کالمز

قراقرم یونیورسٹی اور یوم حسین

چند روز پہلے قراقرم یونیورسٹی گلگت  میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔چند نامعلوم طلبا جن کی تعداد  تقریباً پندرہ کے لگ بھگ تھی ایک پروفیسر کے  آفس میں گھس گئے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔  اس واقعے  کے چشم دید گواہ تو پروفیسر صاحب خود ہی ہیں جنہوں  نے بعد میں اپنی ایک درخوست کے ذریعے یہ بتایا ہے کہ  ان پر حملہ کرنے والے افراد کا تعلق ایک طلبا تنظیم سے ہے۔۔اس واقعہ کے فوراً بعد طلبا تنظیموں جس میں تمام مکاتب فکر کے طلبا شامل تھے اس واقعے کے خلاف  احتجاجی مظاہرہ کیا اور اس میں  شامل شرپسندوں کے خلاف فوجی ایکشن پلان  کے تحت کاروائی کا مطالبہ کیا۔۔وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان جناب حافظ حفیظ الرحمان  نے بھی واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ  یونیورسٹی میں پیش آنے والے نا خوشگوار  واقعے میں  ملوث افراد کے ساتھ سختی سے نمبٹا جائیگا۔۔۔

یہاں یہ بات بھی بڑی خوش آئند ہے کہ مسلم لیگی عہدادران اور طلبا تنظیموں کی دوراندیشی  اور حکمت عملی سے اس واقعے کو ٹھنڈا  کرنے  میں  بڑی مدد ملی۔۔

یونیورسٹی کا یہ واقعہ پہلا واقعہ نہیں  اس سے پہلے بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا  جس میں انسانی جان کا ضیاع ہوا تھا اور گلگت کی فضا سوگوار ہوئی تھی۔ اس واقعے کا بھی اگر تجزیہ کیا جائے تو  پچھلے واقعے اور  اس میں سو فیصد مماثلت پائی جاتی ہے۔۔یعنی پہلے فساد یونیورسٹی میں اور اس کے بعد ڈگری کالج گلگت میں ۔یہ تمام باتیں اپنی جگہ  اخر ایسی کونسی بات ہے یا ایسی کونسی قیامت ٹوٹ پڑی کہ  ایک استاد اپنے شاگردوں کے ہاتھ  زود کوب ہوا؟

یہ بھی ایک المیہ ہے ہمارے معاشرے کا۔۔۔حکومتی  ادارے اور پولیس جو تفتیش   کر رہی ہے  یا اب تک  اس کیس میں جو پیش رفت ہوئی ہے اس سے ہٹ کر   سوچنے والی بات یہ ہے کہ  ۔۔یوم حسین مذہبی تقریب   جو پہلے  وجہ تنازعہ تھی اس کے معملات بڑے  احسن طریقے سے   نمٹا دئے گئے تھے اور باہمی  افہام و تفہیم سے اس دفعہ  اس مذہبی تقریب کو  مشترکہ طور سے منانے کا فیصلہ کیا گیا اور  تمام مکاتب فکر کے طلبا نے  بڑے پیار و محبت سے  یوم حسین بعنوان فلسفہ شہادت  اکھٹا منایا اور گلگت کی فضا کو امن او آشتی کا ایک بہترین پیغام دیا جس  کی وجہ سے  گلگت کے تمام باسی  خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔۔۔

لیکن اس کے دو دن بعد ہی  یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آنا ۔ان تمام قیاس آرائیوں  اور شہبات کو  یقین میں بدل دینے  کے لئے کافی ہے کہ  علاقے میں  چند شرپسند ایسے ہیں  جن کو   یہاں  کے باسیوں  کا مل جل کر رہنا پسند نہیں ۔۔۔ایک طبقہ تو یہاں تک کہہ رہا ہے کہ جب بھی گلگت بلتستان  کے آئنی مسلے کی بات ہوتی ہے اس قسم کے واقعے  گلگت مین رونما  کئے جاتے ہیں  اور  یونیورسٹی کے واقعے کو   ایک خونی سازش قرار دیتے ہیں  جس کے تحت گلگت کے امن کو ثبوتاز  کیا جانا تھا۔۔

ان باتوں میں کہاں تک صداقت ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے  ۔لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم اس کو سازش قرار دیکر چپ سادھ لیں۔۔مذہب اسلام ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے اور اسلام  امن و سلامتی کا دین ہے اور اسلام کے پیروکار  دہشت گردی  اور تشدد  کو کبھی پسند  نہیں کرتے۔۔بات ہو رہی تھی یورسٹی میں یوم حسین   کے حوالے سے  جس کو منعقد ہوئے دو تین دن گزر گئے تھے ۔۔تو پھر یونیورسٹی میں  فساد اور جھگڑا کس بات کا ہوا؟

