کالمز

ایٹمی پاکستان ، طالبان اور افغانستان

شرافت علی میر 

کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا ہے. یہ الفاظ ہمارے حکمران اور ہمارے عسکری زرائع ہمیشہ کہتے ہیں  اور  حقیت یہ  ہے کہ میلی آنکھ کے ساتھ میلے  ہاتھوں سے ہمارے ملک میں اب تک ساٹھ ہزار سے زائد بے گناہ اور معصوم لوگ شہید ہوگۓ ہیں۔

پاکستان  دنیا کا آٹھواں  اور اسلامی ممالک میں  پہلی ایٹمی قوت ہے ،جس کے پاس جدید میزائل، جدید طیارے ہیں. اسلحہ کی دوڑ میں سب سے آگے آگے ہے اور دنیا کی چھٹی بڑی فوج رکھتا ہے ۔ لفظوں کے کھیل میں بھی ہم سب سے آگے ہیں۔

اب تک ہماری انٹیلی جینس ایجنسوں کی رپورٹ  کے مطابق اب تک ہمارے ملک میں جتنے بھی دھشت گردی کے واقعات ہوۓ ہیں ان سب کی ذمہ داری طالبان نے قبول کیا ہے بلکہ کچھ لوگ ان کے پکڑے بھی گۓ ہے. ہمارے انٹلی جینس ایجنسی یہ بات واضع کرچکی ہے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوا ہے اور افغانستان سے ہی ہمارے ملک میں مداخلت ہورہی ہے ۔

دو چار مولیوں نے ایک ایٹمی قوت کوصرف پرشان نہیں کیا ہوا، بلکہ یرغمال بنا کے رکھا ہے ۔ کہاں ہے ہمارا ایٹم بم کہاں ہے ہمارے میزائل کہاں ہیں؟ ہماری انٹلی جینس ایجنساں بھاگنے کی اطلاع تو دیتے ہے لیکن ان کے منصوبہ بندی اور حملوں سے بے خبر ہوتے ہے ۔کہاں ہیں ہمارے کمانڈوز جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی بہادری پوری دنیا میں  مشہور ہے؟

افغانستان جو پاکستان سے مدد لیتا ہے تربیت بھی پاکستان ان کو دیتا ہے اور ان کے درآمدات اور برآمدات سارے ہمارے ملک سے ہوتا ہے۔ مشکل وقت میں پاکستان نے افغانیوں کو پناہ دیا تھا اور تو اورجن کی اپنی ملک میں حکومت کی بالا دستی نہیں ہے وہ ملک آج ہمیں للکارتا ہے. ہمارے ملک میں مداخلت کرتا ہے. ہمارے سکول، مساجد ، امام بارگاہ، افواج پاکستان کے اداروں اور ایرپورٹ  پہ حملہ کرتا ہے اور ہم ایسے وقت میں ان سے مدد مانگتے ہے کہ ملا فضل اللہ آپ کے ملک میں ہے مہربانی کرکے ان کو ہمارے حوالے کرو یا پھر ان کو ایسے کاروائی سے روکو۔

 ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغانستان کے سفیرکو دفتر خارجہ طلب کرتے اور ان کو وارننگ دیتے کہ بس اب بہت ہوگیا  اگر آٹھ گھنٹے میں ملا فضل اللہ اور ان کے ساتھوں کو ہمارے حوالے نہیں کرتے تو ہم آپ کے  ملک پہ میزائل سے حملہ کرینگے۔  آپ کے امپورٹ ایکسپورٹ کو روکیں گے ۔لیکن ایسا نہیں ہوا ان کو بلانے کی بجاۓ ہمارے آرمی چیف نے خود افغانستان کا دورہ کیا اور پھر ایک بار فضل اللہ کی حوالہ گی کا مطالبہ کیا۔

پتہ نہیں کس دن ہمارے ایٹم بم ، ہمارے میزائل ، ہمارے جے ایف تھنڈر ، ایف 16اور ہمارے جدید اسلحہ اس ملک کا کام آۓ گا۔جن پہ پاکستان کی بجٹ کا ذیادہ حصہ خرچ ہوتا ہے.

اگر یہ پیسہ اب تک ہمارے تعلیم اور صحت پہ خرچ ہوتا تو اس ملک سے جہالت اور غربت کا خاتمہ ہوچکا ہوتا ۔جب یہ ہتھیار ہماری حفاظت نہیں کرتے ہے تو ان کو کسی اور ملک کو بھیجنا چاہیے ۔

کیا ہم نے ایٹم بم اور میزائل اور یہ جدید سے جدید تر اسلحہ شو کیس میں رکھنے کے لیے بنایا ہے ۔

ایران نے عبدل رحمن ریکی کو جو  ایک پاکستانی شہری تھا اورافغانستان سے قزاقستان جارہا تھا اپنے ایر فورس کے زریغے اس جہاز کو اپنے ملک میں اتارا اور اپنے ملک کو مطلوب شخص ریکی کو جہاز سے اتارا اور ٹھیک تین مہینے کے اندر اس کو پھانسی دے دیا گیا۔

ہمارے ملک میں حکومت میں بھی طالبان کے حامی ہیں، ،فوج اور انٹلی جینس ایجنساں میں بھی طالبان کے حامی ہیں، میڈیا میں بھی طالبان کے نمائندے موجود ہیں اور ہمارے ملا تو ان پہ کچھ ذیادہ ہی مہربان ہیں ۔

آج پتہ چلا کہ ہم خواہ مخواہ اسرائیل، امریکہ اور انڈیا کو للکارتے ہیں کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہے ہمارے پاس یہ ہے تو وہ ہے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک لولے لنگڈے افغانستان کے سامنے فریاد کرتے ہیں. ہر سانحے اور حادثہ کے بعد  وہی روایتی الفاظ دہراتے ہیں ۔اور پھر ہمارے قول و فعل میں بھی تضاد ہے. ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں. اور ہمیشہ کی طرح پھر ایک کمیٹی بنا کے معاملے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

کیونکہ ہمارے حکمرانوں کے بچے تو ملک سے باہر ہے اور ہمارے ملک میں جو بھی مرے گا اس پہ صرف افسوس اور مذمت کرنا ہے.  اپنی سیاست چمکانا ہے اور پھر ایک کمیٹی تشکیل دے کر معاملہ کو ختم کرنا ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button