کالمز

بے مقصد دھرنے 

دو ماہ سے زائد عرصے تک اسلام میں جاری پی اے ٹی کے دھرنے بالاآخر بغیر کسی مقصد تک پہنچے ختم ہوگئی البتہ پی ٹی آئی کے چیرمین اب بھی بضد ہے کہ وہ نوازشریف کا استعفیٰ لینے بغیر اسلام آباد سے ہلنے والا نہیں اس احتجاجی تحریک پر اب تک بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے البتہ ایک سوال بڑا ہی اہم ہے وہ یہ کہ آخر پی ٹی آئی کے اس دھرنے کا انجام کیا ہوگا کیا دھرنااپنی منزلِ مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس دھرنے کے مقاصد کیا تھے؟

qدرحقیقت دھرنے میں شامل دونوں گروپوں پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے پاس نہ تو کوئی نظریہ ہے اور نہ ہی متبادل سیاسی ومعاشی نظام جسکی مدد سے ملک کی حالتِ زار بہتر بنایا جا سکے ہیں ان کے پاس اگر کوئی نظریہ ہے تو وہ سوائے انقلاب،تبدیلی اور نئے پاکستان کے دلکشن نعرے اور’’گو نواز گو‘‘ کی صدا ۔دونوں جماعتوں کے راہنماؤں اور پاکستان کے پڑھے لکھے لوگوں کو یہ احساس ہے کہ موجودہ نظام میں عوام کی فلاح وبہبود اور’ اسٹیٹس کو‘ کو توڑکر ملک کوفلاحی ریاست بنانے کی صلاحیت ناپید ہے، لیکن پھر بھی پی ٹی آئی اسی ہی نظام اور آئین کو ہی نافذ رکھنے کا خواہش مند ہے ان کی نگاہ میں آصف علی زرداری اور نواز شریف کے بجائے اگر حکومت پی ٹی آئی کے چیرمین عمران خان کے ہاتھ آئے تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہرین بہنا شروع ہو جائینگی اسی لئے تو طویل بے مقصد دھرنوں کے بعد اب عمران خان ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں سے احتجاجی تحریک شروع کر دی ہے اور ساتھ ہی ساتھ دھرنے کو بھی برقرار رکھا ہے جبکہ طاہر القادری رختِ سفر باندھ کر فرار کے راستے پر چل نکلے ہیں دونوں کے پاس سوائے نواز حکومت کے خاتمے کے اور کوئی متبادل نظام موجودنہیں سوال یہ پیداہوتا ہے کیا یہ تحریک نواز شریف حکومت کا خاتمہ کرے گی ؟ اس سے بھی اہم سوال یہ سراٹھا کے کھڑی ہے کیا صرف موجودہ حکومت کے خاتمے سے سیاسی نظام اور آئین میں موجود خامیاں دورہوسکتی ہے ؟ ان سوالوں کا جواب سراسر نفی میں ہے کیونکہ مسئلہ آصف علی زرداری یا نواز شریف کے حکومت میں ہونے کا نہیں اور نہ ہی عمران خان کو حکومت ملنے کی صورت میں برسوں سے رائج دہرا نظام آسانی سے تبدیل ہوسکتا ہے اگر بالفرض مئی 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کودو تہائی اکثریت بھی ملتے تو وہ تین سالوں تک آئین میں ایک نقطے کو بھی ترمیم کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے کیونکہ ایوان بالایعنی سینٹ پر پہلے سے پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نوازاور دوسری جماعتوں کا قبضہ ہے جبکہ پی ٹی آئی کی کوئی نمائندگی نہیں ۔علاوہ ازین سینکڑوں برسوں کے ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد برطانیہ میں مستحکم ہونے والی پارلیمانی جمہوریت پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے کیونکہ پارلیمانی جمہوریت برطانیہ جیسے معاشرے کو تو فلاحی ریاست بنادیاہے لیکن پاکستان پہنچ کر انتہائی بدعنوان اور آمرانہ صورت اختیار کر گیا ہے ویسے بھی مغربی ناقدین پارلیمانی جمہوریت کے لئے ’’کیبنٹ ڈیکٹیٹر شپ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہے کیونکہ اس نظام میں سارے آئینی وانتظامی اختیارات وزیر اعظم اور اس کے من پسند کابینہ کے پاس ہوتی ہے ۔

