گلگت بلتستان

عوامی ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ

IMG_7603

گلگت (پریس ریلیز) گلگت بلتستان کی مختلف سیاسی،مذہبی پارٹیوں،طلباء،نوجوانوں،وکلاء،محنت کشوں اور سماجی تنظیموں کا یہ نمائندہ کانفرنس اس بات پر شدید غم وغصہ کا برملا اظہار کر تا ہے کہ پاکستان کی مختلف حکومتوں نے گلگت بلتستان کے عوام کو گزشتہ 67 سالوں سے براہ راست اپنی انتظامی کنٹرول میں رکھنے کے باوجود اس طویل عرصے میں اس خطے کے عوام کو ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کی سطح پر لانے اور رہتیں زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میںبری طرح ناکام ہوگئیں ہیں یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام آج اکیسویں صدی میں بھی عملاً پتھر کے ابتدائی دور میں رہنے پر مجبور ہیں ۔معاشی،سماجی پسماندگی اور اندھیرے ان کی مقدر بنا دیا گیا ہی۔

پی پی پی کی گزشتہ حکومت نے گلگت بلتستان کے عوام کو اندرونی خود مختاری کے نام پر ایک سلف گورننس اینڈ ایپاورمنٹ آرڈر 2009 کے نام سے تیار کرکے اس پر عوامی رائے لئے بغیر یہاں کے عوام پر مسلط کر دیا اور اس نئے انتظام کے تحت ایک لولی لنگڑی اسمبلی قائم کردی گئی اور اس کے اوپر جی بی کونسل قائم کی گئی۔اس نئے سیٹ اپ کے تحت پی پی سرکار نے گلگت بلتستان میں بھی دھونس دھاندلی کے ذریعے اپنی حکومت قائم کرلی ۔مگر گزشتہ پانچ سالوں کے تلخ تجربات نے عیاں کر دیا ہے کہ یہ سیٹ اپ بھی اندر سے کھوکھلا اور بے جان ہے اس مضحکہ خیز سیٹ میں مقامی حکومت اس حد تک بے بس ہے کہ پورے پانچ سالوں میں وزیر اعلی کو معمولی نوعیت مالیاتی و انتظامی اور پالیسی امور میں منظوری لینے کیلئے اسلام آباد میں حکمرانون اور وزارت امور کشمیر کے آگے جھکنا پڑتا ہے البتہ اس نظام میں مہدی شاہ سرکار اس وزراء مشیروں ،ارکان اسمبلی و کونسل اور ان کی ماتحت آفسر شاہی کو عوامی و سائل کی لوٹ مار،کرپشن اور قاعدہ قانون کی خلاف ورزی کی کھلی چھوٹ حاصل ہی۔اس کھوکھلے اور عوام دشمن نظام کے تحت بدعنوانی،کرپشن،لوٹ مار اور قومی وسائل دولت کی بندربانٹ کو تحفظ حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مہدی شاہ اور اس کے کابینہ ارکان اور اس کے ماتحت بیورکریسی نے کرپشن کی پچھلی تمام ریکارڈ توڈ دیا مگر ان کے خلاف احتساب کا کوئی باقاعدہ نظام موجود ہی نہیں دوسری طرف خطہ کے عوام آج بھی اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔بے روزگاری اپنی انتہا پر پے تعلیم عام آدمی کی پہنچ سے باہر کر دیا گیا ہے صحت کی سہولتیں باپید ہیں گلگت بلتستان کے عوام کی مشترکہ دولت یہاں کی معدنیات کو مہدی شاہ سرکار نے کمیشن لیکر مختلف بااثر افراد کے نام پر لیز کی شکل میں حوالہ کرکے مقامی 99 فیصد غریب عوام اور نئی نسل کو ان کی مشترکہ وسائل دولت سے محروم کر دیا گیا ہے ۔گلگت بلتستان کونسل جوکہ دوحقیقت وزارت امور کشمیر کا نیا میک اپ شدہ چہرہ ہے کہ ذریعے گلگت بلتستان میں غیر آئینی و غیر قانونی ٹیکسوں کی بھر مار کر دیا گیا ہی۔مگر ان ٹیکسوں کی آمدنی کتنی ہے اور یہ کہاں چلا جاتا ہے اس بابت یہ نظام خاموش ہے سالانہ مختلف براہ راست اور بلواسطہ ٹیکسوں کی مد میں پاکستان کی حکومتیں گلگت بلتستان سے کم از کم 60 ارب روپے سالانہ وصول کر تی ہیں مگر پھر بھی کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کی معیشت پر بوجھ ہی۔

اس پس منظر میں گلگت بلتستان کی مختلف سیاسی،مذہبی جماعتوں،طلباء نوجوانوں،وکلاء محنت کشوں اور دیگر سماجی تنظیموں کا یہ نمائندہ کانفرنس مطالبہ کر تاہے کہ:

