کالمز

فرقہ واریت ایک سماجی کینسر؟ 

تحریر: محمد حسین (پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر)

اس وقت پاکستان سمیت زیادہ تر مسلم معاشروں کے سماجی مسائل میں سے ایک بنیادی اور اہم مسئلہ ’’فرقہ واریت‘‘ ہے۔ واضح رہے، مختلف سماجی گروہوں کے درمیان مقدس مذہبی مصادر کی تعبیرات و تشریحات، تاریخی واقعات و کرداروں کے استناد، عبادت گاہوں اور درسگاہوں کے انتظام و انصرام، اسی طرح مختلف تنظیموں اور جماعتوں  میں علمی یا عملی اختلاف کا نام فرقہ واریت نہیں ہے ، بلکہ فرقہ واریت ایک سماجی رویہ ہے، اور اس سے مراد کسی مذہبی و مسلکی شناخت کی بنیاد پر سماج کے مختلف گروہوں میں ایسی تقسیم جو باہمی منافرت اور پُرتشدد تنازعات پر منتج ہو۔

فرقہ واریت کے اسباب علمی اور مذہبی سے زیادہ سیاسی اور سماجی ہیں۔ فرقہ واریت کا بنیادی سبب گروہی شناخت ہے۔  شناخت یعنی انسان کا اپنے بارے میں وہ تصور ذات جو اسے دوسروں سے منفرد بناتا ہے۔ ہر وہ چیز جس کو انسان اپنی طرف نسبت دیتا ہے وہ شناخت کا حصہ ہے۔ اسی طرح کسی مشترکہ مسئلہ/امر (سماجی، سیاسی، مذہبی، کاروباری وغیرہ) کی بنیاد پر افراد کے درمیان گروہی شناخت تشکیل پاتی ہے۔اگرچہ شناخت ایک نظریاتی معاملہ ہے،  تاہم اسے سیاسی و سماجی مفادات کے لیے بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔  چنانچہ انسان اپنی شناخت کو لاحق ممکنہ خطرات سے بچانے، اپنی شناخت کو دوسری شناختوں پر برتر اور بہتر ثابت کرنے، اسے فروغ دینے اور اسے دوسروں پر تسلط دینے کے لیے اکثر اوقات جذباتی رویوں، فیصلوں، غم و غصہ، تعصب،  بلاثبوت الزام تراشی،   بدعنوانی اور جنگ و جدال اور قتل و قتال سے کام لیتا ہے۔

اگرچہ اسلام ایسا دین ہے جس کی بنیاد وسعت و رحمت (رب العالمین اور رحمت للعالمین و غیرہ) پر قائم ہے اور اس کی تعلیمات روئے زمین پر انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے   بہت زیادہ تاکید کرتی ہیں ، تاہم مسلم معاشروں میں فکری و قلبی وسعت، مروت و ہمدردری، مودت و محبت، رواداری و بردباری، صداقت، حسن ظن وچشم پوشی، معافی و رحمدلی جیسی اعلیٰ انسانی و اسلامی اقدار و اخلاقیات زبوں حالی کا شکارہوتی جارہی ہیں۔ جب کہ فرقہ وارانہ رجحانات کی وجہ سے تعصبات نے آنکھوں کو اندھا، کانوں کو بہرا اور دل و دماغ کو ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز جذبات سے زہر آلود کر دیا ہے۔

اس سلسلے میں فرقہ وارانہ مفادات کے دفاع کے لیے جائز و ناجائز، اچھے اور برے، عدل و ظلم، سچائی و جھوٹ کے جملہ میازین اور معیارت بدل گئے ہیں۔ چنانچہ فرقہ وارانہ فسادات میں زیادہ تر بے گناہ لوگ ہی ظلم و بربریت کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ عدل و انصاف اور عقل و شعور کے خلاف ہے کہ ظلم کرے کوئی اور اس کی سزا بھرے کوئی۔ یہ بھی یاد رکھ لیا جائے کہ دوسروں سے بلاوجہ نفرت، تعصب اور ان پر ظلم و زیادتی کا جواب اور حساب اللہ تعالیٰ کے حضور ہم نے انفرادی طور پر دینا ہے۔ وہاں نہ سفارش چلے گی، نہ پیسہ اور نہ ہی دباؤ۔ کسی بھی سیاسی اور مذہبی مفاد کا بہانہ بھی اس کے سامنے نہیں چلے گا۔

چونکہ  فرقہ وارانہ فسادات کو اسلامی اصطلاحات کے لبادے میں بیان کیا جا تا ہے، اس لیے یہ زیادہ نقصان دہ ہے کیونکہ تقدس کے لبادے میں کیا جانے والے تشدد سے جتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے اتنا کھلی جارحیت سے بھی نہیں پہنچتا کیونکہ تقدس کی صورت میں ثواب اور خدا کی خوشنودی کے حصول کے لیے تشدد کیا جاتا ہے جبکہ کھلی جارحیت کی صورت میں پھر بھی احساس گناہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے مذہبی تنازعات اور جنگوں کے جائزے سے اس بات کی تصدیق آسانی سے کی جا سکتی ہے۔

