کالمز

رَحمتہً لِّلْعَالَمِینْ

 الواعظ نزار فرمان علی

"(اے رسول)! ان سے کہہ دو کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کروتو پھر خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے”(القرآن)

رحمۃً مّنِ اللہ، شفیعنا عندِ اللہ، وَلیِ اللہ، خیر خلق اللہ، نور عرش اللہ، مِراٰۃ جمال اللہ، خیارالاصفیآء، خاتم الانبیاء، مَھبطِ وحیّ اللہ، امام القبلتین ، حبیب اللہ، صاحب صدق والصّفآء، صاحب الشّفاعۃ، صاحب النّبوۃ، جدّ الحسَن و الحسیَن،سیّدِ الانّام، مصباح الظّلام،سیدالکونین،اَبا الایتام،حبیب الفقراء،انیس الغرباء ،بنی التقیٰ،نبی الرّافی،شفیع المذنبین اور بنی الرحمۃ کی آمد کا ماہ مبارک باسعادت۔ ارض و سما کی تمام دیدنی و نا دیدنی مخلوقات بالخصوص انسانیت و امت کے لئے اللہ تعالیٰ کی بے پا یاں دینی و دنیاوی نعمتوں ، رحمتوں ، بر کتوں ، مسرتوں ، نصرتوں و کا مرا نیوں سے تا قیامت مستفید و فیضاب ہو نے کی نو ید و قطعی برہان ہے ۔ سر ور کو نین ،سردار رسُل ،ہادی سُبل ، امام جز وکل، محسن انسانیت ،شفیع محشر ، حبیب خدا ، خاتم النبییں ، رحمت اللعٰلمین حضرت محمد مصطفی ؐ کی ولادت با عظمت شعب بنی ہاشم بمقام مکہ معظمہ ہوئی ۔آپ ؐ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنت وہب،آپ ؐ کے والد ماجد حضرت عبداللہ ولادت سے کچھ ماہ قبل وفات پاچکے تھے۔آپ ؐ کے دادا جان حضرت عبدالمطلب نے آپ ؐ کانام مبارک ’’محمدؐ ‘‘ تجویز کیا۔آنحضرتؐ کی ولادت کے ساتویں دن حضرت عبدالمطلب نے تقریب عقیقہ منعقد کرکے قریش کو مدعو کیا جب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے حضرت عبدالمطلب سے پوچھا کہ آپ نے اس مولود کا کیا نام رکھاہے؟ جس کی ولادت کی خوشی میں ہم کو مدعو کیا ہے۔حضرت عبدالمطلب نے فرمایا ’’ محمّد ؐ ‘‘لوگوں نے کہا ویسا نام کیوں نہ رکھا جیسے اب تک اس گھرانے میں ہوتا آیا ہے۔حضرت عبدالمطلب نے فرمایا میں نے اس نیت سے یہ نام رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بچے کو آسمانوں میں ممدو ح فرمائیں اور زمین پر مخلوق خدا اس کی مداح ہو۔چنانچہ منشاء ایزدی سے نبی کریم ؐ کی ذات گرامی صفات خداوندی کا مظہر بن گئے اور اللہ رب العزت نے ہر مقام پر اپنے اسم مقدس کے ساتھ آپ ؐ کے نام نامی کو قرار دیا۔اس کی عظیم مثال کلمہ طیبہ میں جہاں توحید خداوندی کا اقرار ضروری ہے وہاں ذکر محمد ؐ بھی لازمی ہے۔اذان،اقامت و نماز میں جس طرح یہ گواہی بار بار دینا پڑتی ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اسی طرح یہ شہادت بھی دہرانا پڑتی ہے محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔پس اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا و خوشنودی سے ذکر نبیؐ کو نہایت عظمت و بزرگی بخشی۔