۱۔ گلگت بلتستان میں اسلام آباد سے براہ راست مسلط کردہ مضحکہ خیز پیکیج پر مبنی اس کھوکھلے نظام کی جگہ عوام کے منتخب نمائندوں کی تیار کردہ ایک عبوری دستور کی بنیاد پر ایک بااختیار اور اندورونی معاملات میں خودمختار اسمبلی کیلئے انتخابات کرائے جائیں۔ اسمبلی کی موجودہ نشتوں کو دوگنا کیا جائے ۔تمام مالیاتی ،اقتصادی ،انتظامی امور اور اندورونی وسائل سے متعلق قانون سازی کا کلی اختیار منتخب اسمبلی کو دیئے جائیں جی بی کونسل جوکہ منتخب اسمبلی اور یہاں کے عوام کی مینڈیٹ کی توہین ہے لہذا اسے فوری طور پر ختم کیا جائی۔

۲۔ یہ کانفرنس مطالبہ کر تاہے کہ نئی اسمبلی کے الیکشن سے قبل سابقہ مہدی شاہ حکومت کی پانچ سالہ بدعنوانیوں اوراس میں ملوث سابق وزیر اعلی ،گورنر،وزراء ،ارکان اسمبلی اور مختلف محکموں کے اعلی آفیسران کا کڑا احتساب کرکے لوٹی ہوئی تمام دولت وصول کیا جائے اور ایک موثر اور خودمختار ادارے کے ذریعے تمام کرپٹ عناصر کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں۔

۳۔ پورے گلگت بلتستان میں بجلی کی ناقص نظام اور خاص کر گلگت سٹی میں بجلی کی بدترین بحران کی بڑی وجہ سابقہ حکومت کی نا اہلی کے ساتھ محکمہ واٹر اینڈ پاور میں کرپشن ،بدعنوانی کا نتیجہ ہی۔نام نہاد VIPs کے لئے سپیشل لائینوں کے نام پر5 میگاواٹ بجلی مختص کرکے انہیں 24 گھنٹہ دی جارہی ہی۔جبکہ غریب عوام0 گھنٹے اندھیروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یہ سپیشل لائنیں عوام کے ساتھ امتیازی سلوک کی بد ترین مثال ہی۔عوام کی ترقیاتی بجٹ سے پیداہونے والی بجلی نام نہاد VIPsکیلئے مختص کرنا ایک ناقابل نفرت اقدام ہے جو عوام کو ہرگز قبول نہیں۔لہذا یہ کانفرنس مطالبہ کرتا ہے کہ فوری طور پر سپیشل لائنیوں کے اس قابل نفرت نظام کر ختم کرکے بجلی کی مساوی تقسیم کو یقینی بنایا جائی۔اور اس سلسلے میں متعلقہ محکمہ کو ایک ہفتہ کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اس ہفتہ کے اندر اندر تمام سپیشل لائنوں کو ختم کردے بصورت دیگر عوام محکمہ واٹر اینڈ پاور کے دفاتر اور پاور سٹیشنوں کو تالا لگانے کے حق بجانب ہونگے اور اس کے نتیجے میں جو بھی صورت حال پیدا ہوگی اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور انتظامیہ پر ہوگی۔ تمام خراب اور قابل مرمت مشینوں کو دو ہفتوںکے اندر اندر مرمت کرکے فوری طور پر استعمال میں لایا جائیں تاکہ عوام لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نکل سکیں۔نیز بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورے کرنے کیلئے ہنزل چھلمش داس ڈیم سمیت تمام تجویز کردہ منصوبوں پر فوری طور پر کام شروع کیا جائی۔

Y۴۔ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی طور پر حصہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے حکمران یہاں کے عوام پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس لاگو نہیں کر سکتیں ہیں کیونکہ یہ اقدام خود آئین پاکستان کے منافی ہے لہذا یہ کانفرنس مطالبہ کرتا ہے کہ انکم ٹیکس کسٹم ٹیکسز اور غیر آئینی و غیر قانونی طور پر لئے جانے والے تمام ٹیکسوں کو ختم کیاجائی۔اور اب تک یہاں کے عوام سے کسٹم ڈیوٹی،ایکسائز ڈیوٹی،جنرل سیلز ٹیکس اور دیگر بلواسطہ ٹیکسوں سے حاصل کردہ آمدنی گلگت بلتستان Consolidated فنڈز میں جمع کیا جائے اور آئندہ گلگت بلتستان دستور ساز اسمبلی کی منظوری کے بغیر کوئی ٹیکس وصول نہ کیا جائی۔

۵۔ معدنیات اور قدرتی وسائل یہاں کی عوام کی اجتماعی ملکیت ہیں ۔انتہائی قیمتی معدنیات کو حکمرانوں نے کمیشن لے کے مختلف بااثر افراد میں بندر بانٹ کیا ہے اور اس طرح اس خطے کو دوسرا بلوچستان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔مگر یہاں کے عوام اس قومی دولت پر چند افراد کی اجارہ داری اور قبضہ کی اجازت نہیں دے سکتی۔لہذا یہ کانفرنس مطالبہ کرتا ہے کہ مختلف افرادکو جاری کئے گئے تمام Leases کو فلفور منسوخ کیا جائی۔اور آئندہ مقامی آبادی کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی لیز کسی کو بھی نہ دیا جائے ۔مرکزی حکومت اور مقامی حکومت اس خطے میں موجود ان قدرتی وسائل کو چند بااثر افراد کی جھولی میں ڈالنے کے بجائے اس قومی دولت کو یہاںکے غریب عوام کی اجتماعی ترقی اور فائدے کیلئے استعمال میں لانے کیلئے مقامی عوام کو اعتما د میں لے کر منصوبہ بندی کریں۔

