کالمز

وفادار رومی اور شاہ ایران (انگریزی سے ترجمہ)

محمد ذاکر خان ہنزائی

(نوٹ: ذاکر خان ہنزائی صاحب نے گلگت میں برطانوی راج کے دوران پولیٹیکل ایجنٹ (1923)کےطور پر خدمات سرانجام دینے والے لیفٹیننٹ کرنل لوریمر کی انگریزی کتاب "فوک ٹیلز آف ہنزہ” سے مختصر کہانیوں کااردو میں ترجمہ کرنا شروع کردیاہے۔ اس سلسلے کی یہ دوسری کہانی ہے۔ اسی طرح کی مزید کہانیاں آنے والے دنوں میں پامیر ٹائمز پر شائع کر دی جائینگی۔ مدیر)

اگلے وقتوں کی بات ہے روم کی سرزمین میں ایک غریب آدمی اپنی بیوی اور دو بیٹوں کے ساتھ رہتاتھا۔یہ لوگ بہت غریب اور نادار تھے۔ انہیں نہ تو پیٹ بھر کھانا میسر تھا اور نہ تن ڈھانپنے کو مناسب کپڑا۔

ایک روز رومی نے اپنے آپ سے کہا اس سرزمین میں اب ہمارا رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ہمیں ایران کی طرف ہجرت کر لینی چاہئے۔
سنا ہے شاہ ایران بہت سخی اور نیک انسان ہے۔وہ غریب الدیار لوگوں کی دریادلی سے مدد کرتا ہے۔ انہیں اپنے ہاں پناہ دیتاہے اور بغیر کسی غرض کے ان کی کفالت کرتا ہے۔

اپنی بیوی سے اس نے کہا ؔ ہم کئی برسوں سے یہاں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔ لوگ بتاتے ہیں ایران کا بادشاہ بہت دیا لو ، ہمدرد اور نیک ہے۔کیوں نہ ہم وہاں چل کر اپنی قسمت آزمائیں۔ اس نیک بخت نے فورااس512RD78JQvL._SX316_BO1,204,203,200_ کی ہاں میں ہاں ملا دی اور جانے کے لئے تیار ہو گئی۔

چنانچہ یہ مفلس اور نادار خاندان ایران کی جانب عازم سفر ہوا۔کئی روز کا سفر طے کرکے آخر کار وہ ایران کی سرحد پر پہنچ گئے۔شاہ ایران نے اپنے محل کی بالکونی پر ایک طاقتور دوربین نصب کر رکھی تھی جسکا رخ سرحد کی طرف تھا۔اس دوربین سے اپنے ملک میں داخل ہونے والے لوگوں پر نظر رکھتا تھا اور ان کی مدد اور اعانت کے لئے تیار رہتا تھا۔اس نے دیکھا کہ ایک مردوزن اور دو لڑکے خستہ حالی میں اس کی مملکت میں داخل ہو رہے ہیں۔بادشاہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ گھوڑے لے کر جاؤ اور ان آنے والوں کو عزت اور احترام کے ساتھ شاہی مہمان خانے میں لے آؤ۔

بادشاہ نے یہ مہمان خانہ ایسے ہی غریب الدیار لوگوں کیلئے بنا رکھا تھا۔ یہاں ایران آنے والے مسافر ٹھہرائے جاتے ۔ان مہمانوں کیلئے ہمہ وقت انواع و اقسام کے کھانے تیار ہوتے، پہننے کو بیش قیمت لباس مہیا کئے جاتے۱ور سونے کیلئے نہایت آرامدہ بستر لگے ہوتے۔رومی اور اسکے گھر والوں کو اس مہمان خانے میں آرام سے رہنے لگے۔

چند روز گزرے تو رومی کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا،بادشاہ نے ہمارے ساتھ کمال مہربانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ہمیں اچھا کھانا ، اچھا لباس اور اچھی رہائش مہیا کی ہے۔اب تمہیں چاہئے کہ اس کے احسان کا بدلہ چکاؤاور بادشاہ کی کوئی خدمت کرو۔رومی نے بیوی کی اس بات کو سراہا اور اپنی خدمات پیش کرنے شاہی محل کی طرف چل پڑا۔محل کے دروازے پر پہنچ کر اس نے پہرہ داروں کے بڑے افسر سے اپنا مدعا بیان کیا۔ افسر نے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر رومی کی درخواست پہنچائی۔بادشاہ نے حکم دیا کہ رومی کو رات کے پہرہ داروں میں رکھ لیا جائے۔

