کالمز

زندگی، اے زندگی

محمد نذیر خان 

زندگی لوگ جسے مرہم غم جانتے ہیں
جس طرح ہم نے گذاری وہ ہم جانتے ہیں

ہائے وہ وقت کہ جب میرے ہم عصر دوست احباب گردش لیل ونہارکوروک کر اپنے سنہرے اورخوبصورت ماضی  کے دریچوں میں جھانکتے ہیں،اور  اپنے بچپن کے قصے چھیڑتے ہیں، اوراپنی معصومانہ شرارتوں کے تزکرہ  سے خوداور دوسروں کو محظوظ کرتے ہیں، تو ایکدرد دروں میں ہوتاہے،ایک  ٹیس جگرسے اٹھتی ہے، ایک آہ لبوں پرسجتی ہے، پھر آنکھیں میری بولتی ہیںَ۔۔۔۔۔۔بولتی ہیں اوربولتی ہیں،اور میں چپ سادھے سنتاہوں، قسمت پرسردھنتاہوں، پھر ارمانوں اورنامرادتمناءوں کی دھنک قلب ودماغ پرچھاجاتی ہے، اور تھوڑی دیر کیلئے میں بھی اپنے ماضی میں کھوجاتاہوں ،کھودتا ہوں کریدتاہوں، لیکن میرابچپن میرے دوستوں سے یکسرمختلف دکھتا ہے، عجیب پھیکا سا،جس میں کھیل کود کی ہنگامہ خیزیاں ہیں نہ ہی روٹھنے منانے کی کوئی داستان؛ گویا کہ کسی نے میرے بچپن کو نچوڑکر اس میں سے کھیل کود،شرارتوں، اورمسکراہٹوں کی آخری بوند بھی نکال لی ہو، اورنتیجتا میرے پاس کم سنی تو رہی ہو لیکن شرارتیں نہیں، بچپن تو ہولیکن کھیل کود اورمستیاں نہیں! معصومی تو ہولیکن  کتابیں ہیں ، کھلونےنہ دارد؛ بلکہ انہیں ”غربت”نامی ایک بلا اپنے ساتھ لے گئی ہے ! اور بدلے میں مجھے بیلچہ اور کدال تھماچکی ہے!

میری قسمت میں کتابیں نہ کھلونے آئے
غربت نے چھین لیا،مجھ سے بچپن میرا

  5سال کی عمر تھی جب گاءوں کے دیگربچوں کو رنگ برنگ لباس پہن کرسکول جاتے ہوئے دیکھتا تو درون دل سے ایک تمنا،  برآمد ہوتی ،لیکن تھوڑی دیرمیں وہ بھی دیگر خوابوں سمیت ہوامیں تحلیل ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے راہی بہ عدم ہوجاتی ! پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن یہ شوق کیوں اورکیسے پوراہو؟ بیچارے والد کرتے توبھی کیا کرتے ؟ ان سے تو اپنے ”مسلسل ہوتے بچوں ” کے پیٹ ہی نہ پالاجاسکتا تھا، تو تعلیم کیسی اور سکولوں کی فیس کہاں؟ وہ صبح اپنا ہتھوڑا، کرنڈی ہاتھ میں  جب کہ کمر سے رسی باندھ کر چلےکرجاتے،ہاں ایک سوکھی روٹی (جس کومقامی زبان میں چوپٹی کہاجاتاہے) ان کا زاد راہ ہوتا اوربس!  چلچلاتی دھوپ ہوتی  یاہڈیوں کے اندرگودہ تک جمادینے والی  یخ بستہ سردیاں،بس وہ پتھرتوڑتوڑکر تھک جاتے تو کسی ایک طرف ہوکر پرانے کپڑے پرمشتمل اپنا یہ ”لنچ بکس” کھولتے اور اس میں سے مل جائے توگندم ورنہ مکئی کی سوکھی روتی ”برآمدکرتے اور یوں ان کا”لنچ” شروع ہوجاتا! البتہ اگر کھبی کھبارمکئی کی سوکھی روٹی کے خشک ٹکڑے حلق سے نہ اترنے کی ضد کرتے توپانی کی مدد سے ان کومعدہ کی طرف دھکیلتے،اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوجاتے، پھر  جب شام کو لوٹتے تو ان کی انگلیاں خون رس رہی ہوتیں اورپیشانی پسینہ ؛اوپرسے کمرپرلکڑیوں کا بڑا ساگھٹا لدا ہوتا، جسے پھینکتے ہی وہ کسی خستہ حال کپڑے سے اپنی پیشانی پھونچتے،اورمیری ماں آوازدیتے :کچھ ہے کھانے کو؟غربت کدہ میں جومیسرہو اس پہ گذارہ کرکے نہیں تویوں ہی لیٹ جاتے، مسلسل محنت وہ بھی خارہ شگافی، (پتھرتوڑنا)،دن بھرکی تھکن ، اوراگلے دن پھربروقت اپنے  مشقت کدہ پہنچنے کی فکر۔۔۔۔۔۔ان کو کہاں اورکیاموقع دیتی کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کچھ دیر مل بیٹھ سکتے ، ان سے ان کے شوق وارمان پوچھ پاتے، اگرمعلوم کربھی لیتے تو کیاکرسکتے تھے؟ ابھی شام کی پرچھائیاں پوری طورپرخیمہ نہ ہوپاتیں کہ یہ مزدور ہر غم سے دور  نیند کی آغوش میں چلاجاتا،

 سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پراخباربچھاکر
مزدورکبھی نیندکی گولی نہیں کھاتا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button