کالمز

استحکام پاکستان اورقومی اداروں کا کردار!

ایڈوکیٹ ایم۔ غازی خان آکاش

وطن عزیز پاکستان کا استحکام پوری قوم کو عزیز ہے۔ جہاں استحکام پاکستان کی ذمہ داری پوری قوم پر واجب ہے وہی قومی اداروں کو ذمہ داری سے بھی عہدہ براہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے قومی ادارے اپنے فرائض سے چشم پوشی نہ کریں، ملک و قوم کے بہتر مفاد میں کام کریں اور مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے بہتر، دیرپا منصوبہ بندی کریں اور گراس روٹ لیول پر عوامی اُمنگوں کے مطابق تبدیلیاں لائیں۔ عوام کو در پیش مسائل اور ان کے حل کی طرف اقدامات اُٹھائیں عوام میں موجود محرومیاں، نا انصافیاں ، بے روزگاری ، غربت و مفلسی کے خاتمے کیلئے دوررس نتائج کے حامل منصوبہ بندی کریں۔
معشیت کی مضبوطی کیلئے انڈسٹریز کا جال بچھائیں، معدنیات سے استفادہ کرنے کیلئے جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل کمپنیوں سے معاہدات کریں تاکہ ملکی معشیت میں بہتری آئیں اور زر مبادلہ میں اضافہ ہو سکیں۔

اس بات پر کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں جب تک عوام کی ترقی و خوشحالی پر توجہ نہیں دی جائیگی عوام کی محرومیوں کا ازالہ نہیں کیا جائیگا۔ جب تک عوام اور اداروں کے درمیان خلیج کو دور نہیں کیا جائے گا تب تک ہم بحثیت قوم خوشحال، ترقی یافتہ اور امن پسند اور مثالی قوم ہونے کوشرمندہء تعبیر نہیں کر پائیں گے۔

استحکام پاکستان کی سب سے بڑی ذمہ داری عوام کے منتخب کردہ نمائندے یعنی پارلیمنٹرینز کی ہیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پوری قوم کے منتخب نمائندے اس اختیار کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں کہ وہ پوری قوم و ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے کام کریں۔ محرومیاں دور کریں ، غربت کا خاتمہ کریں، روزگار کے مواقع پیدا کریں، امن و سلامتی کیلئے اقدامات اُٹھائیں۔ ضرورت پڑنے پر قوم و ملک کے مفادات کیلئے آئینی ترامیم کریں، قوانین بنائیں اور ان پر عمل درآمد کرنے کے بھی حقیقی اقدامات کریں ۔قومی اداروں کو مضبوط و مستحکم کریں اور فعال ادارے بنائیں۔ جن اداروں میں تبدیلیاں یا ریفارمز کی ضرورت ہو وہاں پر وقت حاضر اور مستقبل کو مدنظر رکھ کر ریفارمز لائیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کرائیں۔ پارلیمنٹ کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں ہر ضروری اقدام اُٹھائیں اور اس پر غیر جانب داری سے عمل بھی کرائیں۔

پارلیمنٹ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ Judiciary کو مضبوط اور مستحکم بنائیں۔ ایک آزاد اور مستحکم عدلیہ قوم و ملک کے استحکام کیلئے لازم ہے اور جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ عوام کو سستا اور آسان انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ قوانین کو جدید تقاضوں اور مستقبل کے تناظر میں ترتیب دیا جائیں۔ lower judiciary میں ججوں کی تعداد کو بڑھایا جائیں۔ عوام کی طرف سے سول مقدمات کی پیروی کیلئے سرکاری وکلا ء میں اضافہ کیا جائے تاکہ عوام کو انصاف کے حصول میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایسے تمام مقدمات جو Criminal نوعیت کے ہویا غبن (Embazelment)یا بے قاعدگی، غفلت کے مرتکب ہوکسی قسم کی کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی ایسے مقدمات میں سرکاری وکلا پیروی کریں۔ قوانین بناتے وقت عوام کے رسوم ورواج و مزاج حتیٰ کہ دیہاتوں اور گاؤں لیول کے رواج کو مد نظر رکھ کر قوانین بنانے چاہئیں اور غیر ضروری رسم ورواج اور انصانی حقوق سے متصادم اور اسلامی روایات سے متصادم رواجوں کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہیں۔

