کالمز

ریاست،حکومت اور جمہوریت

تحریر: ذولفقار علی غازی

یہ ریاست اور حکومت میں آخر فرق ہے کیا؟ مانا کہ ریاست کے ستون ہوتے ہیں۔کہنے کو تین ،پر تین سے کام نہیں چلا۔ تینوں ہی آپس میں الجھتے رہے،ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوکر اسمبلی پہنچنے والے، پیر نواب خان ملک چودھری اور مولانا شیخ ساییں جی نے جب آپسی مکمکا کے زریعے حکومت نام کی چیز (جو آج تک کسی کو نظر نہیں آئی) بنائی تو دوسرا ستون بنا۔ تیسرا ستون بنانا ضروری تھا سو بنا لیا، جس نے ہر ممکن حکومت کا ساتھ دے کر اپنی نوکری بنائے رکھی۔ اسی ستون کے سہارے جب لجسلیٹرز نے انتظامی امور چلانے پر معمور سوٹ بوٹ میں ملبوس بیوروکریٹس کی طاقت کو چیلنج لردیاتو عدالت کو خامخا داخل دینا پڑا،اب عدالت کس کی سنتا، افکورس اس کی جو جج لگاتا ہے۔ جب عدلیہ لی یہ کمزوری مسلحہ بوٹ والوں پر افشاں ہواتو پہلے ستون (اسمبلی) نے بوٹوں کی پالش کا ٹھیکہ بلامعاوضہ اس شرط پر قبول کیا کہ ان کی ظاہری حیثت کو برقرار رکھا جاے گا تالہ عوام کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ اب چوتھا ستون ان ہوگیا تھا۔ ان سب کو جب معلوم ہوا کہ افواوں کا باقاعدہ نظام کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور یونیورسٹیز تواب باقائدہ پروفیشنلز بمع ڈگری مارکیٹ میں لا رہی ہیں تو اس خوف سے کہ کہیں پہلا ستون ہی ان کے قبضے میں نہ چلا جاے پانچواں ستون بنانا پڑا، اب ان پانچوں کا آپس میں معاشقہ آپ کے سامنے ہے، عاشق، معشوق،اور رقیب،کے مابین قاصد کا ہنر اب نکہر رہا ہے، کیوں کہ کام بڑھ گیا ہے۔

اب اگر آپ کے بس میں ہو تو ان ستونوں پر قائم ریاست کو ڈھونڈ لیجئے۔ من کرتا ہے کہ کبھی اسمبلی کے باہر کھڑے ہو کر معزز ارکان سے یہ سوال پوچھوں کہ ریاست ہوتی کیا شے ہے؟ آخر کو ان دیمک ذدہ ستونوں پر ریاست کو کب تلک قائم رکھا جا سکتا ہے؟ کیا کچھ اور نئے ستون متعارف کرواے جا سکتے ہیں ؟ اگر یہی سوال تھر اور چولٍٍٍستان کے عوام سے پوچھا جاے، جن کے بچے بھوک سے مر رہیں ہیں اور حکومت سندھ نے کمال مہربانی کرکے مفت گندم کے ساتھ مفت مٹی بھی تھریوں کو بیجاہے، تو نہ معلوم کیسے کیسے جوابات سسننے کو ملیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، ایسے ہی پر فریب و پر کشش نعروں کے ساتھ کام چالو رکھئے شاید تھر سے بھٹو نکلے۔

پورے ملک میں روزانہ چھ سو سے ذاید بچے مر جاتے ہیں جو یقینی طور پر غریب عوام کے بچے ہوتے ہونگے، ایسے میں اگر تھر میں دو چار بچے بھوک سے مرجائیں تو کیا ہوا، سندھ حکومت کر بھی کیا سکتی ہے؟ اسے میں اگر معزز رکن اسمبلی محترم و مکرم جناب شرجیل انعام میمن یہ بتلاے کہ ملک میں روزانہ چھ سو بچے مرتے ہیں اور تھر میں چار بھوک سے مر جاییں تو کیا ہوا؟؟ کیا ہو؟ کیا ہوا؟ بات تو ٹھیک ہے تھر میں تو بھوک بچوں کو کھا جاتی ہے جبکہ پنجاب میں اکژر مائیں بچوں کو زہر کا ڈوز دینے کے بعد خود بھی زہر کا پیالہ نوش کرتی ہیں اور بچوں کے ساتھ ماں بھی ۔۔۔۔! سندھ میں گزشتہ چھ سالوں سے پی،پی،پی کی حکومت ہے، پر وزارت صحت افغانستان کے حولے ہے لہذا ساییں شاجی (قائم علی شاہ) کو الزام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ان حالات میں کوئی بھی پوچھ سکتا ہے نا؟؟؟ ریاست کہاں ہے؟ حکومت کہاں ہے؟ اسمبلی کیا کر رہی ہے؟ عدلیہ کن کاموں میں مشغول ہے؟ 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button