کالمز

سانحہ پشاور، ایک امتحان

سانحہِ پشاور در اصل ایک طرف درندوں کے مکروہ چہرے عیاں کر رہا ہے تو دوسری طرف غفلت میں سوئے ہوئے بے حس عوام، حکومت اور اداروں کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ جب ہر جگہ لاشیں، بم دھماکے، عزتوں کے جنازے نکلتے دیکھ دیکھ کر بھی کسی کو ہوش نہیں آیا تو اب ہر گھر میں لاشیں بھیج کر انکو احساس دلایا جا رہا ہے کہ آخر کب تک تماشائی بنے رہوگے!!! اعتزاز حسن نے اس سال کے شروع میں ایسے ہی درندوں کے حملے کو اپنی جوانی کی قربانی دیکر ناکام بنا دیا تھا، لیکن فضلہ خور میڈیا نے اسے خاطر میں نہیں لایا، نہ دنیا میں اسکی پبلسٹی کی گئی، دشمن ملک ہندوستان ٹائم نے اسکو جتنی کوریج دی پاکستانی ھیرو قرار دیکر پاکستانی بڑے اشتہار فروشوں سے اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی تھی۔

از : شریف ولی کھرمنگی
از : شریف ولی کھرمنگی

مبینہ طور پر ایک گولی لگ کر جب ملالہ نامی لڑکی زخمی ہوگئی تو اسے اتنا اچھالا گیا کہ جیسے یہ سارے انسانیت کے علمبردار ہوں اور عالمی ایوارڈز کی بارش کی گئی ، اب ایک ملالہ کو سر پر اٹھانے والو، ذرا اعتزاز حسن بنگش کو یاد کرو جس نے اپنی جان دیکر کتنی جانیں محفوظ کیا تھا، آج جب ان درندوں کا سامنا اسکول کے گیٹ پر اعتزاز سے نہیں ہوا تبھی ڈیڑھ سو نونہال معصوم بچے شہید اور دو سو زخمی ہوئے ناں، جس کی قدر ہونی چاھئے تھی اسکی کوئی قدر نہیں ہوتی اس قوم میں اور جس پر شرم آنی چاھئے اس پر فخر کب تک کرتے رہوگے؟ مختاراں مائی کی پبلسٹی اور ملالہ کا ڈرامہ رچا کر ڈالر کمانیوالے ، اب اس سانحے پر بھی یقینا باپو امریکا سے اچھی خیرات لینے کیلئے مائینڈ بنا رہے ہونگے۔

انسانیت میں ایسا صرف یہاں ہمارے ملک میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی اور اسکے مجرموں کو سزا دینے کی بجائے اس خاتون کو دنیا بھر میں اتنا کوریج دیا گیا کہ اپنی مادری زبان بھی صحیح سے نہ بول پانیوالی اقوام متحدہ میں جاکر اعلان کر رہی ہے کہ میرے ساتھ اتنی نا انصافی ہوئی؟ یہ کیا ہے در اصل؟ کیا اس سے اس خاتون کو انصاف ملا؟ یقینا نہیں۔ لیکن اس وقت کے حکمرانوں کو ڈالرز ضرور ملے۔

اب کا یہ انسان سوز سانحہ ان ملاوٗن کے منہ پر طمانچہ ہے جو قتال فی سبیل اللہ کے نام پر عوام کو ورغلاتے آئے ہیں، ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو سیاست میں بھی اپنی اسی ذھنیت کیساتھ شامل ہیں، بعض نے تو باقاعدہ میڈیا پر بھی کئی بار بہ بانگ دھل اعلان کیا تھا کہ یہ طالبان انکے بچے ہیں، کیا انکو اپنے مادر پدرد آزاد بچوں کی حرکتوں پر شرم نہیں آتئ؟ انہیں ڈوب کے مرنہیں جانا چاھئے؟ یہ کونسا اسلام ہے؟ یہ کونسی شریعت ہے؟ان کو نہیں پتہ کہ ہمارے جیسے بیرون ملک تعلیم کیلئے جانیوالوں کو غیر مسلم طلبا کے سامنے کیا کیا سامنا نہیں کرنا پڑتا، صرف انہی دھشت گرد، جاہل کٹ ملاوں اور انکے پالے ہوئے ذلیل درندوں کی انسان سوز حرکات کی وجہ سے؟ اول تو پاکستانی کہلاتے ہوئے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ اگلا سوال یقینا یہی ہوگا کہ ہمارے ملک میں آئے روز ایسا ویسا کیوں ہوتا رہتا ہے، اور پھر مسلمان کہلاتے ہوئے ان کو ہر بات کی تفصیلات بتانا کہ جی مسلماں یہ ہیں اور وہ ویسے ہیں، ہم ایسے ہیں۔یقین کیجئے کمیونسٹ چینی جو کہ دراصل پاکستان کا دوست سمجھا جاتا ہے، ان میں بھی 80 فیصد اب مسلمان اور پاکستان کا نام سن کر فورا طالبان اور القاعدہ سے تعلق جوڑنے لگ جاتا ہے۔ ایسے میں اچھے لگتے ہیں وہ طلبائ جو نہ خود کو پاکستانی ظاہر کرتے ہیں اور نہ مسلمان، بلکہ اپنی نماز اور واجبات سے لیکر کھانا تک غیر مسلموں کے ساتھ ملکر کھاتے ہیں، صرف اسی وجہ سے کہ کہیں یہ لوگ ہمیں بھی دھشت گرد سمجھ کر ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دے۔