تو مقصد تخلیق ہے،تو حاصل ایماں جو تجھ سے گریزاں ہے وہ خدا سے ہے گریزاں

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتاہے ’’ اور ہم نے تمہارا (محمد ؐ)ذکر بلند کردیا ہے‘‘ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے ’’ بے شک اللہ اور اس کے فرشتے محمدؐ پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درودو سلام بھیجو اور تسلیم کرو جیساکہ تسلیم کرنے کا حق ہے‘‘سبحان اللہ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صلواۃ کے ذریعے پوری کائنات کے سامنے آپ ؐ کی فضیلت و اہمیت ظاہر کی ہے،پھر ملائکہ کی صلوٰۃ سے مومنوں کو درود و سلام کے پڑھنے کا حکم دیا ،اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ سے رحمت خاصہ یعنی خصوصی فیوض و برکات ہیں جو درود بھیجنے کے نتیجے میں مومنوں کو نصیب ہوتے ہیں۔معانی لاخبارمیں ہے کہ امام جعفرالصادقؑ سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا توآپؑ نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ کی صلوات رحمت کا نازل کرنا ہے،فرشتوں کی صلوات اعلان طہارت و پاکیزگی ہے اور لوگوں کی صلوات دعا ہے‘‘۔ یقیناجہاں کہیں بھی آپ ؐ کے نام مبارک کا ذکر کیا جائے تو مسلمانوں پر درود شریف کا پڑھنا واجب ہوتاہے۔بحیثیت مسلمان جو بھی دیندار خواہ مرد ہو یا عورت،چھوٹا ہو یا بڑا اس درود پاک کو تعظیم و تکریم اور مصمم ایمان کے ساتھ پڑھنے سے بفضل خدا ہماری تمام دینی و دنیوی نیک امیدیں پوری ہونگی،بلائیں،آفتیں،مشکلات دور اور ہمت،حکمت اور نصرت و کامرانیاں نصیب ہونگی ۔امین۔نبی کریمؐ کا ارشادمبارک ہے ’’ جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے ملائکہ اس پر اس وقت تک درود بھجتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ مجھ پر درود بھیجتا رہے‘‘ آپ ؐ کا ایک اور فرمان مبارک’’ جو مجھ پر ایک بار درود بھجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار درود بھیجتا ہے‘‘ سبحان اللہ۔

آپ ؐ کے لئے زندگی پھولوں کی سیج نہ تھی پہلے والد پھر ماں اور بعد میں دادا کا سایہ اُٹھ گیا ۔عربوں میں یتیم نظر آنے والا عرب و عجم کا سہارا بن گیا،آپ ؐکا مدرسہ،کتاب ا ور استاد سے دور کا بھی واسطہ نہ پڑا اس لئے آپ اُمی یعنی ان پڑھ بھی کہلائے۔ بلاشبہ جس کا استاد خود خدائے دانا و بینا ہو اسے اکتساب علم کیلئے دنیوی سہارے کی ضرورت کہاں پڑھ سکتی ہے۔آپ ؐساری انسانیت کے معلم صادق کہلائے۔مغرب میں قائم دنیا کی مشہور یونیورسٹی لنکن ان قانون کی تعلیم کے لئے مشہورہے اس درس گاہ کے بیرونی داخلی دروازے پر محمدؐ ایک عظیم قانون سازلکھا جانایقیناانحضرتؐ کی ہمہ گیر شخصیت کا اثر ہے اغیار پر بھی جابجا پڑتا ہے ۔اسی طرح دنیا ئے علم و ادب کے مشہور مصنف مائیکل ہارٹ جب دنیا کے 100 موثر شخصیات کی فہرست تیار کرتا ہے تو وہ عیسائی ہونے کے باوجود موسیٰ و عیسیٰ ؑ یا سنٹ آگسٹائن ،فرائڈ،مدر ٹریساا ور گوتم بت کی تاریخ کو ایک طرف رکھ کرنبی پاک کی ذات اقدس کو سرفہرست قرار دیتا ہے۔جو علم و عمل ،کردار و اخلاق کی بنیاد پر بڑی سماجی و معاشرتی تبدیلی بپا کرنے والی صف او ل آپؐ ہیں جو دینی و دنیوی دونوں محاذوں پر کامیاب ہوئے۔