رات کو جب رومی کے پہرہ دینے کی باری آئی تو اسے ایک بندوق تھما دی گئی اور محل کے صدر دروازے پر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر گشت کرنے پر لگا دیاگیا۔ابھی کچھ ہی رات گزری تھی کہ رومی کو ایک طرف سے کچھ لوگوں کے رونے کی آوازیں سنائی دینے لگیں جو آہستہ آہستہ بلند ہوتی چلی گئیں۔ بادشاہ نے بھی یہ آوازیں سنیں اور پہرے داروں کے افسر کو حکم دیا کہ کسی کو بھیج کر معلوم کرو کہ ماجرا کیا ہے اور مجھے آکر بتاؤ۔رات بہت تاریک تھی پہرے داروں میں سے کسی کو بھی رونے والوں کے قریب جاکر صورت حال جاننے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔غریب رومی نے اپنی بندوق ایک ساتھی پہریدار کے حوالے کی اوررونے کی وجہ معلوم کرنے کیلئے اس طرف چل پڑا جس طرف سے آوازیں آ رہی تھیں۔ ادھر بادشاہ اپنے کمرے کی بالکونی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ رومی کو جاتا دیکھا تو ایک رسی سے لٹک کر نیچے اتر آیا اور کچھ فاصلہ پر رہ کر رومی کے پیچھے چلنے لگا۔

رومی جب وہاں پہنچ گیا جہاں سے آوازیں آ رہی تھیں تو دیکھا کہ ایک باغ کے عین درمیان میں تین عورتیں دائرے کی شکل میں بیٹھی بین ڈال کر رو رہی تھیں۔رومی ان کے قریب گیا اور کہنے لگا ُ اے میری ماؤ بہنوں تم کیوں رو رہی ہو ا‘ ان عورتوں نے رومی کو کوئی جواب نہیں دیا اور روتی رہیں۔بادشاہ بھی وہاں پہنچ چکا تھا اور چھپ کر سب کچھ دیکھ سن رہا تھا۔ رومی نے پھر سوال کیا ’تمہیں تمہارے خدا کا واسطہ بتاؤ تو سہی کیوں رو رہی ہو۔ شاید میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں۔اس بار ان میں سے ایک بڑی عمر کی عورت نے مڑ کر رومی کی طرف دیکھا اور کہا ’ہمارے بتانے کا کچھ فائیدہ نہ ہو گا۔بہتر ہے تم جہاں سے آئے ہو وہیں واپس چلے جاؤاور اس معاملے میں نہ پڑو۔ نہیں اماں میں کہیں نہیں جاؤنگا۔ تمہیں اسطرح بین ڈال کر رونے کی وجہ بتانی ہوگی۔جب اس عورت نے دیکھا کہ یہ بندہ بضد ہے اور وجہ معلوم کرنے پر تلا ہوا ہے تو اس نے کہا اچھا توسنو ہم شاہ ایران کی محافظ اور سرپرست ہیں۔ ہم اس لئے رو رہی ہیں کہ کل صبح بادشاہ نے مر جانا ہے۔یہ سن کر رومی سناٹے میں آ گیا اورپوچھا کیا بادشاہ کے بچنے کی کوئی صورت نہیں ۔اگر وہ اپنی بے شمار دولت میں سے ایک خطیر رقم خیرات کر دے تو کیا بچ نہیں سکے گا۔جواب ملا نہیں۔صدقہ خیرات سے اس کی جان بچنے والی نہیں۔رومی نے پھر پوچھا کوئی تو ایسی صورت ہوگی جس سے بادشاہ کی جان بچ جائے۔ عورت نے بتایا کہ ایک صورت ہے۔وہ کیا ‘ رومی نے بیتابی سے پوچھا۔ایک بڑی قربانی، صرف انسانی جانوں کی قربانی،بادشاہ کی جان بچا سکتی ہے۔معمر عورت نے جواب دیا۔رومی نے کہا ، کس کی قربانی بتاؤ مجھے۔ عورت نے کہا اگر کوئی شخص بادشاہ کی جان بچانے کی نیت سے اپنے دو بیٹوں کو یہاں لاکر ذبح کر دے تو بادشاہ کے سر سے یہ بلا ٹل جائیگی۔

