کالمز

میں بھی کیا فضول باتیں سوچتا رہتا ہوں …….!

گاڑی سکردو سے گلگت کی طرف جا رہی تھی، میرے ہاتھ میں جدید قسم کا سمارٹ فون تھا جس کی سکرین پر اخبار کا پیچ کھلا ہوا تھا اور میں اپنی ہی رپورٹ پڑھ رہا تھا۔ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے شخص کی نظریں بھی اسی خبر پر ہی ٹکی ہوئی تھی، تھوڑی دیر بعد میں نے اخبار کا صفحہ بند کر دیا اوراس کی طرف تعریف طلب نظروں سے دیکھا مگر اس کے منہ سے نکلے جملوں نے میری خوشی غارت کر دی، وہ بڑی بے دردی سے دل شکنی کر رہا تھا۔ اس نے سے کہا’’مجھے ایسی خبروں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، خبر ایسی ہو کہ بندہ پڑھنے پر مجبور ہو جائے، کوئی مصالحہ دار قسم کی، مار دھاڑ ، فائرنگ دھماکہ والی یا کسی کی پگڑی اچھالنے والی‘‘۔

Mono zeeمیں نے کہا جناب آپ کی باتیں درست مگر کچھ اچھی خبریں بھی پڑھ لینی چاہئے جس سے دماغی حالت درست رہتی ہے۔ اس نے بے اعتنائی سے منہ دوسری طرف پھیر لیا اور میں نے بے بسی سے سر جھکا لیا۔ مجھے بار بار خیال آرہا تھا کہ یہاں اچھی بات کرنا تو دور کی بات سوچنا بھی فضول ہے لہذا مجھے بھی دیگر لوگوں جیسا سوچنا چاہئے۔ ان خیالات کی وجہ سے مجھے کوفت ہو رہی تھی لہذا گاڑی کا شیشہ ذرا کھول لیا اور آپس پاس کا نظارا کرنے لگا۔ واہ کیا شاندار علاقہ ہے۔ ہم روندو ڈمبوداس کے مین بازار سے گزر رہے تھے۔ دونوں طرف شاندار دکانیں بنی ہوئی تھیں جن میں لوگوں کا رش تھا اور لوگ بھی بہت اعلیٰ قسم کے، یعنی ان کے لباس دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا تھا کہ کتنے سلیقہ مند لوگ ہیں۔ دکانوں میں چیزوں کو انتہائی سلیقے سے سجا دیا تھا، آس پاس مسرور کرنے والی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ جنوری 2014ء میں جب میں یہاں سے گزر رہا تھا تب اس علاقے کی حالت ابتر تھی مگر اب یہاں کی ترقی دیکھنے لائق ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہماری گاڑی بازار کی حدود سے نکل گئی مگر اب بھی آس پاس کا نظارا دل کو لبھانے والا تھا، میری نظریں ان نظاروں کی ہو کر رہ گئی تھیں اور ذہن میں تھوڑی دیر پہلی والی تلخی کا اثر تک نہ تھا، سڑک اس قدر ہموار تھی کہ مجھے آہستہ آہستہ نیند آنے لگی تھی کہ اچانک ساتھ والے نے مجھ سے کچھ پوچھ لیا…… شاید میرا وہم تھا کیونکہ اس کی توجہ اب بھی دوسری طرف تھی ، میں نے دوبارہ نیند کی آغوش میں جانے کی کوششیں شروع کر دیں مگر اب نیند خفا ہو گئی تھی اور روکنے کے باوجود ایک بار پھر میرا دماغ انہی باتوں کی طرف چلا گیا، مجھے اس شخص کا رویہ بہت برا لگا تھا ، پھر سوچا کیوں نہ اپنا گریباں جھانک لیا جائے، ممکن ہے میری رپورٹ واقعی ایسی ہو جس کی داد نہ دی جائے لہذا میں نے دوبارہ سیل فون کے براوزر سے اخبار کا صفحہ کھولا اور اس رپورٹ کو پورا پڑھ لیا……. میں ذرا بلند آواز میں پڑھتا ہوں آپ بھی سن لیں پھر مجھے بتائیں کہ اس شخص کا رویہ ٹھیک تھا کہ غلط۔رپورٹ یوں تھی: ’’سکردو(ذیشان مہدی)دنیا بھر کی طرح سکردو میں بھی عاشورہ محرم مذہبی عقدت و احترام سے منایا گیا۔ سکردو بھر کی ہزاروں امام بارگاہوں سے ماتمی جلوس برآمد ہوئے جن میں ہزاروں عقیدت مندان حسین ؑ نے شرکت کی، جلوسوں میں کسی قسم کی ممکنہ بدنظمی سے نمٹنے کیلئے سیکورٹی فورسز کی قلیل تعداد بھی متعین کی گئی تھی جبکہ اہل تشیع کے علاوہ دیگر تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے عقیدت مندان حسین ؑ نے انتظامات سنبھال رکھے تھے۔ جلوس کے راستوں میں مختلف انجمنوں نے سبیل اور لنگر کا اہتمام کر رکھا تھا جو رات گئے تک جاری رہا۔ اہل تشیع کے جلوسوں کے ساتھ ساتھ مختلف مساجد سے نکلنے والی اہل سنت اور دیگر مسالک کی ریلیاں بھی شامل ہوتی رہیں۔ ریلیوں میں شامل علماء اور عقیدت مندوں نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر امام حسین ؑ اور ان کے جانثار ساتھیوں سے محبت کے اظہار کیلئے مختلف نعرے درج تھے۔جہاں جہاں اہل سنت اور دیگر مسالک کی مساجد کے سامنے سے جلوس گزرے وہاں عقیدت مندوں نے جلوس کے شرکاء پر پھول نچھاور کئے، مساجد اور مدارس کے سامنے جمع عقیدت مند مسلسل درود شریف کا ورد اور حسینیت زندہ باد کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ ان عقیدت مندوں نے جلوس کے شرکاء کے لئے شربت اور لنگر کا اہتمام کر رکھا تھا۔ بعض مقامات پر اہل تشیع کے جلوس کے شرکاء اور علماء نے اہل سنت برادری کے ہمراہ باجماعت نماز ادا کی ان مقامات پر اہل سنت علماء نے بھی اجتماعات سے خطاب کیا، ان کا کہنا تھا کہ امام حسین ؑ نے حق و باطل کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے، جو لوگ اس لکیر کو نہیں مانتے ان سے ہمیں کوئی شکوہ گلہ نہیں، وہ اپنے مذہب پر قائم رہیں ہماری ان سے درخواست صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ ہماری طرف سے عشرہ محرم کیلئے جاری کئے دعوت ناموں کو قبول کریں اور مجالس میں شریک ہوں تاکہ ان کو امام حسین ؑ کی انسانیت کیلئے دی گئی عظیم قربانی کا اندازہ ہو سکیں۔ علماء کے خطابات کے بعد جلوس کا سلسلہ دوبارہ جاری ہوا۔‘‘ میں نے خبر پر بھرپور تنقیدی نظر ڈالی تھی مگر مجھے اس میں کوئی خرابی نظر نہ آئی، چنانچہ ساتھ والے سے پوچھ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے کہا دوست مجھے ایک بات بتا دیں۔ وہ میری طرف متوجہ ہوئے تو کہا کہ آپ کو اس خبر میں کیا برائی نظر آئی اس کی نشاندہی کر دیں تاکہ میں آئندہ ایسی غلطی نہ کروں۔ وہ مسکرا دئیے اور نہایت منانت سے کہنے لگے ’’بھائی لگتا ہے آپ نے میری بات کو دل پر لیا ہے، یہ رپورٹ بہت اچھی ہے ، صرف ایک خرابی ہے بس وہ یہ کہ یہ معمول کی باتیں ہیں اور مجھ سے بہتر آپ جانتے ہیں کہ جو چیزمعمول بن جائے وہ نہیں بن سکتی۔‘‘ میں اس کا منہ دیکھتا رہ گیا، میں نے دل ہی دل میں اپنی غلطی تسلیم کر لی تھی چنانچہ اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔ ’’ ہاں واقعی یہ بات ٹھیک ہے، یہ رپورٹ آج سے 20سال پہلے شائع ہوتی تو شاید انوکھی اور نئی ہوتی مگر آج اس کی کیا اہمیت ہے، آج پاکستان کیا پوری دنیا میں یہی کچھ ہو رہا ہے، پاکستان سے باہر جب مسلمان عاشورہ یا عید میلاد کا جلوس نکالتے ہیں تو غیر مسلم تعاون کرتے ہیں، جلوسوں کے انتظامات تک غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، لہذا سکردو میں اہل سنت کا عاشورہ کے جلوس میں شامل ہونا یا شیعوں کا عید میلاد کے جلوسوں میں شامل ہونا کوئی انوکھی بات تو رہی نہیں، دماغ سے بوجھ جیسے ایک دم ہٹ گیا تھا۔‘‘ میں نے ’’آف‘‘ کہہ دیا اور سیل فون کی سکرین آہستہ سے بند ہو گئی۔ شام ہو رہی تھی اور ہم گلگت شہر میں داخل ہو گئے تھے، شاندار سڑکیں، بلند و بالا عمارتیں، ہر طرف روشنی، اتنی روشنی کہ سورج شرما جائے،ایسا لگتا تھا کہ جیسے ہم گلگت نہیں بیجنگ پہنچ گئے ہیں۔

