کالمز

لواری ٹاپ اور سرنگ

بشیر حسین آزاد

Lawariہرسال سردی کا موسم آتے ہی چترال اور پشاور کے درمیان ٹریفک کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔متحدہ مجلس عمل اور جنرل مشرف کی حکومت نے روزانہ کی بنیاد پر لواری ٹنل سے آمدورفت کا اہتمام کیا تھا۔پیپلز پارٹی اور اے این پی کی حکومت نے ہفتے میں تین دنوں کے لئے ٹنل کو ٹریفک کے لئے کھولنے کا انتظام کیا۔موجودہ حکومت کے آنے کے بعد صورت حال خراب ہوئی اور ہفتے میں صرف 2 دنوں کے لئے ٹریفک کی اجازت دی گئی اس طرح ہفتے میں ایک ہزار گاڑیوں کو2 دنوں کے اندر ٹنل سے راستہ دینا مسافروں کے لئے ذہنی کوفت،اذیت اور تکلیف کا باعث کا باعث بنتا ہے۔بوڑھے،بچے،خواتین اور بیمار مسلسل اذیت سے دوچار ہوجاتے ہیں۔13جنوری 2015کولواری ٹاپ پربارش اور برف باری ہوئی تو مسافروں کو3 دنوں تک اذیتوں سے گذارا گیا۔خدا خدا کرکے پاک فوج نے لواری ٹاپ سے برف ہٹا کر ٹاپ کا راستہ کھول دیا۔مگر یہ چترال آنے جانے والے مسافروں کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔لواری ٹاپ کا راستہ15فروری اور15اپریل کے درمیان برفافی تودوں کے خطرے کے وجہ سے بند رہے گا۔اور مسافروں کے ساتھ ساتھ سامانِ تجارت لانے والی بھاری گاڑیوں کے لئے ٹنل کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔اس لئے مستقل حل یہ ہے کہ لواری ٹنل کا راستہ روزانہ 8گھنٹے کھول دیا جائے تو 130گاڑیوں کو دونوں اطراف سے گذرنے کا آسان راستہ ملے گا۔مگر نیشنل ہائے وے اٹھارٹی ،وفاقی وزیر مواصلات اور وزیر اعظم پاکستان کی توجہ کے بغیر یہ کام نہیں ہوگا۔جیسا کے شاعر نے کہا۔

اپنی بات واں تک پہنچتی نہیں عالی رتبہ ہے جناب بہت

بدقسمتی سے ہماری حکومت صرف تشدد کی زبان سمجھتی ہے۔پُرامن مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔چترال کے لوگ محب وطن لوگ ہیں اور پُرامن مطالبے کرتے ہیں۔حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔چترال کی جغرافیائی اہمیت کا یہ تقاضا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ،وزیر مواصلات اور این ایچ اے کے چیئرمین ذاتی دلچپسی لیکرلواری ٹنل کا راستہ روزانہ 8گھنٹے کھولنے کے احکامات جاری کریں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button