کالمز

قاتل آزاد اور مقتول…؟

از۔ ڈاکٹر محمد زمان خان
از۔ ڈاکٹر محمد زمان خان

کہتے ہیں ایک طوطا اور طوطی کسی گاوں کے اوپر سے گزر رہے تھے گاوں کی حالت دیکھ کر طوطی نے طوطے سے کہایہ کیسا ویران گاوں ہے طوطا بولا اس گاوں کو اُجاڑنے میں اُلو کا ہاتھ ہے عین اُسی وقت اُلو وہاں سے گزر رہا تھا اُنکی باتیں سُن کر اُلو نے اس دونوں کو اپنے ہاں مہمان بننے کی خواہش ظاہر کی وہ دونوں راضی ہوگئے اُلو نے رات بھر اپنے مہمانوں کی کافیخاطر داری کی یوں صبح مہان میزبان کا شکریہ ادا کرکے خوشی خوشی رخصت ہونے لگے تو میزبان نے طوطی کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ اب یہ میری بیوی ہے تم چاہو تو اکیلئے جاسکتے ہو ورنہ مزاحمت کرنے کی صورت میں بیوی کے ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھوسکتے ہیں۔طوطے نے احتجاج کرتے ہوئے کہا طوطی تمہاری بیوی کیسے ہوسکتی ہے مگر احتجاج بے سود رہا یوں فیصلہ ہوا کہ کیس عدالت میں لے جایا جائے۔عدالت نے طویل دلائل سُننے کے بعد فیصلہ اُلو کے حق میں دیا اور طوطی اُلو کے حوالے کی گئی بچاری نہیں چاہتے ہوئے بھی عدالتی فیصلے کے سبب اُلو کے ساتھ جانے کو تیار ہوگئی دوسری طرف طوطا چیختا چلاتا رہا لیکن کسی نے نہ سُنی جب طوطا روتے ہوئے گھر جانے لگے تو اُلو آوازدیکر کہنے لگے اکیلئے جارہے ہو طوطی کو بھی ساتھ لے جاوطوطا بولا کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہو کیوں میرا مذاق اُڑاتے ہو۔اُلو بولا میں صحیح کہہ رہا ہوں طوطی میری نہیں تمہاری بیوی ہے یہ سب کچھ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کیا تھا کہ اس گاوں کو اُجاڑنے میں میرا ہاتھ نہیں بلکہ اس ویرانے کی ذمہ داری ناانصافی ہے آپ اپنی بیوی کو لے جاسکتے ہیں۔

جب عطا آباد کے مقام پر پہاڑ کا دریا میں گرنے سے پانی کا بہار رُک گیاہستی بستی بستیاں اُجڑ گئیں خوبصور گاوں اور حسین وادیاں پانی میں ڈوب گئے لوگوں کی جمع پونچی پانی کا نذر ہوگیا لوگ تاجر سے مہاجر ہوگئے اُس دوران بھی میں نے ایک کالم لکھا تھااُس کالم میں عطا کے اُس بہن بھائیوں کے نام کچھ اشعار بھی لکھے تھے عطا آباد متاثرین کی مدد کیلئے میری گزارش پر میرے دوست ڈاکٹر انجم مشیر نواز شریف برائے گلگت بلتستان نے نواز شریف سے عطا آباد متاثرین کی امداد کرنے کی گزارش کی جس پر میاں نواز شریف صاحب نے عطا آباد کو دورہ کیااور انکو ایک اچھا بحالی پیکج پنجاب حکومت کی طرف سے دیا جس کیلئے ہم ممنون مشکور ہیں۔میاں نواز شریف جیسے قومی لیڈر کی دورے سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے متاثرین عطا آباد کی قومی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سب نے تعاون کی کمی بیشی ہوا تو متاثرین نے احتجاج بھی کیا جو انکا معاشرتی حق ہے۔اسی دوران جب وزیر اعلیٰ نے علاقے کا دورہ کیا تو عوام نے انکے خلاف شدید احتجاج کیاجس کو روکنے کیلئے پولیس نے بھر پور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈی ایس پی بابر کی قیادت میں نہتے عوام پر ہلہ بول دیاجس کے سبب دو افراد جان بحق ہوگئے۔یوں اس ریاستی جبر کے خلاف مزید مشتعل ہوگئے اور کچھ سرکاری بلڈنگ کو آگ لگا دی جس کے سبب پولیس کا جبر مزید بڑھ گیا اور مظاہرین اور متاثرین کے خلاف دہشت گردی کا کیس رجسٹرڈ کیا گیا حلانکہ دہشت گردی پولیس کی طرف سے ہوئی تھی لیکن پولیس نے اپنی مرضی کا چالان عدالت میں داخل کرکے مقتولین کے وارثوں اور کچھ مقامی لیڈران کو دو دو مرتبہ عمر قیداور جرمانے کی سزا دلوائی۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجرموں نے منصف بن کر حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والوں کو پس زندان ڈال دیا گیا۔میں اس حوالے سے مقامی عدالتوں پر کسی قسم کا تنقید کرنا نہیں چاہتا کیونکہ عدالت نے پولیس ایف آئی آر اور سرکاری شہادتوں کی بنیاد پرمقتولین کو سزا دی یعنی عدالت نے ریکارڈ پر فیصلہ کرنا تھا کر دیا لیکن سرکاری عمارتیں جلانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل گلگت دیامر استور اور کئی جگہوں پر سرکاری املاک جلایا گیا مگر کسی کو بھی اسطرح کی سزا نہیں ہوئی پھر ان سزاوں پر مقامی حکومت کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔عجیب تماشا لگا ہوا ہے عمارتی نقصان پر قید اور انسانوں کے قاتلوں کو تمغے اور اعزازات تو کبھی جیل سے فرار قانون کے ساتھ اسطرح کا مذاق مستقبل میں عوام کو مزید بغاوت کی طرف دھکیلنے کا موجب بن سکتا ہے۔پاکستان کی تاریخ اُٹھا کر دیکھی جائے توایسے بے شمار واقعات ہیں جسے ریاست جبر ی دبانے کی کوشش میں آج ملک کیلئے مسلہ بنا ہوا ہے۔لہذا حکومت سے التماس ہے کہ عطا آبادکے متاثرین کیلئے آواز بلند کرنے والوں کااتنا بڑا جرم نہیں تھا کہ انکی زندگی جیل میں گزارنے کی سزا دیں خدارا دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سیاسی کنسر کو ختم کیا جائے تاکہ مستقبل میں یہ چنگاریاں آگ میں نہ بدل جائے۔میری گلگت بلتستان کے عدالتوں سے بھی گزارش ہے کہ ان اسیران پر رحم کریں اور اُن کے دلوں میں اُٹھنے والے لواے کو ٹھندا کرنے کی کوشش کریں۔اللہ ہم سب کا حامی اور ناصر ہے.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button