یہ سن کر رومی واپس مڑا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ بادشاہ بھی اسکے پیچھے ہو لیا۔ گھر پہونچا تو اسکی بیوی بچے دروازہ اندر سے مقفل کرکے سو چکے تھے۔ رومی نے دروازہ بہت کھٹکھٹایا لیکن گھر والوں کی نیند بہت گہری تھی۔رومی چھت پر چڑھ گیا اور آتش دان کی چمنی میں منہ ڈال کر آوازیں دینی شروع کر دیں ۔ بادشاہ بھی چھت پر آگیا اور ایک اوٹ میں چھپ کر کھڑا ہو گیا۔آخر کار بیوی تک رومی کی آواز پہنچ گئی اور اس نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔رومی چھت سے نیچے اتر آیااور بیوی کے ساتھ گھر کے اندر چلا گیا۔ بادشاہ چھت پر ہی ٹھہرا رہا اور چمنی سے میاں بیوی کی گفتگو سننے لگا۔ بیوی نے پوچھا ، تم اپنا کام پورا کیے بغیر کیوں آ گئے۔رومی نے اسے تمام ماجرا سنایا اور کہا میں دونوں بیٹوں کو لینے آیا ہوں تاکہ اپنے محسن کی جان بچانے کے لئے انہیں قربانی کے لئے پیش کردوں۔کیا تم بھی اس قربانی کے لئے تیار ہو؟ بیوی نے کہا بیشک میں تیار ہوں ۔ بادشاہ کا احسان اتارنے کا اس سے اچھا موقع کون سا ہوگا۔

رومی اور اسکی بیوی نے اپنے دونوں بیٹوں کو جگایا، منہ ہاتھ دھلا کر ان کو اچھے کپڑے پہنائے اور ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر قربان گاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ بادشاہ بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔آہ و زاری کرتی ہوئی تینوں عورتوں کے پاس پہنچ کر رومی نے کہا ،میں اپنے دونوں بیٹوں کو قربانی کے لئے لے آیا ہوں ۔ اب بتاؤ کیا کرنا ہے۔ بڑی عمر کی عورت نے اسکے ہاتھ میں ایک چھرا تھما دیا اور کہا کہ اپنے بڑے بیٹے کو زمین پر لٹا کر ذبح کردو۔ رومی نے بیٹے کو زمین پر لٹایا اور اسکی گردن پر چھرا چلا دیا۔لیکن چھرے سے بیٹے کی گردن نہ کٹ سکی۔ رومی نے دوبارہ اور سہ بارہ پھر کوشش کی لیکن گردن پر خراش تک نہ آئی۔وہ عورت آگے بڑھی اور چھرا اس کے ہاتھ سے لیکر کہنے لگی،تمہاری قربانی قبول ہوئی اسے چھوڑ دو اور دوسرے بیٹے کی قربانی دو۔ رومی نے عورت کے ہاتھ سے چھرا لیا اور چھوٹے بیٹے کو زمین پر لٹا کر اسکی گردن پر چھرا چلا دیا۔ پھر ویسے ہی ہوا، چھرے نے تینوں بار اس لڑکے کی گرد ن بھی نہیں کاٹی۔عورت نے رومی کو مخاطب کرکے کہا ، اسے چھوڑ دو یہ قربانی بھی قبول کر لی گئی ہے ۔مبارک ہو بادشاہ کی جان بچ گئی ہے۔ بادشاہ کہیں کونے میں کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔رومی خوشی خوشی اپنے بیوی بچوں کو لیکر گھر آگیا اور انہیں وہاں چھوڑ کر اپنے پہرے پر واپس چلا گیا۔ بادشاہ پیچھے آرہا تھا ۔وہ بھی لٹکتی رسی سے چڑھ کر اپنے محل چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد بادشاہ نے اپنی بالکونی سے جھانک کر پوچھا، کیوں بھئی رونے والوں کی خبر لینے کون گیا تھا اور اب رونے کی آوازیں سنائی نہیں دے رہیں تو کیا وہ واپس آگیا ہے اور کیا خبر لا یا ہے۔پہریداروں کے افسر اعلی نے عرض کیا کہ رومی کو بھیجا تھا وہ واپس آگیا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو خدمت میں پیش کروں۔ بادشاہ نے کہا اجازت ہے۔ رومی آگے بڑھا اور عرض کیا۔جہاں پناہ میں ہی گیا تھا رونیوالوں کی خبر لانے۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کچھ لوگ آپس میں جھگڑرہے ہیں اور انکی عورتیں رو رہی ہیں۔ میں نے بیچ بچاؤ کرکے ان کی لڑائی ختم کی اور انہیں ان کے گھروں کو بھیج کر لوٹ آیا۔ بادشاہ یہ سن کر مسکرایا اور سونے کیلئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ کافی دیر لیٹ کر کچھ سوچتا رہا اور بالآخر سو گیا۔

