کالمز

جنات سے ایک خصوصی انٹرویو ….

تحریر: علی احمد جان

صحافی دفتری کام میں مصروف۔۔۔ فون بجتا ہے۔۔۔صحافی فون اٹھاتا ہے)

غیبی آواز: رپورٹر صاحبب کہاں ہو؟

رپورٹر: میں دفتر میں ہوں۔ آپ کا اسم گرامی؟

غیبی آواز: ہم بہت دور سے آپ کے علاقے میں آئے ہیں۔۔۔ یعنی ویت نام سے۔ ہمیں آپ کے اخبار کے لئے ایک “ایکسکلوسیو” انٹرویو دینا ہے۔

رپورٹر: میرے پاس وقت نہیں ہے۔ میں مصروف ہوں۔

غیبی آواز: پھر ہمارا کسی اور اخبار کے نامہ نگار سے رابطہ کروادیں . بعد میں ہم سے کوئی گلہ نہ ہو۔

رپورٹر: جناب میں ابھی آتا ہوں۔ انتظار کیجئیے۔

(رپورٹر صاحب کیمرہ اور دیگر ضروری سامان لے کرجگلوٹ اڈہ پہنچ جاتے ہیں )

25000 جنات نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور اپنے سردار کے پہلو میں رپورٹر کے لئے ایک آرام دہ کرسی لگادی۔

(سلام دعا کے بعد تمام جنات نے فردآ فردآ اپنا مختصرتعارف کرایا اور انٹرویو شروع ہوتا گیا۔)

رپورٹر: آپ کہاں سے اور کیوں آئے ہیں۔

جن:ہم بہت طویل سفر طے کر کے آئے ہیں۔ ہم براستہ برما تھائی لینڈ سے ہوتے ہوئے ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کر کے خلیج بنگال پہنچ گئے۔ ہمارا اگلا پڑاو ہندوستان تھا۔ یہ سفر بحری جہاز میں طے کیا اور وہاں سے پی آئی اے کی پہلی پرواز میں پاکستان پہنچ گئے۔ (جس کے لئے ہمیں 24 گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔کیونکہ پائلٹ ناشتہ نہ ملنے پر ہڑتال پہ تھا۔)

رپورٹر: پاکستان سے گلگت بلتستان کا سفر کیسا ہر؟

دوسرا جن: مت پوچھئے جناب۔ ہم غلطی سے مشہ بروم کی بسوں میں سوار ہوگئے۔ راستے میں ایک مقام پر تمام مسافروں کو اتارا گیا۔ شناختی کارڈ پر نام پڑھ کر لوگوں کو الگ کیا اورانھیں قتل کیا گیا۔ شکر ہے ہم مسلمان نہیں ہیں۔ہم ہندومت کے ماننے والے ہیں۔ اس لئے بچ گئے۔

رپورٹر: گلگت کو ہی منتخب کرنے کی وجہ؟؟ یہاں کن کن علاقوں کا دورہ کریں گے؟

جن: ان دنون ویت نام کا درجہ ء حرارت 25 سے 38 ڈگری سنٹی گریڈ کے درمیان ہے۔ جبکہ سیاسی درجہء حرارت بھی جمود کا شکار ہے۔  کہیں بھی “انقلاب” اور “آزادی مارچ” کا نام ونشان تک نہیں ہے اور نہ ہی وہاں گلو بٹ ، پومی بٹ وغیرہ موجود ہیں۔ اس لئے ہم نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ اسلام آباد پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ اس سے بھی عجیب اور انوکھا خطہ شمال میں پایا جاتا ہے۔ جہاں سال میں دو مرتبہ یوم آزادی منایا جاتا ہے۔ گورنر اور وزیر اعلیٰ چیف سکٹری کے ماتحت کام کرتے ہیں، ملک کے صدر کو اس خطے کا پورا نام معلوم نہیں ہے ، وہاں کے لوگ مہمانوں کو خلوص کے ساتھ ٹوپیاں پہناتے ہیں مگر وہ سیاست دان اس علاقے کے معصوم باسیوں کو “بڑی بڑی ٹوپیاں” پہناتے ہیں ، حقوق کے لئے احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسائی جاتی ہیں  اور قاتلوں کو سراہا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں سن کر ہم بلا تاخیر یہاں پہنچ گئے۔

تیسرا جن: ہمیں سیرکا بھی شوق ہے۔

رپورٹر: ان دنوں آب کی کیا مصروفیات ہیں؟

جن: رات کوان دنوں کشروٹ میں میوزیکل کنسرٹ کرتے ہیں اور باآواز بلند گانا گاتے ہیں۔

رپورٹر: سنا ہےرونے کی آوازین بھی آتی ہیں۔

چھوٹا جن: ہمیں گانے کا موقع نہیں ملتا ہے اس لئے روتے ہیں۔

جنات کا سردار: خاموش! ہم گلگت بلتستان کے لوگوں کی قسمت پر روتے ہیں۔

رپورٹر: اگر میں آپ سے دوبارہ ملنا چاہوں تو؟؟؟

جن: ہم کے- ٹوکے دامن میں، راکاپوشی کے مقام پر نانگاپربت کے قریبی علاقوں میں قیام کر سکتے ہیں۔ آپ “اپنا صحافتی اثروسوخ” استعمال کر کے یا بھر پریس کارڈ دکھا کر ہم سے ملنے آسکتے ہیں۔

(یہ پیکیج صرف آپ کے لئے اوار آپ کے اخبار کے لئے ہے).

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

2 کمنٹس

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button