قوانین کو نافذ کرنے والا ادارہ پولیس کے نظام میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بدلتے ہوئے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوامی خواہشات اور اُمنگوں کو پورا کرنے امن اور سلامتی کو فروغ دینے جیسے ریفارمز کی ضرورت ہیں۔ اس ادارے سے عوام کی جو توقعات وابستہ ہیں انہیں پورا کرنے کا قابل بنایا جائیں۔ پولیس محکمے کو عوام میں مقبولیت اور پذیرائی ملے نہ کہ عوام پولیس سے بیزار ہویا عدم تحفظ کے شکار ہو ں۔ یہ ادارہ عوام کے حقوق کو تحفظ دینے والا ادارہ ہونا چاہئے نہ کہ عوام کو ہی عدم تحفظ اور مزید مشکلات اور الجھنیں پیدا کرنے والا ادارہ بنیں۔ پولیس اور عوام میں خلیج بڑھنے کے بجائے عوام اور پولیس میں کورآرڈینیشن ہونا چاہئیں، پولیس کو پیشہ وارانہ تربیت کے ساتھ اخلاقیات اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ سے بھی آگاہی ہونی چاہئے۔ پولیس کے اختیارات کے حدود و قیود واضح ہونے چاہئے تاکہ پولیس اختیارات کی آڑ میں عام شہریوں کو بے جا اور غیر ضروری ہتکھنڈے آزمانے یا محض پریشان کرنے کے حربے استعمال کرنے سے باز رہیں۔ قانون کے دائرے میں ہی اپنے فرائض انجام دیں تاکہ امن قائم رہے اور پولیس گردی سے امن میں خلل نہ ہو۔ بے گناہ لوگ پولیس گردی کی وجہ سے جرائم پیشہ نہ بنیں اور جرائم کی روک تھام میں مثبت قانونی طریقہ اپنائیںتو احسان ہوگا۔

اس طرح ایڈمنیسٹریشن کے ااندر Land revenueاسٹاف کو بھی صراط مستقیم پر لانے کی ضرورت ہے اور ان کی کارکردگی سے بھی عوام میں مایوسی پائی جاتی ہے اور عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ ایک اراضی کے کئی نقول ایک ہی نمبر پر ایشو کرکے عوام کو آپس میں لڑوانے کا سبب بنتے ہیں اور عوام کبھی کبھار اراضیات کے جھگڑوں میں قتل و غارت گری پر اُترتے ہیں جس سے نقص امن کا خطرہ پیدا ہونے کا اندیشہ یقینی ہے جسکی بنیادی وجہ پیدا کرنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا جو لاقانونیت کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔

اس طر ح دیگر عوامی اداروں کے اند ر بھی ضروری ریفارمز کی اشد ضرورت ہے عوامی مسائل کی حل میں رکاوٹ بننے والے اداروں کے خود ساختہ رولز ریگولیشن پر من مانی یا ذاتی مفادات کو مدنظر رکھ کر بنانے پر پابندی ہونی چاہئیں۔ Nepotisim کے نظام کے تحت تقرریوں کا سلسلہ بند ہونا چاہئیں، میرٹ کے تحت اداروں کو تقرریوں کا اختیار ہونا چاہئے۔ ہر ادارے میں پبلک سروس کمیشن کے تحت تقرریاں ہونا چاہئے تاکہ میرٹ کو بحال کیا جاسکیں۔

ملک میں غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کے تحت چلنے والے اداروں کی چھان پھٹک ہونی چاہئے ان کے ترقیاتی کام کا اور دیگر امور کے ساتھ ان کے نقل و حمل کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے حدود وقیود واضح ہونا چاہئے اور اس سے عوام کو آگاہی ہونی چاہئیں۔ عوامی فلاح وبہبود کیلئے کئے گئے کام کی تشہیر ہونی چاہئیں۔