صبح اٹھتے ہی شاہ ایران نے دربار لگایا اور اپنے وزراء ،امراء اور تمام چھوٹے بڑے درباریوں کو حاضر ہونے کا حکم صادر کر دیا۔جب سب لوگ حاضر ہو گئے اور کورنش بجا لاکر اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تو بادشاہ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’ کل رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ تین عورتیں زاروقطار رو رہی ہیں۔ میں کہ ایک عام شہری کے بھیس میں تھا ، انکے قریب گیا اور پوچھا ،کیوں رو رہی ہو۔کیا میں تمہارے لئے کچھ کر سکتا ہوں۔ پہلے تو وہ خاموش رہیں پھر میرے بے حد اصرار پر کہنے لگیں،ہم شاہ ایران کی سرپرست اور محافظ ہیں۔آج بادشاہ کی زندگی کی آخری رات ہے۔کل صبح وہ مر جائیگا۔ میں پریشان سا ہو گیا اور کہا کیا اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔اگر بادشاہ اپنے دھن دولت کا ایک بڑا حصہ غریبوں میں بانٹ دے تو کیا وہ بچ جائے گا۔ جواب ملا نہیں ہرگز نہیں، صرف ایک صورت ہے کہ اگر کوئی شخص بادشاہ کی خاطر اپنے دو بیٹوں کی جان کی قربانی دے سکے تو وہ بچ جائیگا۔آپ لوگوں کو یہاں جمع کرنے کا مقصد اپنا خواب بیان کرنے کے علا وہ یہ بھی پوچھنا ہے کہ اگر سچ مچ ایسی صورت حال پیش آ گئی تو آپ لوگ کہاں تک میرا ساتھ دینگے۔دربار میں سناٹا چھا گیا۔ کسی سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ آخر کار ایک وزیر کھڑا ہوا اور بادشاہ کو مخاطب کر کے کہنے لگا، حضور انور! ہم آپ کے لئے اپنی تمام دولت اور جائیداد دے سکتے ہیں لیکن اپنے بیٹوں کی جان کا نذرانہ نہیں پیش کر سکتے۔یہ سن کر بادشاہ بہت آزردہ خاطر ہوا اور درباریوں کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا۔

اب شاہ ایران غریب رومی کو مخاطب کرکے کہنے لگا’ اے رومی آفرین ہے تم پر ۔تمہیں میری کفالت میں آئے ابھی صرف چند روز گزرے ہیں اور تم میری جان بچانے کی خاطر اپنے دونوں بیٹوں کی قربانی دینے چل کھڑے ہوئے۔تم نے ان کی گردن پر چھرا چلا دیالیکن خدا کے حکم سے ان کی گردنیں نہیں کٹیں۔ادھر برسہا برس سے میرا نمک کھانے والے میرے وزیر ،امراء اور دیگر اکابرین جو ہر وقت میری خیر خواہی کا دم بھرتے نہیں تھکتے، انہیں میرے مرجانے کی کوئی پرواہ نہیں۔ان میں ا پنے بادشاہ کیلئے کسی قسم کی جانی قربانی دینے کا حوصلہ نہیں۔اور سچ پوچھو تو وقت آنے پر یہ اپنی دولت سے بھی دستبردار نہیں ہونگے۔اپنا منہ پھیر لینگے۔

تم قابل ستائش اور قابل داد ہو۔ آج میں تمہیں تمہاری بے لوث قربانی کے صلہ میں اپنا وزیر اعظم مقرر کرتا ہوں ۔یہ کہ کر بادشاہ نے اسے گلے سے لگایا اور خلعت فاخرہ سے نوازا۔اس خلعت کے ساتھ اسے ایک وسیع جا گیر بھی عطا کی۔شاہ اور وزیر اعظم رومی نے کئی برس ایران پر حکومت کی۔ ان کا دور حکومت عوام کیلئے خوشیوں اور خوشحالی کا پیغام لایا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button