اگر ہم تاریخ عالم پر نظر ڈالیں تو بادشاہ بخت نصر نے پوری قوم بنی اسرائیل کو ستر سال غلام بنائے رکھا مگر اس کے باوجود وہ ان میں سے ایک دل کو بھی غلام نہ بنا سکا، رومیوں نے کیسے کیسے شہر آباد کیئے مگر دلوں کی اجڑی بستی کو آباد نہ کرسکے،سکندراعظم نے نصف دنیا فتح کر لی لیکن وہ ایک دل بھی فتح نہ کر سکا،قبل از اسلام ایرانیوں نے بابل کے ہزاروں انسانوں کو قتل کر دیا لیکن وہ روح کی ایک ظلمت کو بھی شکست نہ دے سکے بلاشبہ دنیا میں بڑے بڑے مادی صنعتی و فنی انقلابات آچکے ہیں جنہوں نے روئے زمین کو اپنے سحر میں گرفتار کرکے رکھا ہوا ہے۔لیکن اتنی بے پایاں مادی طاقت یہ نہ کرسکی کہ ایک انسان کو بھی اس کے خالق سے ملا دے حالانکہ وہ رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔جبکہ یہ ایک اٹل تاریخی حقیقت ہے آج سے چودہ سو سال قبل دنیا میں ایک عظیم و شان علمی،اخلاقی و روحانی انقلاب رونما ہوا جس نے تاریخ دھارا تبدیل کردیا جب کہ آپؐ کے انقلاب میں کسی بڑے جانی و مالی نقصان کا ذکر نہیں ملتا کیونکہ کہ آپؐ کے انقلاب کی روح شدت و سختی کی روح نہ تھی بلکہ آپ ؐ نے علم و حکمت اور اخلاق و کردار کے پاکیزہ قلم سے خشک و بیابان زمین کے سرکش و ضدی بدووں کو تہذیت و تمدن کی رفعتوں تک پہنچایا۔آپ ؐ کی آمد نے انسانی تاریخ کے قالب میں ربانی ہدایت کی روح پھونک کر حیات نو بخشی۔بگڑی ہوئی انسانیت کو مکارم اخلاق کے اعلیٰ پیمانے پر صورت گری فرمائی،زندہ درگور ہونے والی بچیوں کو معاشرے میں مساوی حقوق دلائے،غلامی کاطوق توڑ ڈالا ،جہالت کے پردے چاک کئے،جانی دشمنوں کو سگے بھائی سا بنا دیا،فردکو فرد کی اسیر ی سے آزاد کرکے خدائے واحد و بے نیاز کی بندگی کے بندھن میں دائیمی طور پر باندھ دیا۔تمام تر مروجہ نسلی،لسانی ،علاقائی،قبائلی و خاندانی امتیازات کو ملیامیٹ کرکے نورِ ایمان و ایقان کی روشنی میں امت واحدہ میں پیرو دیا اور علم و عمل ،تقویٰ و نیکی ،بزرگی کا معیار ٹھہرا ۔دنیا کی نظروں سے پرے جاہل ،و پسماندہ و درماندہ ،منقسم قوم آپؐ کی قیادت کی بدولت علم پرور جہانگیر و عہد و تمدن آفرین بن گئے۔” اے رسول !بیشک آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز کئے گئے ہیں” القرآن ” آپ ؐ نے بصورت قرآن مجسم سیاست کو جارحیت سے، جنگ کو انتقام و ملک گیری سے ،عدالت کو جانب داری و طرف داری سے،تجارت کو ملاوٹ و عہد شکنی سے پاک کیا،دولت کو قارونیت سے،عبادت و بندگی کوابلیسیت سے،علم و دانش کو بو جہلی سے ،قلم و الفاظ کے وجود سے سامریت سے ، ثقافت سے جمودعصبیت و تنگ نظری کی کثافت مٹا کر اسے علم ،سچائی اورحسن و حیا سے آراستہ کرکے عظیم تہذیب و تمدن میں بدل ڈالا”بیشک تمہارے لئے اللہ تعالی کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہیں”القرآن”
انسان کو شائستہ و خودار بنایا
تہذیب و تمدن تیرے شرمندہ احسان

