Uncategorized

بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے

                                                                                     تحریر : شکیل اختر رانا

بالآخر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب نے کراچی میں گرمی سے مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے پیر کے دن کراچی جانے کا اعلان کردیا،دوسری جانب کراچی میں گرمی سے مرنے والوں کی تعداد ہزار سے تجاوز کر گئی ہے،میاں صاحب شاید ہزار کی تعداد پوری ہونے کے انتظار میں تھے اور شاید چند سو افراد کی ہلاکت پر کراچی جانا اپنے "اسٹیٹس” کی توہین سمجھتے تھے،ورنہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے دن ہی میاں صاحب تمام مصروفیات ترک کرکے کراچی پہنچ جاتے اور اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کر کے ذمہ دارن کی سخت سرزنش کرتے،تاکہ مزید قیمتی جانیں بچانے کی کوئی امید پیدا ہوتی اور کچی آبادیوں اور پهٹے پرانے خیموں تلے زندگی بسر کرنے والے غریبوں کی بھی اشک شوئی ہوتی کہ چلو کوئی تو ہمارا ہمدرد اس دنیا میں موجود ہے،مگر 24گهنٹے ائیرکنڈیشنڈ میں زندگی گزارنے والے وزیر اعظم کو کیا معلوم کہ سخت گرمی کے عالم میں مٹی میں پائوں رگڑ رگڑ کر جان کی بازی ہارنے والے کسی غریب اور اس کے لواحقین پر کیا قیامت ٹوٹ پڑتی ہے،میاں صاحب کیا آپ کو کسی نے نہیں بتایا کہ حاکم وقت اپنی رعایا کا مسئول ہوتا ہے اور رعایا پر ہونے والے ہرظلم کا براہ راست ذمہ دار حاکم وقت ہی ہوتا ہے،آپ خود کو ایک مثالی حکمران قرار دیتے ہیں،یقیناً آپ نے ایک مثالی حکمران بننے کے لیے ماضی کے مثالی حکمرانوں کی تاریخ تو پڑھی ہوگی،کیا آپ کی نظروں سے یہ واقعہ نہیں گزرا کہ ایک حاکم وقت نےیہ اعلان کر رکھا تھا کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرجائے تو قیامت کے دن میں اس کا بھی جوابدہ ہوں گا،یہاں کتے نہیں انسان مررہے ہیں ،وہ بهی ایک انسان نہیں بلکہ ہزاروں انسان اور آپ ٹس سے مس نہیں،پھر آپ اور آپ کے بھائی کس منہ سے خود کو مثالی حکمران اور قوم کے خادم قرار دیتے نہیں تھکتے ہیں،میاں صاحب مانتا ہوں کہ آپ نے میٹرو پراجیکٹ مکمل کرکے لاہور،پنڈی اور اسلام آباد والوں کا دل جیت لیا ہے،مگر یہ کہاں کا انصاف ہے صاحب کہ اہل سندھ اور کراچی والوں کو آپ نے ڈاکوؤں اور قاتلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے،مانا کہ آپ کے دور حکومت میں بم دهماکوں اور خودکش حملوں میں کمی آئی ہے،لیکن ایدهی سرد خانے میں موجود ہزاروں لاشیں بزبان حال آپ سے یہ سوال پوچهتی ہیں کہ کیا صرف بم دهماکوں میں مرنے والے ہی انسان ہیں یا پهر کے ای ایس کی لوڈ شیڈنگ سے متاثر ہوکر سرد خانے کی نظرہونے والوں کو بهی آپ انسان سمجهتے ہیں،ماناکہ آپ کے دور حکومت میں پیٹرول 100ستے70 تک پہنچا ہے،مگر لانڈھی کی ایک کچی بستی سے سائیکل پر مزدوری کے لیے نکلنے کے بعد جناح ہسپتال پہنچ کر دم توڑنے والا نصیب گل آپ سے یہ سوال پوچھتا ہے کہ میاں صاحب پیٹرول سستا ہونے کا آخر مجھے کیا فائدہ حاصل ہوا، یہ بھی تسلیم ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری پر کام شروع کرکے آپ نے قوم کو روشن مستقبل کی نوید بھی سنادی ہے،لیکن میاں صاحب کراچی کی کسی جھگی میں گرمی سے دم گھٹ مرنے والے کسی عبد اللہ کو اس سے کیا سروئے کار کہ اکنامک کوریڈور سے سالانہ کتنی آمدنی متوقع ہے،یہ حقیقت بھی ہم مانتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں آپ کی پارٹی بھاری مینڈیٹ کے ساتھ جیت چکی ہے،مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنا اتنا ضروری تھا کہ آپ تمام مصروفیات پس پشت ڈال کر گلگت جانے کے لیے تیار ہوگئے،معاف کیجئے گا میاں صاحب آپ کو بطور وزیراعظم شروع دن سے اب تک کراچی میں ہونا چاہیے تھا تاکہ آپ کے مثالی حکمران ہونے کا دعوٰی سچ ثابت ہو پاتا،آخر ترجیحات کا تعین بھی کسی چیز کا نام ہے،ایک دن صرف ایک دن بغیر اے سی کے گزار کر دیکھئیے،آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ گرمی کس بلا کا نام ہے،میاں صاحب آپ سے یہ امید ہرگز نہیں تھی،آپ کی حکومت جب قائم ہوئی تھی تو اس ملک کے غریبوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ پیپلزپارٹی پارٹی کا کرپشن سے بھر پور دور کا خاتمہ ہوا،اب میاں صاحب اس ملک کے ہر غریب کے سر پردست شفقت رکھیں گے،ظالموں سے ظلم کا بدلہ لیں گے،غریبوں کا مال لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے،مگر آپ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا کہ آپ اور زرداری صاحب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں،اگر آپ جرآت کا مظاہرہ کرتے تو پانچ سال قوم کا خون چوسنے والا زرداری دبئی میں ہونے کے بجائے پس زنداں ہوتا،مینار پاکستان میں جلسہ کرکے زرداری کو روڈوں میں گھسیٹنے اور ملک سے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے بھی آپ اور آپ کے بھائی نے ہی کیے تھے،مگر ملک اور قوم کو لوٹنے کے بعد پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والا زرداری آج دبئی میں عیاشی کی زندگی گزار رہا ہے،جب کہ پورے ملک میں عموماً اور کراچی میں خصوصاً آج بھی لوگ گرمی سے مررہے ہیں،خدارا خود پر اور اس ملک پر رحم کیجئے اور بطور حاکم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ورنہ موت صرف کراچی کے غریبوں کے مقدر میں نہیں کسی دن عزرائیل علیہ آپ کے دروازے پر بھی دستک دیں گے..
بقول شیخ سعدی
چوں آهنگ رفتن کند جان پاک
چہ برتخت مردن چہ بر روئے خاک

جب پاک جان جسم سے نکلنے کا ارادہ کرے تو کیا تخت پر مرنا اور کیا خاک پر مرنا،سب برابر ہے،مگر مرنے کے بعد ملک میں ہونے والے ہر ظلم کا حساب آپ نے دینا ہے،زرا سوچئے کہ کیا آپ اس صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں؟؟؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button