جو معلومات مجھ تک پہنچی ہیں ان کو سن کر میں تو سر پیٹ کر رہ گیا ۔۔کیا یونیورسٹی میں پڑھنے والے بھی  رجعت پسند ہو سکتے ہیں؟ حالانکہ جدید تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے اپنے آپ کو ترقی پسند اور  دینی مدرسوں میں پڑھنے والوں کو رجعت پسند سمجھتے ہیں  اسی حوالے سےگلگت بلتستان کی واحد اور اکلوتی یونیورسٹی میں  ایسے رجعت پسندوں کا پایا جانا  لحمہ فکریہ بھی ہے اور  اس کے سد باب  کے لئے  حکمت عملی اور  اقدامات کی ضرورت بھی ہے۔

راقم  نے اس واقعہ کے بارے بہت جانچ پڑتال کی ہے  اور  اس بارے نجی محفلوں میں  اور تقریبات میں  یونورسٹی سے تعلق رکھنے والے  طلبا و اسا تذہ سے تبادلہ خیالات کیا ہے، جس میں  تمام مکاتب فکر کے لوگ شامل تھے ۔  ان کے مطابق     ان رجعت پسند  اور شر پسندوں کا کہنا یہ تھا کہ انہیں  یوم حسین دوبارہ منانے کی اجازت دی جائے ۔اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوم حسین جس کو   پہلے  بھائی چارے کی فضا میں منایا گیا دوبارہ منعقد کرنے کی وجہ ۔۔اور جو وجوہات  میں نے  حاصل کی ہیں  ان وجوہات کا ذکر نہ   کرنا  ہی   بھلائی ہے۔

لیکن  ایک سوال قارئین  سے کرنا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی   بھی سرکاری یا نجی  ادارہ  اس بات کا  متحمل  ہو سکتا ہے کہ  وہ پسند اور نا پسند سے  مذہبی اور سیاسی تقریبات  منعقد کراسکے یاہر شخص یا فرد  کے مطابق اپنا پروگرام ترتیب  دے  ؟۔آپ بھی مجھے سے اتفاق کرئنگے کہ ایسا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ  ہر ادارے کا اپنا ایک شیڈول ہوتا ہے اور اس شیڈول کے تحت سب کو ساتھ لیکر آگے بڑھنا ہوتا ہے خاص کر تعلیمی اداروں میں تو بڑی احتیاظ کی ضرورت ہوتی ہے۔۔اس کے علاوہ دہشت گردی کو فرقہ ورانہ ہوا دینا بھی دہشت گردی کے مترادف ہے۔

قراقرم یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا اسے ہر امن پسند  شہری ایک کھلی دہشت گردی اور  گلگت   کے امن امان کو سبوتاز کرنے کی  سازش ہی قرار دیتا ہے ۔دہشت گرد کوئی بھی ہو چاہئے اس کا تعلق کسی بھی  مکتب فکر سے ہو دہشت گرد ہے۔۔۔۔مجرم کوئی بھی ہو اسے ضرور سزا ملنی چاہئے۔۔۔اب اسے حکومتی اور انجنسیوں کے کھاتے میں ڈالنا اپنی نمبرداری اور مجرموں کی پشت پناہی کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔۔اور جو لوگ اسے مذہبی رنگ دیکر علاقے میں آگ لگانا چاہتے ہیں وہ بھی دہشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔۔۔۔اس لئے علاقے میں بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھنے اور اتحاد کے بڑھاوے کے لئے ضروری ہے کہ سب مل کر یہ مطالبہ کریں کہ اس کیس میں جو بھی مجرم ثابت ہو انہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔۔۔۔پھر بات بنے گی نہیں تو آنے والے وقتوں میں اس کا خمیازہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو ہی بھگتنا پڑے گا، ۔۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس کو مذہب کے رنگ میں ڈالنے والوں میں مذہبی جماعتوں اور مذہبی رنگ رکھنے والوں سے زیادہ اپنے آپ کو لبرل اور آزاد خیال کہنے والوں کی اکثریت دکھائی دے رہی ہے ۔حالانکہ قراقرم یونیورسٹی کی انتظامیہ نے صاف اور دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ  قراقرم یونیورسٹی کا واقعہ کھلم کھلا دہشت گردی ہے اسے مذہبی رنگ نہ دیا جائے……اسی میں سب کی بھلائی ہے۔۔خدا ہماری حالت پہ رحم فرمائے۔ آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button