جب دنیا آپؐ کے اخلاق حسنہ کے گونا گوں مثالوں پر نظر ڈالتی ہے تو وہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔آپ ؐ مکی زندگی میں محلے سے گزرتے ہیں تو ایک غیر مسلم عورت آپ ؐپر کچرا پھنکتی ہے اس کوڑا کرکٹ پھینکنی والی کی علالت پر بیمار پرسی کے لئے جانا،دوران نماز تعفن پھیکنے اور سٹیاں بجانے والوں کو درگزر فرمایا ۔طائف میں دعوت و تبلغ کے موقع پر آپؐ کا تمسخر اُڑانے ،گالی گلوچ اور پتھر مار کر لہولہان کرنے والے نوجوانوں کو اس گستاخی کے بدلے میں دعائے خیر کرناآپ فاتحانہ حیثیت میں مکہ تشریف لائے اور بحیثیت سربراہ ریاست عرب چاہتے تو آپ ؐ خاندان و عاشقان رسول کے دشمنوں ،قاتلوں کو عدل و انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرکے قرار واقعی سزا دیتے۔ایسی مشکل گھڑی میں تمام گناہگاروں ،مجرموں کو عام معافی اور پوری آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کی نوید دی۔آپ ؐ نے دنیا کو ایک پیغام دیا کہ طاقت ور وہ نہیں جو حریف کو صفحہ ہستی سے مٹا دے بلکہ حقیقی طاقت ور وہ ہے جوموقع و اختیار ہونے کے باوجود بد ترین دشمن کو معاف کردے۔چنانچہ آپ ؐنے اپنی بعثت کا مقصد اعلٰٰ مکارم اخلاق کو قرار دیاجس کا پہلا بنیادی سبق ” بہترین انسان وہ ہے جسکا وجود دوسروں انسانوں کے لئے فائدہ مند ہو” دوسرا اہم سبق” مسلمان وہ ہے جس کے زبان و ہاتھ سے دوسرا مسلمان بھائی محفوظ ہو۔تیسری اہم سنت جو روز قیامت بندوں سے پوچھے جانے
والے سوالات میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے” افضل مسلمان وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اعلیٰ ہے” انحضرت ؐ نے ایک موقع پر صحابہ کرام سے مخاطب ہوکر فرمایا کیا میں تمیں ایک ایسے عمل کے متعلق نہ بتاوں جو فرائض و مروجہ عبادات سے بھی زیادہ اہم ہے صحابہ عرض کرنے لگے بیشک یا رسول اللہ تو آپ ؐنے فرمایا ” باہم مل جل کر رہنا اور فتنہ و فساد سے بچنا فساد تو تباہ کن ہے” اسلام کی شان تو یہ ہے کہ وہ صرف سلام پیش کرنے والے کو بھی مسلمان قرار دیتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ’’ جو تمہاری طرف سلام پیش کریں تو اسے یہ مت کہو کہ تم مومن نہیں ہو‘‘۔اس آیت کی تفسیر میں بیان ہوتا ہے کہ آپؐ نے خیبر سے فاتحانہ واپسی پر حضرت اسامہ ابن زیدؓ کو کچھ فوج دے کر اطراف فدک کے یہودیوں کو دعوت اسلام دینے کیلئے بھیجا۔یہ سن کر فدکے ایک یہودی مرداس نے اپنے مال و متاع او ر اہل و عیال کے ساتھ آکر راستے میں ڈیرہ ڈالا جوں ہی حضرت اسامہؓ اپنی فوج کے ساتھ راستے سے گزرا تو مرداس نے اسلام علیکم کہا مگر اسامہؓ نے نیزے کے وار سے مرداس کا کام تمام کر دیا اور مہم سے واپسی پر حضور پاکؐ کو ماجرا بتا دیا تو حضورؐ سخت ناراض ہوگئے اور فرمایا اے اسامہ! تم نے کلمہ گو کو قتل کر دیا اسامہؓ نے جواباً عرض کیا کہ حضور ؐ وہ تو ڈر کے مارے کلمہ پڑھ رہا تھا تو حضورؐ نے فرمایا تم نے اس کا دل چیر کا دیکھا تھانہ تم نے اس کی زبان پر اعتبار کیا اور نہ ہی اس کے دل کا حال جان سکا۔بے گناہی میں اسے قتل کر دیا۔کسی صحابیؓ آپ ؐ سے دریافت کیا کہ اسلام کیا ہے آپؐ نے فرمایا الدّین النّصیحہ یعنی دین خیر خواہی کا نام ہے۔سبحان اللہ۔
دیدار محمدؐ کا جو مشتاق نہیں ہے
وہ زہرہ ہلاہل تو ہے تریاق نہیں ہے
جو خاک لگی ہے میرے آقا کے بدن سے
کہتے ہے کہ جنت میں بھی وہ خاک نہیں ہے

آئیں اس ماہ مبارک میں عہد کریں کہ اللہ رب العزت اور نبی آخرین حضر ت محمد ؐ کے عشق و محبت میں اپنا سب کچھ نچھاور کرینگے اور قرآن و رسول پاکؐ کے اسوہ حسنہ کے مطابق اپنے شب و روز اور ماہ و سال گزاریں گے تاکہ دنیا و عاقبت میں سرخرو و کامیاب ہوجائیں ۔آمین یا رب العالمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button