کالمز

ضمیر کے سودا گر

گلگت بلتستان میں الیکشن 2015کی آمد آمد ہے۔ضمیر کے پرانے سودا گر نئے وعدوں، دور اقتدار میں لوٹے ہوئے تجوریوں اور مکارانہ وعدوں کیساتھ پھر میدان میں کود پڑے ہیں ۔ان مکاروں کو علم ہے کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے اور پانچ سال قبل کئے گئے وعدے جن کی تکمیل کا ان پانچ سالوں میں نہ نمائندے کو یاد رہا اور نہ ہی عوام میں اتنی اخلاقی جرات تھی کہ انہیں ان کے وعدے یاد دلائے ۔مولا علی علیہ السلام کا قول ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جا سکتا ۔مولا ؑ نے یہ فرمان مومنوں کیلئے فرمایا تھا مگر معاشرے میں ذیادہ تر منافق ہیں ۔اس لئے چند نام نہاد سرکردگان ذاتی مفادات کی خاطر جانتے بوجھتے ہوئے ان پڑھ اور سادہ لوح عوام کو بطور نذرانہ ان ضمیر کے سوداگروں کی جھولی میں ڈالتے ہیں اور غریب عوام ان نام نہاد سرکردگان کی دھوکے میں آکر ان مکاروں کو ووٹ دے دیتے ہیں اور اگلے پانچ سال چھپ چھپ کر ان نمائندوں کو گالیاں اور اپنی قسمت پر ماتم کرتے ہیں ۔مگر افسوس صد افسوس پانچ سال بعد پھر انہی مکاروں کو ووٹ دے دیتے ہیں ۔میں نے بہت سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ۔میں ذاتی تجربات اور مشاہدات سے اس نتیجے پر پہنچا کہ ہم فرقوں ، برادریوں اور علاقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور قومی مفادات کو ذاتی مفادات پرترجیح دیتے ہیں ۔گاؤں میں کچھ سرکردگان ان نمائندوں سے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں ۔اور گاؤں میں اتفاق و اتحاد کے نام پر دھونس دھمکی لالچ اور کبھی وفا نہ ہونے والی وعدوں کے ذریعے گاؤں والوں کو اپنے من پسند امیدوارکو ووٹ دینے پر مجبور کرتے ہیں ۔چاہے وہ امیدوار کتنا جھوٹا ،کرپٹ اور دغا باز کیوں نہ ہو ۔

حاجی وزیر فدا علی مایا شگری
حاجی وزیر فدا علی مایا شگری

کچھ لوگ فرقوں کی بنیاد پر ووٹ مانگتے ہیں چاہے وہ امیدوار بے نمازی ،شرابی،بے ایمان اور دینی تعلیمات سے کوسوں دور کیوں نہ ہو۔وہ اپنے آپ کو اور اس کے سپورٹر اسے دین کا ٹھیکدار بنا کر پیش کرتے ہیں اور اس حد تک جاتے ہیں کہ اس کو ووٹ نہ دینے والا دین و مذہب کا غدار اور جہنمی ٹھہرایا جاتا ہے اور جیتنے کے بعد وہ نمائندہ دین و دنیا دونوں کو بھول کر مال لوٹنے اور اقربا پروری میں پرانے ریکارڈ توڑ دیتا ہے اور پانچ سال بعد یہی منافق نئے جھوٹے وعدوں ،پرانی عذر خواہیوں اور مال حرام کی چمک کیساتھ پھر میدان میں اتر آتے ہیں چونکہ عوام خود منافق ہیں اور ان میں وہ اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ ان دھوکہ بازوں سے پچھلا حساب مانگ سکیں۔اس لئے نئی بوتل میں پرانی شراب کے مصداق یہی نمائندے پھر منتخب ہوکر کرپشن کے سابقہ تجربات لیکر قوم کی امنگوں پر پانی پھیرنے کیلئے پھر آجاتے ہیں ۔میرے خیال میں ان نمائندوں کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ یہ ان کا کاروبار ہے اور اپنے کاروباری منافع کیلئے نئے نئے حربے استعمال کرتے ہیں ۔اصل قصور بے حس عوام کا ہے کہ کچھ لوگ شعور نہ ہونے کی بناء پر اور کچھ لوگ معاشرتی مجبوریوں کی وجہ سے بار بار انہی ضمیر کے سوداگروں کو ووٹ دیکر منتخب کرتے ہیں۔گلگت بلتستان میں پڑھے لکھے ایماندار اور اہل لوگوں کی کمی نہیں ہے مگر ان اہل لوگوں کے پاس الیکشن لڑنے کے اخراجات اور اثر رسوخ معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے یہ ہیرے خاک میں ہی دفن رہتے ہیں اور معاشرے کی تقدیر بار بار آزمائے ہوئے ان مکاروں (اس میں0 2فیصد اہل پرانے نمائندے شامل نہیں)کے قدموں تلے ڈھیر ہوجاتی ہے۔

اس لئے گلگت بلتستان کے عوام سے درد مندانہ اپیل ہے کہ آپ ان ضمیر کے سوداگروں سے ہوشیار رہیں اور آنے والے انتخابات میں ذات، برادری، مسلک ، پیسے کی چمک کو نظر انداز کرکے اہل اور ایماندار نمائندوں کا چناؤ کریں تاکہ اگلے پانچ سال چھپ چھپ کر انہیں گالی دینا نہ پڑے اور آپ کے منتخب کردہ نمائندے قوم کی قیادت کا صحیح حق ادا کر سکے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button