کالمز

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور کرپٹ مافیا

حفیظ الرحمان نے حکومت قائم کرتے ہی مھدی شاہ کے برعکس اپنی حکومت کا ایک ایجنڈا تو ضرور مختص کر دیا مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ایجنڈا کتنا قابل عمل رہتا ہے ۔ ایجنڈے کے نکات میں کوئی سقم نظر نہیں آتا او ر نہ ہی کوئی غیر معروف ترجیحات مانع رکھی گئی ہیں۔ اس ایجنڈے میں لوڈشیڈینگ بھی ہے ،تعلیم بھی ہے، میرٹ بھی ہے،اور کرپشن کا خاتمہ بھی۔ بظاہر یہ ایک جامع حکمت عملی کا عکاس ہے۔یہی وہ پہلو ہیں جن میں عوام کے مسائل اور درد کا تریاق پوشیدہ ہے۔ اگرنیک نیتی اور خلوص نیت سے ان کو نافذ عمل کیا جائے تو خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ 

sajjad Hussain Kamilاب ہم ایک حقیقت پسندانہ تجزیے کے ذریعے یہ واضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا نفاذ کتنا ممکن دکھائی دیتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حفیظ الرحمان کا سابق وزیراعلیٰ سے کوئی تقابل نہیں۔حفیظ کا پروفائل مھدی شاہ سے خاصا بہتر ہے۔ تعلیمی، سیاسی، سماجی حوالوں سے زیادہ متحرک انسان ہیں اور دیانتداری اور فیصلہ سازی میں بھی ان کا گراف اس حد تک انحطاط کا شکار نظر نہیں آتا۔

موجودہ وزیر اعلی ٰ کا یہ دور انتہائی پیچیدہ اور امتحانات سے بھرپور ہوگا ۔ قدم قدم پہ کٹھن موڑ باہیں پھیلائے منتظر ہونگے۔لفاظی گلو خلاسی کو کوعمل میں بدلنے کے لئے بہت سخت اور منصفانہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوگی۔مثال کے طور پر کرپشن کے حوالے سے حفیظ بظاہر بہت مضطرب نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے ان کے اردگرد بھی انہی لوگوں کا ہجوم ہے جو مھدی شاہ کے دور کے پوری طرح بہرہ مند رہے ہیں ۔ انہی فصلی بٹیروں نے موجودہ الیکش میں حفیظ الرحمان کا ہر طرح سے ساتھ دیا ہے ۔ اب وہ ظاہر ہے کہ اس امید پر ہونگے کہ ماضی کی طرح لوٹ مار کی جائے ۔ اگریہاں حفیظ الرحمان اصول پسندی اور میرٹ کا دامن تھام لیں تو یہی لوگ رقابت کی دیوار ثابت ہونگے جبکہ دوسری حفیظ الرحمان ان لوگوں کے اشاروں پر چلتے ہیں تو ان کا بھی وہی انجام ہوگا جو رسوائیاں سابق وزیراعلیٰ نے اپنے دامن میں سمیٹی۔ یہی وہ گھڑی ہے جس سے گزر کر شخصیات تاریخ میں قدآور مقام حاصل کرلیتی ہیں یا بدنامی کا نشان بن جاتی ہیں۔

زیر بحث برتری کے ساتھ ساتھ چند نحیف پہلو بھی حفیظ الرحمان کی زندگی کے ساتھ نتھی ہیں جنہیں ان کے حریف اچھالا کرتے ہیں8 ۔حقیقت یہ ہے کہ پہلی بار وہ کسی ہیوی ویٹ عہدے پر فائز ہوئے ہیں تو ماضی کے گڑھے مردے اکھاڑنا کوئی سودمند اقدام نہ ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ ان کی کاردگردگی کا بغور جائزہ لیا جائے اور ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے جو کہ ہم وقتاََ فوقتاََ آنے والے کالمز میں کرتے رہیں گے ۔ آخر میں مشورہ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ ایک ہاتھ سے بھرپور کام کریں اور دوسرے ہاتھ سے ڈھول بجائیں اور اپنی کاردگردگی کو مؤ ثر انداز میں میڈیا پر اجاگر کرتے رہیں ۔ اسی صورت خطے کا بھی بھلا ہوگا اور ان کے مخالفین کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button