کالمز

کیا ہے میری پہچان؟

شازیہ غازی 

Shazia Ghaziموجود ہ گلگت بلتستان اور سابق آزاد ریاست بلور کی سر زمین سے آج ایک بیٹی ۱پنی متنازعہ دھرتی کے عوام سے مخاطب ہے۔اس خطے کو آج بھی شمالی علاقہ جات یا کچھ نام نہاد دانشورشمالی پاکستان کے نام سے جانتے ہیں۔یہ خطہ تاریخ میں بلور (Bolor) کے نام سے ایک آزاد اور خودمختار ریاست رہ چکا ہے ۔ لفظ بلور کو بگاڑ کر اب کچھ لوگ بلورستان یا بلاورستان بھی کہتے ہے۔ابتدائی تعلیم سے ہی ہمیں پاکستان کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس کی وجہ سے نوجوان گلگت بلتستان کی تاریخ سے نا آشنا ہیں۔ اس خطے پر 68 سالو ں سے قابض ریاست پاکستان کے تعلیمی نصاب میں کہی بھی موجود ہ گلگت بلتستان کی حقیقی جغرافیائی اہمیت ،یہاں پر موجود ہر قسم کے قدرتی وسائل اور تاریخ کا ذکر نظر نہیں آتا۔ 

بدقسمتی یہ ہے کی یہاں کے عوام اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کی یہ ایک متنازعہ خطہ ہے  اس سچائی سے اختلاف کرتے ہیں ۔آخر کیوں آج اس خطے کے غیور عوام سچائی کو چھپا رہے ہیں۔ جبکی ہمارے پاس وہ ثبوت موجود ہیں جس سے پوری دنیا سابت کر رہی ہیں کی ہم آج بھی محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔جو کی مندرجہ ذیل ہیں۔

1)پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 1 کے مطابق گلگت بلتستان پا کستان کا حصہ نہیں۔ 

(2پاکستانی قوانین کے رو سے پاکستان کی شریت ایکٹ گلگت بلتستان میں نافذ نہیں ہے یعنی گلگت بلتستان میں پاکستان کے عدالتوں کا کو ئی دائرہ اختیار نہیں ہے۔اس کا مطلب پاکستان کے آئین کے رو سے گلگت بلتستان میں پاکستانی نظام کے تحت چلنے والی تمام عدالتین غیرقانونی اور غیر آئینی ہیں۔

3)سپریم کورٹ آف پاکستان پی ایل ڈی 1966صفہ88 کے مطابق گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ قرار دینا غلط ہے۔

4)اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاک و ہند(UNCIP)کی 13اگست1948کی قرار داد کے مطابق گلگت بلتستان اسی طرح متنازعہ علاقہ ہے جس طرح جموں و کشمیر۔جموں وکشمیر کے سیاسی مستقبل کا حتمی فیصلہ ہونے تک گلگت بلتستا ن اور جموں وکشمیر کو پاکستان یا انڈیا کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس سے ہٹ کر اگر ہم عملی مثالیں دیکھیں تو نہ ہمیں سینیٹ میں اور نہ قومی اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہے۔ہاں ہمیں شناختی کارڈ ضرور پاکستانی شہری کا دیا جاتا ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔

گلگت بلتستان جغر افیائی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس خطے میں موجود بے شمار قدرتی وسائل کے ذخائیر بہت سامراجی قوتوں کو اپنی طرف کھنچتی ہیں۔ یہ قوتیں اس سر زمین میں موجود وسائل کو ہتھیانے کے پر زور کوششوں میں لگے ہیں۔ جس کے لئے کبھی NGO’sکے نام پر ہماری سر زمین میں اپنا قدم جمانے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی یہاں کے قابل اور با صلاحیت طالب علموں کو سکالرشپس کے نام پر گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے زیادہ تر لوگ خود کو آج بھی آزاد سمجھتے ہیں جو ان کے مفاد پرستانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے اور بڑی خوشی سے 14 اگست مناتے ہیں۔ ہم بیشک ریاست پاکستان کے خلاف نہیں ہیں مگر ہم پاکستانی بھی نہیں ہیں۔ ہمارے نو جوانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ہم سب کو 68 سالوں سے ہونے والا قومی جبر سے واقف ہونا ہوگا۔ کسی ملک کے عام عوام سے ہمدردی اور ان کے خوشیوں میں شامل ہونا بری بات نہیں ہے لیکن ساتھ ساتھ اپنی محرومیت کا اندازہ ہونا چاہیے۔ شرمناک بات تو یہ ہے کہ حق کی لڑائی لڑنے والے اور اپنی پہہچان کو سمجھنے کا درس دینے والوں کو Anti-Stateکا خطاب دیا جاتا ہے اور انعام کے طور پر اُن کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔اس سے بھی بڑھ کر مایوسی تب ہوتی ہے جب گلگت بلتستان کے تعلیم

یافتہ نوجوان بھی ان تمام حقائق کو جانتے ہوئے بھی کم از کم آزادی اظہار کا فائدہ نہیں اٹھاتے اور نہ ہی قلم کے ذریعئے اپنی محرومیوں کا اظہار کرتے ہیں۔ستم ظرفی تو یہی ہے کی یہاں کے نوجوان وفاقی پارٹیوں کا حصہ بن کر فخر محسوس کرتے ہیں۔شاید وہ اس حقیقت سے نا آشنا ہیں کہ یہ پارٹیا ں غیر قانونی طور پر سیاست کر رہے ہیں۔ لہذا یہاں کے نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنی حقیقت کو پہچانے اور اپنی شناخت اور حقوق کے لئے جدوجہد کریں ۔دانشور اور سیاستدان اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر گلگت بلتستان اور عوام کے مفاد کے لئے جدوجہد کرے۔ ریاست پر دباو ڈالنا ہوگا کی ہمارے نصا ب میں گلگت بلتستان کی حقیقی تاریخ شامل کرے تاکی آنے والی نسل اس حقیقت کو جان سکیں۔

امیر شہر سے کہہ دو مجھے آئین دے ورنہ
کسی دن لے کے ڈوبینگے تمہیں محرومیا ں میری
(جمشید خان دکھی)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button