ہمیں ہمارے ہینمائندے آج تک دوسروں کی مفادات کیلئے استعمال کرتے رہے ۔

ماضی میں پڑھے لکھے طبقے کی سیاست سے دوری کے سبب خطے میں وفاق اور مفاد پرستی کے راہ میں بھٹکے ہوئے سیاست دانوں نے عوام کواپنے اقاوں کی خوشنودی کیلئے مسلک پرستی کی راہ دکھا دی جس کی وجہ سے غیرمقامی دہشت گرد مُلاوں نے یہاں کارُخ کیااور یہاں کئی سو انسانی جانوں کا ضیاع ہونے کے ساتھ اس خطے کی اصل مسائل عوام کی نظر سے اوجھل رہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہیہاں بھی تبدیلی کے آثار نظر آنا شروع ہوچکے ہیں اسی خوف سے وفاقی بہروپئے ایک بار پھر گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دینے کی جھوٹے وعدے کرکے ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کر رہے ہیں لہذااب عوام کو گمراہ کرنے کا یہ سلسلہ اب بند ہوجانا چاہئے کیونکہ صوبہ بنانے کا مسلہ بھی اب واضح ہوچکی ہے کہ یہ مسلہ ایک آسان کھیل نہیں نہ انکی مرضی سے یہ کام ہوسکتے ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے یہاں کی باشندوں سے پوچھے بغیر وفاق کوئی بھی اقدام اُٹھانے مجاز نہیں۔لہذا مرکزی حکومت کو رائے دوں گا کہ خطے میں طویل دوریوں کے بعدعوام میں بھائی چارگی کی ایک فضا قائم ہوئی ہے اگر اسی فضا کو قائم رکھنے کیلئے کردار ادا کریں تو بڑا احسان ہوگا۔اس بار بھی اگر گلگت بلتستان کی سیاست کو مشن ضیاء کے فارمولے کے مطابق چلانے کی کوشش کی تو خطرناک نتائج نکل سکتا ہے کیونکہ یہ خطہ اب کسی تنازعے کا متحمل نہیں آپس کی بھائی چارگی اس خطے کی اہم ضرورت ہے جسے کسی بھی حال میں قائم رہنا ہے۔حالیہ دہشت گردی کے واردات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ دشمن ہمیشہ تاک لگائے بیٹھے ہیں لہذا عوام کو اس قسم کے سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اگر موجودہ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے بات کریں تو اس بات پر کوئی شک نہیں کہ انکے وزراء نے ان پانچ سالوں میں تاریخ کی بدترین کرپشن کی یہاں کے عوام کواس بات کا یقیناًکافی دکھ ہے کیونکہ یہاں کے باشندے اس پارٹی سے یہاں کے عوام ہمیشہ سے بہتری کے توقعات رکھتے تھے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہیکہ کرپشن کی اس گنگا میں صرف مہدی شاہ کو قصور وار ٹھہرانا بھی درست نہیں کیونکہ وہ اکیلا آدمی فیصلہ کرنے کی اختیار نہیں رکھتے حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے وزراء بھی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے رہے ہیں لیکن وفاق پاکستان میں اقتدار کی منتقلی بعدانکی رویوں میں تبدیلی آئی اور انہیں کرپشن نظر آنا شروع ہوگیا جو کہ میرے خیال سے یہ اگلے پانچ سال کیلئے اُڑان بھرنے کی حکمت عملی ہے تاکہ کسی بھی طرح نواز لیگ کی صف میں شامل ہو کر اقتدار کے مزے لوٹ سکیں ۔لیکن موجودہ سیاسی گرما گرمی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ حکمت عملی بھی بہت جلد دم توڑنے والی ہے اب حفیظ الرحمن کی سیاست کا کیا ہوگا یہ تو ہمیں نہیں معلوم البتہ انکے حوالے سے عوام پہلے ہی جان چکے ہیں کہ موصوف نے ماضی قریب میں دیامر کے مختلف مقامات پر سیاسی جلسوں کے دوران عوام کو ووٹ کی خاطر مذہب اور مسلک کے نام پر جذبات میں لانے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں اور میڈیا رپورٹ کے مطابق موصوف نے عوامی مطالبات کے خلاف وزیراعظم کو خصوصی خط بھی لکھا تھا کہ عوام دشمنی کی ایک مثال ہے ۔لہذا انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ گلگت بلتستان میں جو کھیل آپ ماضی میں غریب عوام کو بیوقوف بنا کر کھیلتے رہے اب ممکن نہیں بہتری اسی میں ہیکہ خطے کی سیاست کو تعصب اور اقرباء پروری سے دور رکھنے کیلئے کردار ادا کرے تاکہ لوگ آپ کو کسی پارٹی کی شناخت سے ہٹ کر ایک سیاست دان کے طور پر قبول کرے اگر ایسا نہ کیا تومعلوم ہونا چاہئے کہ گلگت بلتستان کی اکثریتی آبادی آپ اور آپکی سیاست کومسترد کر سکتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button