آپ سوچ رہے ہونگے کہ اس کے بعد میری آنکھیں کھل گئیں اور خواب کا The Endہو گیا۔ ہاں ، ہے تو یہ خواب مگر آنکھیں پہلے سے ہی کھلی ہوئی تھیں، یعنی یہ کھلی آنکھوں سے دیکھا گیا خواب ہے۔ میں نے تصور کر لیا تھا کہ میں 2050ء میں یعنی 36سال بعد کی دنیا میں ہوں۔ جہاں ساری دنیا امن کا گہورا بنی ہوئی ہے، خصوصا مسلمانوں نے اپنے آپ کو اور اپنے دشمنوں کو پہچان لیا ہے، اپنے آپ کو سدھار لیا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے لڑتے، مرتے مرتے، ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے کہتے تھک جانے والے مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ اگر ہماری بھلائی ہے تو صر ف اور صرف اتحاد میں ہے۔ چنانچہ 2025کے آس پاس سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا جس کو2030ء تک بڑی حد تک کامیابی مل گئی اور معاملات تیزی سے آگے بڑھے۔ 

یہاں تک کی تحریر پڑھنے کے بعد بہت سارے دوست یقیناًہنس رہے ہونگے، میری سوچ پر، میری سادگی پر، میری چالاکی پر، میری خامی خیالی پر یا پھر اپنی ناامیدی پر….اگر ہم آج سے ہی انفرادی طور پر یہ طے کر لیں کہ خدا کو ، رسول ؐ کو اور حسین ؑ کو اپنی جاگیر سمجھنا چھوڑ دینگے تو یہ سب2025ء پہلے ممکن ہو جائے گا۔ ہمارے درمیان جھگڑے کی بنیاد ہی یہی ہے کہ ہم نے ان سب کو جاگیر سمجھ لیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ساری دنیا حسین ؑ سے عقیدت اس طریقے سے کرے جس طریقے سے ہم کرتے ہیں۔ ’’میں‘‘ سینہ زنی کرتا ہوں اور یہی عقدت کا سب سے بہترین طریقہ ہے لہذا اہل سنت دوست کو جبرا اس کام پر لگانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ’’میں‘‘ عاشورہ کے روز قرآن خوانی کرتا ہوں اور یہی سمجھتا ہوں کہ یہی حسین ؑ سے عقیدت کا بہترین طریقہ ہے لہذا اہل تشیع دوست کو بھی یہی کچھ کرنے پر مجبور کرنے لگتا ہوں۔ بجائے اس کے اگر مجھے اس بات پر فخر ہونے لگے کہ میرا حسین ؑ کتنا عظیم ہے جن کو شیعہ سینہ زنی کے ذریعے، سنی قرآن خوانی کے ذریعے، کوئی کانفرنس منعقد کر کے، کوئی سیمینارز کے ذریعے، کوئی ریلیوں کے ذریعے، کوئی آرٹیکل لکھ کر ، کوئی تقریر کر کے، فلاں سبیل کے ذریعے، فلاں لنگر تقسیم کر کے، فلاں سلام پیش کر کے ، فلاح مجالس کا انتظام کر کے اور فلاںآگ پر چل کے سلام عقیدت پیش کر رہا ہے۔ کاش ہم مذہبی اجتماعات میں دوسروں کے عقائد کو ’’ٹھیک ‘‘کرنے کی بجائے اپنا عقیدہ پختہ کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔کاش ہم عملی طور پر یہ مان لیں کہ حسین ؑ وہ واحد ہستی ہیں جن کو پوری دنیا نے حق گوئی کی علامت سمجھ لیاہے اور سب اپنے اپنے طریقے سے ان کے حضور عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں …..لیکن نہیں جناب ’’میں‘‘ وہ ہوں جس نے سب کو ’’میرا‘‘ طے کردہ طریقہ سکھانے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور اس ’’اعلیٰ مقصد‘‘ کیلئے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں…. یہاں تک کہ اس ’’نیک کام‘‘ کو انجام دیتے دیتے ’’شہید‘‘ ہو جانے کو سعادت سمجھتا ہوں….مجھے امید ہے کہ ’’میں‘‘ مزید 30سال زندہ رہوں گا لہذا کوئی ذیشان مہدی کی طرف سے دکھائے گئے’’ انوکھے خواب‘‘ کی تعبیر چاہتا ہے تو مزید 30سال انتظار کرے…….! 

اب لوگ جو دیکھیں گے تو خواب اور طرح کے

اس شہر پہ اتریں گے عذاب اور طرح کے

واعظ سے فراز ؔ اپنی بنی ہے نہ بنے گی

ہم اور طرح کے ہیں ، جناب اور طرح کے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

2 کمنٹس

  1. it’s a request , just wanted the fonts of this website a little bigger, it is really difficult to read such small fonts.

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button