 مسلم معاشروں میں جاری فرقہ وارانہ قتل و غارت کا جائزہ لیاجائے تو آپ دیکھیں گے کہ آپس میں باہم نبرد آزما ہر فریق یا گروہ صرف  اپنے آپ کو حق و سچ اور باقی سب کو باطل اور گمراہ قرار دیتا ہے۔ ہر  دو فریق باہمی قتل و قتال کو جہاد، دفاع، اور مقدس ترین فریضے کا نام دیتا ہے، اور اس میں حصہ لینے والوں کو مجاہد، جان دینے والوں کو شہید، بچ جانے والوں کو غازی، اسی طرح مد مقابل کو گمراہ، کافر، زندیق، مرتد، گستاخ، دشمنِ دین وغیرہ قرار دیا جاتا ہے، نیز لوٹے ہوئے مال کو غنیمت قرار دیا جاتا ہے۔  فرقہ وارنہ عصبیت کا شکار فرد اپنے ہر عمل کو  حق کی بالادستی اور باطل کی کمزوری کے لیے قربانی قرار دیتا ہے۔

اس سے قطع نظر کہ معاصر فرقہ وارانہ فسادات  پران اسلامی اصطلاحات کا اطلاق کس حد تک درست ہے،  یہ واضح ہے کہ ایسے فرقہ وارانہ رجحانات سے ایک طرف انسانی حقوق کی پامالی کے علاوہ سماجی الجھنیں مزید بڑھتی جاتی ہیں اور دوسری طرف یہ مسلمان قوم اور اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔

 فرقہ واریت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پہلے غلط العام تصورات کی تنسیخ  کر کے نئے تناظر سے اسے دیکھنا ہوگا۔

ایک غلط العام تصور یہ ہے کہ  فرقہ واریت کا مطلب فرقہ وارانہ اختلافات  ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے  فرقہ وارنہ اختلاف اور فرقہ واریت دو مختلف مسائل ہیں۔   دیگر اختلافات کی طرح فرقہ وارانہ اختلافات بھی کافی حد تک ایک فطری  اور قابل قبول  امر ہے۔

ایک عام تصور یہ ہے فرقہ واریت کا مطلب شیعہ سنی فساد  ہے۔ نہیں بلکہ فرقہ واریت کسی بھی  دو مذہبی و  مسلکی گروہ میں ہو سکتی ہے۔

فرقہ واریت کے مطلب  کو  دو مسلم ممالک (مثلا سعودی-ایران)  کے  ریاستی ترجیحات اور پالیسوں میں ٹکراؤ   کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ لہذا فرقہ واریت   سے ڈیل کرتے وقت کسی دوسرے ملک کے مفادات سے زیادہ ہمارے اپنے ملک کے مفادات اور سلامتی کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔

فرقہ واریت  کو عام طور پر ایک مذہبی ،  علمی یا  سکیورٹی  مسئلہ سمجھا جاتا ہے جو کہ بالکل غلط ہے کیونکہ فرقہ واریت  علمی، مذہبی، سکیورٹی ا ور انتظامی مسئلہ سے زیادہ  ایک سماجی و سیاسی مسئلہ ہے، اسے سماجی تعامل اور سیاسی شعور سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

فرقہ واریت ایک  جدید اور وقتی  مسئلہ ہے اور صرف ہمیں درپیش ہے، ایسا خیال بھی غلط ہے  ، کیونکہ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے،تاریخ کے طول و عرض میں تقریباً ہر قوم نے فرقہ واریت کا سامنا کیا ہے۔  لہٰذا اس کے مستقل حل کے لیےٹھوس  ادارتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک غلط تصور یہ بھی ہے کہ فرقہ واریت انتہاپسندی، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی طرح کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ جبکہ فرقہ واریت  ایک سماجی کینسر ہے جو انتہاپسندی  دہشتگردی اور عسکریت پسندی کو جنم دیتی ہے۔

فرقہ واریت کے اس کینسر سے اپنے سماج کو بچانے کے لیے صرف حکومتی اقدامات پر  انحصار کرنے کے بجائے ہر ذمہ دار شہری اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

محمد حسین

محمد حسین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ دینی تعلیم کے علاوہ ایجوکشن میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں ، ایک ماہر نصاب کے طور پر اب تک بارہ کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کیا ہے۔ ایک پروفیشنل ٹرینر کی حیثیت سے پاکستان بھر میں مختلف درسگاہوں اور مراکز میں اب تک ایک ہزار سے زائد اساتذہ، مختلف مسالک و مذاہب سے وابستہ مذہبی قائدین اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں کو فن تدریس، ، قیادت، امن، مکالمہ، حل تنازعات، نصاب سازی ، تعصبات اور مذہبی ہم آہنگی جیسے مختلف موضوعات پر پیشہ ورانہ تربیت دے چکے ہیں۔ ریڈیو ، ٹی وی اور ویب سائٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button