چونکہ چیرمین پی ٹی آئی اور سربراہ پی اے ٹی کے مشیر اور قریبی افراد کا تعلق روایتی سیاست دانوں کی ہے جو اپنی ذاتی مفادات کے لئے سیاسی راہنماؤں اور اداروں کو لڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے یہی موقع پرست اب عمران خان اور طاہر القادری کو مس گائیڈ کرکے اپنے مفادات کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہے اگر پی ٹی آئی میں شاہ محمود قریشی ، جہانگیر ترین اور شیخ رشید اور پی اے ٹی میں چودھری برادران کے بجائے سوچنے سمجھنے والے سیاسی وآئینی ماہرین ہوتے تو آج اتنی طویل اور طاقت ور عوامی تحریک بے نتیجہ نہیں رہتے ۔چونکہ پاکستان کے انتخابی و سیاسی نظام انتہائی پیچیدہ اور تضادات سے بھر پور ہے انہی قوانین میں تبدیلی لاکر جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ سائنسی اصولوں پر استوا کرنے کی ضرورت ہے اور خاض کر پارلیمانی نظامِ سیاست میں جس انداز سے طاقت کا توازن بگڑ کر ایک ادارے یا چند افراد تک مرتکز ہو کر رہ گئی ہے انہیں بیلنس کئے بغیر پائیدار امن اور سیاسی استحکام شائد ممکن نہ ہو اب ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامی اور سیاسی طاقت کو متوازن کرنے کے لئے ملک میں خالص پارلیمانی نظام کی بجائے فرانس اور ترکی کے طرز کا ’صدارتی کم پارلیمانی‘ نظام رائج کرنا ناگزیر ہے جسمیں اختیارات ایوانِ صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے درمیان برابر تقسیم ہوتے ہیں فرانس اور ترکی اسی ہی نظام کے بل بوتے پر سیاسی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں صرف میٹروبس میں ترکی کا نقل اتارنے کے بجائے ٹیکنیکل آئینی اصولوں پر بھی ترکی کے آئین کا مطالعہ کیا جاتا جو حالات اتنی کشیدہ نہ ہوتے حالیہ سیاسی بحران میں صدرِ مملکت کی بے اختیاری سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ موجودہ نظام میں مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت ناپید ہے اسلئے اب وقت آگیا ہے ملکی نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کر کے انتظامی وسیاسی اختیارات ایوانِ صدر او ر وزیر اعظم ہاؤس کے درمیان برابر تقسیم کیاجائے۔صدر کا انتخاب Indirectکے بجائے Direct عوامی ووٹوں سے عمل میں لایاجائے تاکہ صدر خالی تنخواہ خور ہونے کے بجائے کچھ اختیارات کے مالک بھی ہوتاکہ ملک دوبارہ کسی کرائسز کا شکار نہ ہوجائے ، اور وہ عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہو،علاوہ ازین ملک میں ہر تین سال بعد سینٹ کے انتخابات ہوتے ہیں وہ بھی بلاواسطہ اراکین اسمبلیوں کے ذریعے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ سینٹ کے ہر الیکشن کے موقع پر دھونس دھاندلی ،اراکین کی خریدوفروخت اور دولت وثروت کا بے تحاشہ استعمال ہوتا ہے ہر جماعت یہ چاہتی ہے کہ ان کے امیدوار سرمایہ داریافیوڈل ہواور جنکے پاس دولت کی ریل پیل ہو ،جو پیسہ دے کر ممبران کو خرید سکے اس ضمن میں کروڑوں بلکہ اربوں روپے اراکین اسمبلیوں کو خریدنے کے لئے خرچ کیا جاتا ہے اگر کوئی بھی سیاست دان اربوں روپے خرچ کرکے سینٹ کی رکنیت حاصل کر ے تو پھر اگلے چھ سالوں میں خرچ کئے گئے رقم کی وصولی اور اگلے انتخابات کے لئے مزید مال بنانے کی چکر میں لگتے ہیں ایسی حالات میں عوامی مسائل کا کوئی پرسان حال نہیں اس اپشن کو روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ امریکن طرز پر سینٹ کے انتخابات میں براہ راست ووٹوں کا میکنزم اختیار کیاجائے تاکہ سینٹ کے انتخابات کے وقت ہونے والے بے انتہا کرپشن اورلوٹ کھسوٹ کو روکا جائے لیکن’ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون‘؟ عمران خان اور طاہرالقادری مفادات کی جنگ میں پڑنے کی وجہ سے مسائل ان کی نظروں سے اوجھل ہے اوپر سے وزیر ومشیر ماسوائے لڑنے لڑانے ،جلانے اورگرانے کے شغل میں مصروف ہے اگرچہ ان دھرنوں اوراحتجاجی سیاست سے عوام میں شعور وآگہی پھیل چکی ہے اور اب سوئے ہوئے عوام مقتدر طاقتوں سے پوچھنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں لیکن تحریک کے راہنماؤں کے پاس جو عوامی طاقت تھی اسکا درست سمت میں استعمال نہ ہوا جسکی وجہ سے اتنی مضبوط مومنٹ کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button