کالمز

’’زندگی ‘‘لکھو

میرے قابل احترام کالم نگارو،شاعرو،ادیبو،قلم کاروں آو زندگی لکھتے ہیں۔وہ زندگی جو چڑیا کے گھونسلے میں ہے۔وہ زندگی جو چونٹیوں کے بل میں ہے۔وہ زندگی جو مچھلیوں کے دریا میں ہے وہ زندگی جو پرندوں کی فضاؤں میں ہے وہ زندگی جو درندوں کے جنگل میں ہے۔وہ زندگی جو درختوں کے پتوں میں ہے ۔وہ زندگی جو گلاب کی پنگھڑی میں ہے وہ زندگی جو جھونپڑیوں میں ہے وہ زندگی جو بیکاری کی افسردہ اکھیوں میں ہے وہ زندگی جو بھوک سے بلبلا کے بچے کے نگاہوں میں ہے وہ زندگی جو ماں کی مامتا میں ہے وہ زندگی جو باپ کی شفقت میں ہے وہ زندگی جو گھر انگن کے اندر مسکراہٹوں میں ہے وہ زندگی جو دو محبت کرنے والوں بے چینیوں میں ہے وہ زندگی جو ایمان کی حلاوت اوع عقیدوں کی عظمت میں ہے وہ زندگی جو ہسپتالوں ،کچہریوں اور مسافر کے اڈوں میں انتظار میں کٹ رہی ہے۔وہ زندگی جو امتحان کے ہالوں میں ،ملک کی دور ویران سرحدوں میں،سمندر کے گہرے پانی میں اور بیکران فضاؤں میں ہے۔وہ زندگی جو مسجدوں میں ہے۔آذانوں میں ہے کلاس روم میں ہے۔۔۔یہ لکھو یہ زندگی ہے۔یہ احساس ہے ،یہ تپیش ہے یہ درد ہے۔مگر تم کیا لکھتے ہو۔۔۔تم مایوسی لکھتے ہو،تم سیاست پہ موٹی موٹی باتیں لکھتے ہو۔مستقبل کے اندھیرے لکھتے ہو۔پالیسیوں پر خشک تقریر کرتے ہو۔انسانوں کی غلطیاں لکھتے ہو۔غلطیوں سے بچنے کی تدابیر اور دعا نہیں لکھتے ہو۔’’نفرت ‘‘لکھتے ہو جو اصل میں بددعا ہے’’محبت ‘‘نہیں لکھتے ہو جو اصل میں دعا ہے۔لکھو کہ کسی کے آنسو!کیوں نکلتے ہیں۔کوئی ۔۔۔آہ۔۔۔کیوں بھرتا ہے۔کوئی ’[مسکرانا‘‘کیوں ہے ۔وہ احساس وہ تصور ،وہ لاجک لکھو۔اس حقیقت کو لکھو جو لمحوں میں بٹتی ہے اور انہی لمحوں کے شمارکانام زندگی ہے۔لکھو تو روشنیان لکھو،بچوں کو پھول کہو،عورت کو زندگی کی خوبصورتی کہو۔بوڑھے کو شان وشوکت کہو۔حق کو تریاق لکھو ناحق کو زہر لکھو۔ان خانماں آبادوں کو سمجھاؤ جو دنیا کے خزانوں کے اوپر اژدھا کی طرح بیٹھے ہوتے ہوئے ہیں۔ان سِکوں ٹکوں پہ لکھو جو غریب کی مٹھی میں بند ہیں دکاندار کے ترازو کاناجائز منافع مت لکھو۔ڈاکٹر کے ہاتھ میں جو قلم ہے وہ بھی لکھتا ہے۔تم ایسا کچھ لکھو کہ وہ دونمبر کی دوائی لکھتے ہوئے روک جائے۔سپیلنگ غلط کرے۔

یہ سب لکھو گے تو ان ’’لا برواہان زندگی‘‘کو پتہ چل جائے گا کہ زندگی یوں بھی ہوتی ہے۔چمکتی میز کے اردگرد بیٹھ کر ہزار نخرے سے انواع واقسام کی نعمتوں کو ہاتھ نہ لگانے والے اس کو ناشتہ کہتے ہیں۔قیمتی بیڈ پر موٹی سی فوم ڈال کر اوپر قیمتی بیڈ شیٹ ڈال کر سونے کو ہی سونا نہیں کہتے۔لکھو کہ خالی فر ش پہ چٹائی ڈال کے بغیر تکیہ کے ڈھیر ہونے کو بھی ’’سونا‘‘ کہتے ہیں۔رات موج مستی میں کاٹ کر صبح 11بجے جاگنے کو ہی جاگنا نہیں کہتے۔ان کو بتاؤ کہ رات کو ہزار کروٹ لے سے صبح کی آذان سے پہلے مسجد جانے اور پھر مزدوری پہ جانے کو بھی ’’جاگنا‘‘کہتے ہیں ان کو بتاؤ کہ زندگی کھلی کتاب ہے اس کا ایک ورق یہ بھی ہے۔لکھو ’’نعرے‘‘لکھو،’’شاعری‘‘،لکھو مگر سچ لکھو’’محبوبہ ‘‘کو ’’قاتلہ‘‘کیوں لکھتے ہو’’مسیحا‘‘لکھو۔حکمران کو ظالم کیوں لکھتے ہو اعمال کا نتیجہ لکھو سورج کو آگ برساتا گولہ کیوں لکھتے ہوروشنی کا مینارہ لکھو۔اندھی کو طوفان کیوں لکھتے ہو نسیم کا جھونکا لکھو۔بارش کو بران رحمت لکھو۔دوستو!’’زندگی ‘‘لکھا کرو کہ آنی جانی ہے’’موت‘‘مت لکھا کرو کہ صرف’’جانی‘‘ہے میرے عظیم قلم کارو!پاک سرزمین کی طرح خوبصورت لکھا کرو.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button