کالمز

امن بذریعہ میرٹ

ڈاکٹر محمدآصف خان نے گزشتہ دنوں مقامی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو جب قراقرم انٹرنیشنل یونیور سٹی گلگت بلتستان میں بحثیت وائس چانسلر تقرری سے قبل ایوان صدر میں انٹرویو کے لئے بلایا گیا تو پہلا سوال یہ پوچھا گیا کہ گلگت بلتستان فرقہ واریت سمیت لسانی ،علاقائی ،قبائلی اور دیگر تعصبات کی آماجگاہ ہے اور اس کا نشانہ قراقرام انٹر نیشنل یونیورسٹی بھی بنی ہے اس لئے وہاں جو بھی جاتا ہے وہ ان مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ آپ بحثیت وائس چانسلر ان مشکلات میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کیسے سرانجام دیں گے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ہے کہ میرے پاس اس کا حل موجود ہے ۔ ایوان صدر کا عملہ حیران ہوا اور ان سے پوچھنے لگا کہ وہ حل کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ” میرٹ” انہوں نے فرمایا کہ ایسے تمام سماجی مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے میرٹ اور جہاں میرٹ ہو وہاں یہ برائیاں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔

israrایسی خوبصورت بات یقیناًکسی یونیورسٹی سے ہی نکل سکتی ہے۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام اپنے مسائل کے حل کے لئے یونیورسٹیوں کی مدد اس لئے لیتی ہیں وہاں جو دماغ موجود ہوتا ہے وہ ہر مسلے کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتاہے کیونکہ یہ یونیورسٹی ہی ہوتی ہے جہاں مسائل پر مناسب غور وفکر ہوتا ہے اور ان کا حل ڈھونڈا جاتا ہے ۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں معاملات الٹے ہیں یہاں آج تک کسی مسلے کا حل سائنسی بنیادوں پر نہیں ڈھونڈا گیا۔ہر مسلے کا حل ڈنڈا بردار تھاندار کو سمجھاتاہے ۔ اس لئے ہمارے مسائل حل کی بجائے ابتری کی طرف جاتے ہیں۔ مثلایہ جو عقل کے اندھے ہیں جو امن امن کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور اس کے لئے اجلاسیں بلاتے ہیں ان کو آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بے امنی کی وجوہات ڈھونڈ کے ان کا حل نکالیں۔ صاحب اختیار لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ پولیس کی تعداد بڑھانے، رینجرز کی چوکیاں قائم کرنے سے اور سالانہ انٹرنل سیکورٹی کے نام پر ایک ارب خرچ کرنے سے یا اپنے حقوق کی بات کرنے والوں پر مقدمات بنانے سے مستقل امن ہوگا تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ یہاں پہلے ہی امن کے نعرے لگانے والے کم نہیں تھے ایسے میں نئے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان طاہر حسین بھی امن کی خوشخبری لیکر اسلام آباد سے روانہ ہوئے ہیں ۔ان تمام سے گذارش ہے کہ مذکورہ اقدامات سے وقتی امن تو ہو سکتا ہے مگر دیر پا امن کی گرنٹی نہیں مل سکتی۔

معاشرہ پر امن اور مہذب اس وقت ہوتا ہے جب وہ چند اصولوں کا خود کو پابند بناتا ہے۔ یہاں ایک طبقہ نسل در نسل سرکاری وسائل پر ہاتھ صاف کرتا ہے اور ایک طبقہ مسلسل غریب سے غریب تر ہوتا جا رہاہے، ایک طبقہ کرپشن کے بل بوتے پر دولت کے انبار لگا چکا ہے اور ایک طبقہ ایک وقت کی روٹی کی لئے ترستا ہے، ایک طبقہ کی اگلی نسل جب ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے تو ان کے نام سرکاری نوکری پکی ہوتی ہے اور ایک طبقہ ڈگریاں بگل میں دبائے پھرتا ہے کہیں ان کی شنوئی نہیں ہوتی، ایک طبقہ قانون نام کی چیز کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتا ہے اور ایک طبقہ تھانوں اور کچہریوں میں دھکے کھاتا ہے۔ ایسے میرٹ کش حالات میں سرکاری وسائل پر عیاشیاں کرنے والے لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ ہمارا ڈنڈا دیکھانے سے معاشرہ امن کے گیت گائے گااور معاشرے سے تمام تعصبات یکسر ختم ہو جائیں گے۔ حالانکہ تعصبات خوف اور مایوسی سے جنم لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں ناانصافی، میرٹ کش اقدامات، غربت، کرپشن، اقرباء پروری، رشوت ستانی، سفارشی کلچر، پولیس گردی، اختیارات کا غلط استعمال سمیت دیگر زیادتیوں نے معاشرے میں مایوسی اور خوف کی کیفیت پیدا کی ہے اور بے امنی بھی اسی کا ہی نتیجہ ہے۔

