کالمز

وفاقی وزیر تجارت کے دورہ گلگت بلتستان پر ایک طائرانہ نظر

وفاقی وزیر تجارت انجینئر خرم دستگیر گلگت بلتستان کا تین روزہ دورہ مکمل کر کے اسلام آباد روانہ ہو گئے ۔وزیر موصوف ایوان صنعت و تجارت گلگت بلتستان کی دعوت پر گلگت آئے تھے ۔وفاقی وزیر نے اپنے دورے کا آغاز ایوان صنعت و تجارت کے دفتر میں ان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں شرکت کر کے کیا ۔اس تقریب میں ایوان صنعت و تجارت کے صدر جاوید حسین ،سینئر نائب صدر ارمان شاہ ،نائب صدر ایمان شاہ کے علاوہ ایگزیکٹیو باڈی کے ممبران اور دیگر نے شرکت کی ۔اس موقع پر صدر جاوید حسین نے ایوان صنعت و تجارت گلگت بلتستان کو در پیش بہت سارے مسائل خصوصی طور ہر ہمسایہ ملک چین کے ساتھ تجارتی معاملات میں پیچیدگیاں اور مشکلات کے حوالے سے وزیر موصوف کو آگاہ کیا ۔جاوید حسین نے کہا کہ گلگت بلتستان چیمبر آف کامرس میں تین سو سے زائد ممبران شامل ہیں اور تمام ممبران ایکسپورٹ اور امپورٹ کے حوالے سے پاک چین سرحدی تجارت سے منسلک ہیں چین اور پاکستان کے مابین ایک تجارتی معاہدہ بارڈر ٹریڈ پروٹوکول کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان 1985 سے تجارت ہو رہی ہے جس میں برابری کی بنیاد پر دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ساتھ ہی مال کے بدلے مال کا تجارت بھی صوبہ سنکیا نگ اور گلگت بلتستان کے درمیان عرصہ دراز سے چل رہا ہے ۔لیکن ستم ظریقی کی بات یہ ہے کہ چائنا اپنا مال سو فیصد ہماری طرف بر آمد (ایکسپورٹ کر) دیا ہے جبکہ ہماری طرف سے 5 فیصد بھی مال ایکسپورٹ نہیں ہو رہا ہے جو کہ سراسر نا انصافی اور معاہدے کی خلاف ورزی ہے دوسری طرف ہمارے بہت سارے مصنوعات اور پھل فروٹ جن میں چیری ،خوبانی اور دیگر اشیاء شامل ہیں جن کی چائنا مارکیٹ میں مانگ ہے چینی حکام مختلف میلے بہانوں سے ہمارے مال کو بارڈر پر روک کر ایکسپورٹ کر نے نہیں دیتے جبکہ چینی امیگریشن کی طرف سے گلگت بلتستان کے کاروباری حضرات کی خنجراب ٹاپ اور تاشغر غن کے مقام پر ایسی تذلیل کی جاتی ہے جو کسی دشمن کی بھی نہیں کی جاتی ۔ہمارے ساتھ برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ آقا اور غلام کی طرح تجارت کی جا رہی ہے جو کہ دونوں ہمسایہ ممالک کیلئے کسی طور پر بھی بہتر نہیں لہذا چینی امیگریشن کے اس رویے کوختم کرانے کیلئے حکومت پاکستان کو چینی حکومت سے بات کرنی چاہئے بصورت دیگر آنے والے دنوں میں دونوں ہمسایہ اور دوست ممالک کے درمیان نہ صرف تلخی آسکتی ہے بلکہ سرحدی تجارت کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔صدر ایوان صنعت و تجارت نے کہا کہ پاک چین سرحدی تجارت سے گلگت بلتستان کے ہزاروں افراد کا روزگا سے ر وابستہ ہے اگر سرحدی تجارت میں روز بروز مشکلات میں اضافہ ہوا تو نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان بھی کاروباری لحاظ سے متاثر ہو سکتا ہے ۔صدر چیمبر نے ایف بی آر کی طرف سے کسٹم میں گلگت بلتستان کے کاروباری حضرات کیلئے تجارت میں رعایت کی ضرورت پر زور دیا ۔کیونکہ گلگت بلتستان کے کاروباری حضرات کیلئے اور کوئی خاص ذریعہ معاش نہیں ہے ۔لوگ غریب ہیں لہذا سوست کسٹم میں نہ صرف خصوصی رعایت دی جائے بلکہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے کاروباری حضرات کیلئے سرحدی تجارت میں کسٹم ڈیوٹی میں مکمل چھوٹ دی جائے ساتھ ہی سوست بارڈر سے کسٹم ڈیوٹی کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک معقول حصہ گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کیلئے مختص کی جائے ۔جس طرح طور خم چمن اور نفتان کے سرحد میں رہنے والے لوگوں کیلئے مختص کیا جا تا ہے ۔