میڈیا کے کردار کو Appreciate کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کو یہ اختیار دیا جانا چاہئے کہ وہ تمام برائیوں کو منظر عام پر لائے تاکہ حکومت ان برائیوں کو جڑ سے ختم کرسکیں۔ البتہ میڈیا کو عوامی اور انسانی حقوق، چادر اور چاردیواری ، ملکی امن اور سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ بغیر تحقیق و ثبوت کے کسی قسم کی الزامات کی بنیاد پر کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہونا چاہئے نہ کہ میڈیاElectronic Media) کو یہ اختیار ہو کہ وہ عدالت کے کام خود ہی انجام دینے لگیں۔ ضابطہ اخلاق پر کاربند رہنا چاہئیں، مثبت اور مستحکم میڈیا کا ادارہ قوم کی ترقی وخوشحالی ،امن ،آگاہی کے ساتھ برائیوں کی نشاندہی کرکے اصلاح و مشورہ کے ساتھ برائیوں کے خاتمے کیلئے موثر کردار اداکریں۔

الغرض یہ کہ ہم سب کو استحکام پاکستان کیلئے اپنا کردار اداکرنا پڑے گا لیکن قومی اداروں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کیلئے اعلیٰ سطح پر غیر سیاسی کلین ہینڈز ماہرین پر مشتمل ایک بورڈ یا کمیشن مقرر ہونا چاہئے جو تمام اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لے سکیں اور عوامی شکایات کا ازالہ کر سکیں۔ قومی اداروں کے اہلکاروں /ملازمین کے فرائض کی بجا آوری پر غفلت کے مرتکب یا عوامی اُمنگوں کے خلاف یا قوانین کے خلاف کام کرنے والوں کے خلاف عوامی شکایات پر ازالہ کیا جاسکیں۔ اس اعلیٰ سطح کے ادارے تک رسائی کو ممکن بنایا جائے تاکہ بر وقت شکایات کا ازالہ ہو سکے اور یہ ادارہ حکومت کو سالانہ رپورٹ پیش کریں تاکہ مزید قوانین جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو اور ان اداروں کو مستحکم کرنے کیلئے ضرورت ہوں متعلقہ بورڈ کی سفارش پر پارلیمنٹ قوانین بنائیں تاکہ مستحکم اداروں سے استحکام پاکستان میں مدد مل سکیں اور عوام میں بھی میرٹ اور سچائی کی عادت ڈالی جاسکیں۔ جب تک قوانین پر عملدرآمد برابری ، مساوات کی بنیاد پر نہیں ہوتا تب تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جاسکتے۔ ان اداروں میں حکومتوں کی تبدیلیوں سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے ، ان اداروں کو مستحکم کرنے سے ہی پاکستان میں استحکام آئے گا اور قوم و ملک ترقی و خوشحالی، امن و سلامتی اور انصاف کا گہوارہ بن سکے گا،اور قوم ترقی کی طرف گامزن ہوسکے گی۔ استحکام پاکستان میں قومی اداروں کا کردار کو ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہیں۔

تمام قومی ادارے جو ملک و قوم کے معاملات چلانے کے فرائض پر معمور ہوں ان سے عوام کو جو توقعات وابستہ ہے انکو عوامی خواہشات کے عین مطابق نبھایا جاسکے ۔ اس طرح ادارے مستحکم ہونگے تو پاکستان مستحکم ہوگا۔ عوام خوشحال ہوگی، انصاف ملے گا ، محرومیاں دور ہونگی ، روزگار ملے گا تو امن و سلامتی کی فضاء قائم ہوگی جس کے لئے گراس روٹ لیول پر تبدیلیاں لانی ہوگی اور استحکام پاکستان کیلئے قومی اداروں کی کارکردگی اور کردار میں بہتری لانے سے ممکن ہوگا اسلئے ہمیں بحثیت قوم اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دینا ہوگی ۔

اس کیلئے اپنے ذاتی مفادات اور تر جیحات سے بالاتر ہوکر کام کرنے پڑ یں گے ۔ قوانین کی عملداری کو یقینی بنانا پڑ ے گا۔ ہم سب کو قوانین کی پاسداری کرنی ہوگی۔ امن ، خوشحالی اور ترقی ایمانداری کی بنیاد پر استحکام پاکستان کو اپنا نصب العین بنائیں۔ گویااستحکام پاکستان ہی قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے جو اداروں کی مظبوطی اور فعال کردار سے ممکن ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button