احمقوں کی جنت میں رہنے والوں کو یہ سمجھ آنا چاہئے کہ دنیا کے جو معاشرے تعصبات سے بالاتر اور مستقل طور پر پر امن ہیں وہ رینجراورپولیس کی وجہ سے نہیں ہیں۔ بلکہ ان کی بہترین پالیسیوں کی وجہ سے ہیں۔ ان معاشروں کی بنیادی خصوصیت میرٹ ہے۔

میرٹ صرف سرکاری نوکریوں میں بھرتیوں کے لئے نہیں بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں میرٹ لازمی ہے۔ یہاں سرکاری وسائل اور افرادی قوت من پسند افراد کی خدمت کے لئے وقف ہے عوام الناس کو ریاست کے معزیز شہری کا سٹیٹس حاصل نہیں ہے۔ تمام سرکاری ادارے تنخواہیں بٹورنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے ہیں۔ سرکاری لوگوں کی یہ بنیادی تربیت ہی نہیں ہوئی ہے کہ عوام کی خدمت ان کا فرض اول ہے۔ بلکہ وہ سرکاری نوکری کو اپنی میراث سمجھتے ہیں۔ لوگ بجلی، صاف پانی، صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ سڑکوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ بازار میں مضر صحت اشیاء کی بھر مار ہے۔ روزگار کے مواقعے محدود ہیں جن میں سفارشی یا رشوتی بنیادوں پر لوگ لئے جاتے ہیں۔ سرکاری لوگ اپنی عیاشیوں کے لئے وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں جبکہ عوامی مسائل کے حل کے لئے ان میں جذبہ نہیں پایا جاتا۔ غرض ہر طرف میرٹ کی دھجیاں اڑانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ 

مذکورہ تمام عوامل ہیں جو مل کے لوگوں کو بے امنی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ امن کے گت گانے والے لوگ اجلاسوں کی بجائے ان مسائل کے حل ڈھونڈیں ،امن خود بخود آئے گا وگرنہ ایسے معاشروں میں امن قائم نہیں ہوتے جہاں مسائل کا حل نہیں ڈھونڈا جاتا بلکہ صرف امن کے گیت گائے جاتے ہیں۔ سلام ہے ڈاکٹر آصف صاحب کو جنہوں نے ایوان صدر سے لیکر یہاں کے جاہل صاحب اختیار لوگوں کو ان کے تمام مسائل کاحل ایک ہی لفظ میں بتا دیا ہے ۔عقل والوں کے لئے اس ایک لفظ میں بڑا سبق ہے اس ایک لفظ کی اہمیت پر غور کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو معاشرے کو خوشحال ، پر امن، ترقی تافتہ اور انسانوں کے رہنے کے قبل بنایا جا سکتاہے۔ گورنر،وزیر اعلیٰ، چیف سکریٹری ، آئی جی پی سے لیکر تمام لوگ اپنے اپنے ماتحت محکوموں میں میرٹ قائم کریں تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ صرف بے امنی نہیں بلکہ دیگر تمام مسائل بھی خود بخود حل ہو جائیں گے۔ ضررورت اس امر کی ہے کہ نیچے سے اپر تک میرٹ ہی میرٹ کا بول بالا ہو۔ امن و ترقی بذریعہ میرٹ کو موٹو بنا کر کام کیا جائے ورنہ عوام کو بیوقوف بنانے کا دور ختم ہوچکا ہے وہ اب کھوکھلے نعروں کے فریب میں نہیں آئیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button