تحریر: نسیم ہنزائی 
تحریر: نسیم ہنزائی 

وفاقی وزیر اگلے روز خنجراب ٹاپ گئے انہوں نے ٹاپ پر قائم چینی اسیگریشن کے دفتر کا دورہ بھی کیا اور سنٹر میں موجود سیکنگ سسٹم اور دیگر اہم تنصیبات کا تفصیلی جائزہ لیا جو پاکستان بارڈر پر نہیں ہے اس کے بعد وفاقی وزیر نے سوست ڈرائی پورٹ کا دورہ کیا جہاں پر کسٹم کے ایڈیشنل کلکٹر صادق اثر جان امپورٹ ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں اور سوست ڈرائی پورٹ کے ذمہ داران بھی موجود تھے ۔اس موقع پر امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے اراکین نے وفاقی وزیر کو اپنے مشکلات سے آگاہ کیا سوست ڈرائی پورٹ کے ذمہ داران نے اس موقع پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ڈرائی پورٹ کو چین کے ایک کمپنی نے اس شرط پر تعمیر کیا ہے کہ ڈرائی پورٹ کی آمدنی کا 60 فیصد حصہ چینی کمپنی جبکہ 40 فیصد سوست ڈرائی پورٹ ترسٹ کو ملے گا اور یہ معاہدہ 10 سالوں کیلئے تھا ۔اب جبکہ 10سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس پورٹ کی آمدنی کا کوئی آڈٹ بھی چینی کمپنی کی طرف سے کرنے نہیں دیا جا رہا ہے اور کمپنی کے چینی ذمہ داران پاکستان قوانین کو مانے کیلئے تیار نہیں ہیں لہذا نہ صرف چینی کمپنی کے حکام سے اس ڈرائی پورٹ کی آمدنی کا آڈٹ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ چینی کمپنی کو یا تو ڈروائی پورٹ سے بے دخل کیا جائے یا نیا معاہدہ کیا جائے ۔

اس کے بعد وفاقی وزیر میر پلیس کریم آباد ہنزہ پہنچے جہاں پر میر آف ہنزہ میر غضنفر علی خان سابق چیف ایگزیکٹیو گلگت بلتستان نے وفاقی وزیر کو علاقے کے بنیادی مسائل سے آگاہ کیا انہو ں نے کہا کہ 1974 ء میں بھٹو کی حکومت نے ہنزہ میں راجگی نظام کو اس وعدے کے ساتھ ختم کیا تھا کہ ہنزہ کو ایک مثالی (ماڈل)ضلع بنائینگے اور اس شرط پر عملدرآمد کرتے ہوئے فوری طور پر ہنزہ کو ایڈیشنل ضلع کا درجہ دیدیا گیا تھا مگر بعد میں مختلف وجوہات کی بناء پر ایڈیشنل ضلع کا درجہ ختم کیا گیا ۔لہذا ہنزہ کے عوام کی طرف سے مطالبہ ہے کہ ہنزہ کو الگ ضلع کا درجہ دیا جائے میر غضنفر نے کہا کہ ہنزہ میں بجلی کی شدید قلت ہے جسے ختم کرنے کیلئے عطاء آباد جھیل پر ہائیڈرل پاور اسٹیشن بنایا جاسکتا ہے جس سے 20 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس کیلئے چینی کمپنیاں دلچسپی لے رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہنزہ نگر کی آبادی تقریبا برابر ہے نگر میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے لئے 2نشستیں جبکہ ہنزہ کیلئے ایک نشست ہے پچھلے کئی سالوں سے حکومت ہنزہ کیلئے ایک سیٹ بڑھانے کا وعدہ تو کرتی آرہی ہے مگر وعدہ پورا نہیں ہو رہا ہے لہذا ہنزہ کیلئے قانون ساز اسمبلی میں ایک نشست کا اضافہ کیا جائے تا کہ رقبے کے لحاظ سے اس بڑے سب ڈویثرن کے مسائل حل ہو سکیں ۔