کالمز

چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری اور ماحولیاتی اثرات

شجاعت علی

0a64c5156ان دنوں جگہ جگہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا چرچا ہے حکومت وقت تو میڈیا پہ اس کی ایسی تشہیر کر رہا ہے گویا اس منصوبے کے صرف فائدے ہی فائدے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ اپوزیشن کے جماعتوں نے بھی حکومت کے ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دیا ہے۔سول سوسائٹی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اقتصادی منصوبے کے ممکنہ منفی اثرات یا ردعمل کو پرکھنے کی کسی کو توفیق نہیں۔ تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں روشن اور تاریک۔ ہم عموماً رخِ روشن پہ توجہ دیتے ہیں مگر رخِ مدھم کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ میرا اِشارہ منصوبے کے مثبت اور منفی پہلوؤں کی جانب ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا کوئی منفی پہلو نہیں ہے بلکل ہے۔ سب سے بڑا منفی پہلو ماحول پر پڑنے والا متوقع منفی اثرات ہیں جس کے بارے میں کوئی لب کشائی نہیں کرتا۔ بے شک اس منصوبے کے مثبت اثرات ذیادہ اور منفی کم ہو سکتے ہیں مگر انہیں کسی صورت نظر انداذ نہیں کیا جا سکتا۔ بادی النظرمیں سابق وفاقی وزیر ماحولیات جناب مشاہد اللہ خان کے استعفے کے بعد وزارت ماحولیات کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ایک دو موقعوں پہ موصوف نے چا ئنہ پاکستان اقتصادی منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کا تذکرہ کیا مگر عملی طور پر کچھ اقدامات اُٹھانے سے قبل ان کا متناذع بیان مستعفی ہونے کا سبب بنا۔ ماحولیاتی آلودگی ایک انتہائی حساس اور پیچیدہ مسئلہ ہے یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اس کے بارے میں بہت فکرمند ہیں اور اس کے تدارک کے لئے طویل المدتی حکمت عملی کے تحت کام کر رہے ہیں۔ ہم چونکہ ایک ترقی پذیر مُلک ہے ہمیں ترقی کرنے کی جلدی ہے اور ترقی کے آڑ میں رونماء ہونے والے مسائل کا پیشگی ادراک نہیں۔ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بہت سارے ہمسایہ ممالک اس منصوبے میں شراکت دار بننے کے خواہاں ہیں۔ ذرا غور کیجئے گا جب شاہراہ قراقرم کو بلوچستان میں گوادر کے بندرگاہ سے منسلک کر دیا جائے گا تو اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ اکنامک زونز کے بننے اورکراس بارڈر تجارت بڑھنے سے اس روڈ پہ بہت ساری گاڈیاں نکلیں گے جن کے دھواں سے فضاء آلودہ ہوگا جب فضاء آلودہ ہوگا تو موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہونے سے بہت ساری بیماریاں پیدا ہونگے جس سے لوگوں کی صحت کے مسائل جنم لیں گے۔ جب اتنے سارے گاڈیاں بالخصوص پاکستانی ٹرک روڈ پر عجیب و غریب پریشر ہارن سمیت نکلیں گے تو شور کی آلودگی میں بے ہنگم اضافہ ہوگا جس سے لوگ نفسیاتی طور پر متاثر ہونگے۔ شور کی آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں جاننے کے لئے ان لوگوں کی را ئے جاننا ضروری ہیں جن کے گھر سڑک کے ساتھ ساتھ آباد ہیں۔ جو ہمیشہ راستے کے حادثے یعنی روڈ ایکسیڈینٹس سے اپنے ننھے منھے بچوں کو بچانے کی فکر میں ہوتے ہیں۔جنہیں شور نہیں بلکہ سکون کی تلاش ہوتی ہے۔ جن گاؤں سے شاہراہِ قراقرم گزرتی ہے وہاں کے لوگوں میں تشویش بڑتی جا رہی ہے کہ کہیں اقتصادی راہداری منصوبہ سے ان کے سماجی و معاشی نظام ذندگی متاثر نہ ہو ۔ قصہ مختصر یہ کہ ہمیں ٹریفک سے پیدا ہونے والے مسائل کے تدارک کے لئے پیشگی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہو گاٹریفک حادثات کو کم سے کم کرنے کے لئے عوام میں روڈ سیفٹی سے متعلق شعور اور بیداری پیدا کرنا ہو گا۔ گلگت بلتستان میں ڈرائیونگ کے دوران سیٹ بیلٹ باندھنالاذم اور کم عمر نا پُختہ ذہین لوگوں کے ڈرائیونگ کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔ راستے کی توسیع اورکشادگی کے لئے جب آس پاس کے درخت کاٹے جاتے ہیں تو سڑک کے کنارے آباد سرسبز شاداب ذمین کھنڈرات کی مانند لگتے ہیں۔ شاہراہ قراقرم کے توسیعی منصوبے میں اس بات کا بلکل خیال نہیں رکھا جاتا کہ سڑک کے کنارے نہریں اور کلوَٹ بنانے کے ساتھ ساتھ قدرتی حسن کو بھی برقرار رکھا جائے۔مٹی کے ٹیلے، بڑے بڑے پتھروں کے انبار اور زمین کے کھدائی کے آثار توجگہ جگہ نظر آتی ہے مگر گرین بیلٹ کہیں نظر نہیں آتی۔ شکریہ ان لوگوں کاجن کی زمین سڑک کے ساتھ ساتھ واقع ہیں جو اپنے زمین میں پانی دیتے ہیں ہل چلاتے ہیں درخت اگاتے ہیں اور ارد گرد کے ماحول کو خوبصورت بناتے ہیں۔ حکومت وقت کی توجہ تو اس جانب نہ ہونے کے برابر ہے۔ سی ڈی اے جس طرح اسلام آباد میں سڑکوں کے اردگرد ہریالی کو بحال رکھتی ہے اسی طرح شاہراہ قراقرم پر بھی ہونا چاہیے یہ ایک فطری عمل ہے کہ انسان حُسن پرست ہے دوران سفر اگر خوبصورت نظارے ساتھ ساتھ ہو تو کیا ہی بات ہے۔ سڑکوں کے ساتھ والی زمین میں شجر کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا ماحول کلین اور گرین رہے۔ سڑک کی وہ زمین جو سرکاری ملکیت ہوتی ہیں اور تارکول پڑنے سے رہ جاتا ہے اُسے ہموار کرنا، سنوارنا، اور سرسبز بنانا متعلقہ ادارے کی ذمہ داری ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن، ڈبلیو ڈبلیو ایف، محکمہ تعمیرات عامہ، محکمہ جنگلات اور محکمہ ماحولیات و قدرتی ماحول کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ روڈ کے کنارے قدرتی حسن کو بحال رکھنے میں اپنے کردار ادا کریں۔ اِن دنوں ایک نیا مسئلہ بھی جنم لے رہا ہے اور وہ ہے شاہراہوں بالخصوص شاہراہِ قراقرم کے ساتھ ساتھ واقع بنجر بے آباد جگہوں اور ندی نالوں میں کوڈا کرکٹ کو ٹھکانے لگانا۔ جس سے نہ صرف تعفن پھیلنے کا خطرہ ہے بلکہ مسافروں کے ذہنوں میں گلگت بلتستان کے بارے میں ایک غلط سوچ کو بھی پروان چڑھا رہا ہے۔ دنیا بھر کے سیاح یہاں کے قدرتی حسن کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں جب ان کی نظریں سڑک کے کنارے موجود گندگی اور کوڈا کرکٹ کے ڈھیروں پر پڑے گی تووہ یہاں سے کیا تاثر لے کے واپس جائیں گے۔ ویسے بھی میڈیا آذاد ہے ہر تصویر، ہر خبر منٹوں میں ہر خاص وعام تک پہنچ جاتی ہے۔ معلومات اور اطلاعات تک رسائی کے لئے شوشل میڈیا نے تو سب کو پیچھے چھوڈ دیا ہے۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے بہت سارے علاقوں میں لوگ ذمین سے محروم ہو جائیں گے ان کی آبادکاری حکومت کے لئے ایک بڑا چیلینج ہوگا۔ بازاروں کو کشادہ کرنے کے لئے دکانوں، رہائشی عمارات، ہوٹلوں، دفاتر اور دیگر تعمیرات کو گرا کے انہیں نئے سرے سے تعمیر کرناایک مشکل کام ہے۔ ہوسکتا ہے کئی لوگ رزق حلال کمانے سے محروم ہو جائے۔ قراقرم ہائی وے پر واقع بہت سارے گنجان آباد علاقوں میں آبادی میں اضافے سے پیدا ہونے والے مسائل درپیش ہیں لوگوں کو رہنے کے لئے مکان چاہیے مگر ذمین دستیاب نہیں۔ ذرخیز قابل کاشت زمینوں کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ بازاروں میں ٹریفک جام روز کا معمول بنتا جا رہاہے۔ کار پارکنگ کا معقول بندوبست نہیں۔ روڈ ایکسیڈنٹ میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ عین ممکن ہے چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل سے ان مسائل میں اور اضافہ ہو۔ انسانی سمگلنگ، منشیات تک آسان رسائی، رشوت ستانی، ڈکیتی، راہزنی ، قتل وغارت، چوری، لوٹ مار اور اس طرح کے دیگر مسائل اقتصادی اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک منصوبے کے صرف مثبت پہلوؤں کو اُجاگر نہ کرے بلکہ متوقع منفی پہلوؤں کو بھی ملحوظ نظر رکھے اور ان سے بچنے کے لئے پیشگی بندوبست کر لیں۔ تمت بالخیر۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button