یہ ان حکمرانوں کیلئے بھی بہت بڑا امتحان ہے جو کہیں کسی سے ڈیل کہیں کسی سے ڈالرز کی بھیک مانگتے مانگتے خفیہ اداروں کے ذریعے مال بٹورتے بٹورتے حکمرانی کی شہوت میں غرق ہیں، اب ان نونہالوں کی اجتماعی قربانی پر یہ کیا ایکشن لیتے ہیں؟یا پھر کچھ ملین ڈالرز کے صدقے میں سانحے پر بیانات دیکر آنکھیں بند کرلیتے ہیں؟ نہ صرف مرکزی حکمران جماعت بلکہ صوبائی حکومت بھی اپنے اختیارات میں وسعت رکھتے ہیں۔ عمران خان صاحب اگر اپنے بیانات میں نیا خیبر پختونخواہ بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں تو یقینا کسی اختیار کیساتھ کچھ کرکے ایسا کہہ رہے ہونگے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس المناک سانحے پر یہ سیاست کرتا ہے یا کچھ عملی اقدام بھی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تین روزہ سوگ کے اعلان پر ہی اکتفا کیا جائے۔ جیسا کہ گزشتہ حکمران بھی ایسا کرتا آیاہے۔

چونکہ آرمی پبلک سکول پر اس حملے نے دنیا بھر میں پاکستانی آرمی کو ہی عیاں کردیا ہے، عسکری ادارے خاص طور پر آئی ایس آئی اور دیگر اداروں کی کارکردگی کا جنازہ نکلنے کے مترادف ہے انہیں اس ناکامی پر اپنی اعتراف جرم کرنے کےساتھ ان علاقوں میں موجود غفلت کی نیند میں سوئے اہلکاروں کی نشاندہی کرکے عبرتناک سزا دینی چاھئے، یہ پریس کانفرنس اور مجرموں سے بدلہ لینے کے بیانات دیکر سیاسی افراد سے بھی دو ہاتھ آگے نکلنے کی کوشش بہت بار کر چکے ہیں۔ جو کہ انکی بے غیرتی کی علامت ہے۔

اگر کسی سیاسی جلسے پر، کسی دینی ادارے پر، یا کہیں اور ایسا ہوتا تو اسے سیاسی چمچے، سیکورٹی ادارے ، اور قانون کے رکھوالے مختلف نام دیکر پردہ ڈالتے تھے ، لیکن اب ان سینکڑوں معصوم اسکول کے بچوں میں تو کوئی ایسی بات نہیں رہی جو یہ کسی ایسے ویسے بیانات میں ٹرخا دیں۔ صرف آرمی چیف اور سیاسی بڑوں کا پشاور میں جمع ہونا کافی نہیں، اگر واقعی ملک و قوم سے مخلص ہیں اور ان شہدا سے ہمدردی ہے تو انہیں چاھئے کہ جہنم واصل ہونیوالوں کی شناخت کرکے انکے ساتھی درندوں کو سر عام پھانسی پر چڑھا دیا جائے۔ سوشل میڈیا اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر تقریبا ہر خاص و عام کا ڈیمانڈ یہی ہے، اور یہی اصل راہ حل ہے۔ ورنہ لکھے ہوئے قوانین کہاں نہیں ہوتے، بر وقت اور فوری عمل سے ہی اس قسم کی درندگی کا تدارک ممکن ہے۔

اور اجتماعی طور پر جیسا کہ پہلے بھی عرض ہوا ، ہم احساس، قدر ، انسانیت، مسلمانیت، جیسے اصطلاحات سے آھستہ آھستہ عملی طور پر دور ہوتے جارہے ہیں۔ قرآن مجید قصہ ہائے انبیاؑ سے لوگوں کو سمجھانے کیلئے اسباق فراہم کرتے رہے، اور آج کا انسان اپنے روز مرہ زندگی میں روز انسان سوز سانحات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ان سے کچھ نہیں سمجھتے، لہٰذا ایسے میں شاید اسطرح کے سانحات یقینا ہمیں جنجھوڑنے کیلئے ہیں کہ شاید اپنے ہی گھر میں اپنے ہی عزیز کی قربانی دیکھ کر کچھ تو احساس جاگ جائے، کچھ تو غیرت آجائے، کچھ تو انسانیت کا سبق یاد آئے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button