میر غضنفر علی خان نے کہا کہ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور سرکاری ملازمت ہے زراعت کیلئے زمینیں ختم ہو چکی ہیں جبکہ سرکاری ملازمتیں بھی اتنی نہیں کہ پڑھے لکھے تمام نوجوانوں کو روزگار دیا جا سکے ۔علاقے سے بے روزگاری کے خاتمے میں سیاحت کا شعبہ اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن بد قسمتی سے 9/11 کے بعدا اس خطے میں سیاحت ختم ہو چکی ہے امریکہ اور یورپ کے سیاح ان علاقوں کی طرف آنے سے کتراتے ہیں لہذا حکومت پاکستان کو چاہئے کہ اندرون چین سے خنجراب ٹاپ تک آنے والے سیاحوں کو گلگت بلتستان یا کم از کم ہنزہ نگر تک آنے کی اجازت دی جائے تا کہ یہاں کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو سکیں ۔اس موقع پر رانی عتیقہ غضنفر اور پاکستان مسلم لیگ ن ہنزہ کے صدر جان عالم نے علاقے کے مختلف مسائل سے وفاقی وزیر کو آگاہ کیا اس موقع پر وفاقی وزیر نے اکابرین ہنزہ سے خطاب کرتے ہوئے یقین دلایا کہ ہنزہ کو الگ ضلع بنانے قانون ساز اسمبلی کیلئے اضافی نشست دینے اور بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے وہ بھر پور کردار ادا کرینگے اس کے بعد وفاقی وزیر گلگت پہنچے جہاں پر مسلم لیگ ن کے عہدیداروں سے ملے اور ان کے مسائل سنے وفاقی وزیر تجارت نے اپنے دورہ گلگت بلتستان کے دوران چیمبر آف کامرس سوست ڈرائی پورٹ اور مسلم لیگ ن کے عہدیداروں کے علاوہ عمائدین ہنزہ اور مختلف وفودسے ملاقات کے دوران چائناٹریڈ ،سوست ڈرائی پورٹ اور علاقہ کے دیگر مسائل کے حوالے سے گفت و شنید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی دلی خواہش ہے کہ مختلف شعبوں خصوصاً تجارت سے وابستہ لوگوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے اور جتنا ممکن ہو سکے تجارت سے وابستہ افراد کو مراعات دئیے جائیں ۔انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ تجارت بذریعہ خنجراب ہو رہی ہے برابری کی بنیاد پر ہو گی نہ کہ یکطرفہ اور سوست ڈرائی پورٹ کا مسئلہ بھی حل کیا جائے گا اور اس حوالے سے اعلیٰ حکام سے بات کی جائیگی ،ان کی یہ کوششیں ہو گی کہ سوست ڈرائی پورٹ کی آمدنی کا بڑا حصہ گلگت بلتستان کو دیا جائے تا کہ یہاں کے لوگوں کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو سکیں ۔سرحدی تجارت میں اضافے کیلئے اقدامات کئے جائینگے اور چینی امیگریشن کی طرف سے جو مسئلے سامنے آرہے ہیں اعلیٰ چینی حکام سے بات کر کے انہیں ختم کرنے کیلئے کوششیں کی جائیگی ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت چین پاکستان میں 45 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے جس سے ملکی معیشت مضبوط ہو گی اور ملک سے بے روزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گی انہوں نے کہا کہ چین سے گوادر تک اقتصادی راہداری بن رہا ہے جس سے پاکستان اور گلگت بلتستان میں اقتصادی انقلاب آئیگا مگر شرط یہ ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہو اور دہشتگردی ختم ہو ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ گلگت بلتستان کا وکیل بن کر یہاں کے مسائل سے حکومت پاکستان کو آگاہ کرئینگے یاد رہے کہ کسی بھی وفاقی وزیر تجارت کا گلگت بلتستان کا یہ پہلا تفصیلی دورہ ہے جس کے مثبت نتائج ہونگے ۔
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button