3۶۔ حکومت نے من پسند افراد کو جو چور دروازے سے بھرتی ہوئے تھے انہیں ایک کنٹریکٹ ملازمین ریگولیشن ایکٹ کی آڑ میں مستقل کیا ہے مگر سیپ اساتذہ جو گزشتہ5,20 سالوں سے غریب عوام کے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں انہیں بلا کسی جواز کے مستقل نہیں کیا جارہا ہیں اس طرح غیرقانونی طور پر برطرف شدہ لیڈیز ہیلتھ ورکرز جنہیں عدالت عالیہ گلگت بلتستان نے بحال کرنے کا حکم صادر کیا تھا مگر پھر بھی انہیں بحال نہیں کیا گیا ہے لہذا یہ کانفرنس مطالبہ کرتا ہے کہ سیپ اساتذہ کو فوری طور پر مستقل کیا جائے اور برطرف اساتذہ اور لیڈیز ہیلتھ ورکرز کو فلفور بحال کیا جائی۔

۷۔ کرگل سکردو روڈ سمیت تمام تاریخی راستیں کھولیں جائی۔گلگت بلتستان کے علاقوں پر صوبہ KPK کے ناجائز قبضہ کو ختم کرایا جائے ۔چترال اور کوہستان کے ساتھ سرحدی تنازع تاریخی شواہد کی بنیاد پر طے کیا جائی۔

۸۔ گلگت بلتستان میں نام نہاد خالصہ سرکار پالیسی کے تحت عوام کی زمینوں کا بندربانٹ بند کیا جائے جبکہ گلگت بلتستان میںکوئی زمین سرکاری نہیں ہی۔لہذا خالصہ سرکار کی ظالمانہ قانون کو منسوخ کیا جائی۔تمام زمینوں پر مقامی آبادی کا حق تسلیم کیا جائی۔

۹۔ متاثرین دیامر بھاشا ڈیم کے تمام مطالبات تسلیم کرکے ڈیم پر کام شروع کیا جائے نیز متاثرین قراقرم ہائی وے کو سالوں سال گزرنے کے باوجود معاوضے نہیں دیے گئے ہیں یہ کانفرنس مطالبہ کرتا ہے کہ متاثرین KKH کو فلفور معاوضے ادا کئے جائی۔

۰۱۔ مٹی تیل گیس اور دیگر ایشیا پر حاصل سبسڈی بحال نہیں کیا گیا ہے ۔یہ کانفرنس مطالبہ کرتا ہے کہ ان تمام ایشیا پر حاصل سبسڈی بحال کیاجائی۔گزشتہ روز چیف سیکریٹری گلگت بلتستان نے بجلی کے ریٹس میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے جوکہ گلگت بلتستان کے عوام کو کسی بھی صورت قبول نہیں ہے ۔یہاں کی بجلی عوام کی ترقیاتی رقوم سے پیدا ہوتی ہے لہذ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا شوشہ دراصل بجلی بحران کو حل کرنے میں حکومتی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہی۔لہذا یہ کانفرنس حکومت کی یہ ظالمانہ اقدام کو مسترد کرتی ہے اور متنبہ کرتا ہے کہ حکومت عوام کے خون چوسنے کی اس ظالمانہ پالیسی سے باز آجائیں۔

۱۱۔ گلگت بلتستان میں میڈیکل و انجینئر کالج کا قیام فوری عمل میں لایا جائی۔

۲۱۔ وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ گلگت بلتستان کے طلبہ کیلئے ہائیر ایجوکیشن کی مفت تعلیمی سہولت دینے پر من و عن عمل کیا جائے اور قراقرم یونیورسٹی میں ماسٹرز اور ایم فل کے طلبہ سے فیس وصولی کا سلسلہ ختم کیا جائی۔یہ کانفرنس گلگت بلتستان میں حکومتی سطح پر ہر ضلع میں ایک ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائی۔تعلیم کو مفت اور عام کیا جائے ۔گلگت بلتستان کی عدالت عالیہ نے حال ہی میں پبلک سکولز اینڈ کالجز کو سرکاری ادارے قرار دیا ہے اس لئے دوسرے سرکاری سکولوں اور کالجوں کی طرح تمام پبلک سکولز و کالجوں میںبھی تعلیم مفت فراہم کیا جائی۔

۳۱۔ یہ کانفرنس بابا جان،افتخار حسین اور دیگر ساتھیوں کو جعلی مقدمات میں الجھا کر سیاسی انتقام کانشانہ بنانے اور سانحہ ہنزہ کے اصل مجرموں کی پشت پناہی اور محرکات کی پردہ پوشی کی پالیسی کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسیروں کی فوری رہائی اوربے بنیاد مقدمات کوختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہی۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button