کالمز

سپیشل صوبے کی سپیشل کہانی

آٹھ جون کے انتخاباب میں جب نون لیگ نے گلگت بلتستان میں واضح کامیابی حاصل کی تو ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اب یہاں سب کام نئے ڈھنگ سے ہوں گے۔ہم ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اسی اثناء میں بجٹ پیش ہوا اور بجٹ سمری کو قلیل وقت میں نو منتخب وزیر اعلیٰ کی زبانی کئی کئی بار سُنا تو گمان یقین میں بدل گیا کیونکہ ایک نو منتخب حکومت کی طرف سے ایک ہفتے سے کم وقت میں تینتیس ارب کا بجٹ تیار کرکے پیش کرناعجوبے سے کم نہ تھا۔ شش وپنج کے اس عالم سے گزر ہی رہا تھا کہ اگلے دن مقامی اخبارات میں کسی مقامی صحافی کا ایک مضمون نظر سے گزرا۔ موصوف کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں دوسری بار کسی عالم دین کو وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا ،بس یہ خبر پڑھتے ہی میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ ایک عالم دین کا وزیر اعلیٰ بننا یقیناًہم سب کے لیے خوشی کا مقام تھا،دل فوراً پر امید ہو گیا کہ مستقبل میں یہاں سب کام قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہوں گے۔ ابھی دماغ میں یہ کھچڑی پک ہی رہی تھی کہ مقامی اخبارات کے مطالعے کے دوران صفحہ اول پر وزیر اعلیٰ کاایک بیان پڑھا،لکھا تھا کہ ہم نے گلگت بلتستان کے لیے آئینی صوبے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ بہتر نظام دینے کی بات کی تھی۔ اب بہتر نظام کا کیا مطلب ہے یہ تو حافظ صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا یہی سُنتے آئے ہیں کہ آئینی حقوق یا ریاست کی بحالی ہمارے عوام کا بنیادی مطالبہ ہے اور ہر سیاسی نشست میں اسی پر بحث و تکرار سننے کو ملتی تھی۔ یہ بہتر نظام میرے ایک نیا لفظ تھا لیکن ایک مذہبی وزیراعلیٰ کے نزدیک اس کی کیا تشریح اور تفسیر ہے، یہ پوچھنے کی ہمت مجھ میں کم سے کم نہیں ہے۔ لہٰذا یہی نتیجہ اخذ کر لیاکہ وہ ایک عالم دین ہیں اس لیے یقیناً اسلامی نقطہ نظر سے بات کر رہے ہوں گے۔
بہتر نظام کا مطلب مجھے اُس وقت سمجھ میں آیا جب اقتصادی راہدری میں بطور فریق گلگت بلتستان کو شامل نہ کرنے پر جب عوامی احتجاج پر وزیراعلیٰ نے بیان دیا کہ اقتصادی رادہداری سے گلگت بلتستان ہانگ کانگ بن جائے گا۔ اب یہاں مسئلہ ذرا ٹیڑھا ہو گیا ہے کیوں کہ ہانگ کانگ کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو بھی مسئلہ نہ دیکھیں تو بھی مسئلہ۔ یہ بھی واضح نہیں کہ گلگت بلتستان کس حوالے سے ہانگ کانگ بنے گا۔ محترم وزیر اعلیٰ نے بھی واضح نہیں کیا تھا۔ لیکن کرنا خدا کا یوں ہوا کہ یہ بات بھی اُس وقت واضح ہوگئی جب گزشتہ مہینے وفاقی وزیر تجارت سے ملاقات کے دوران وزیر موصوف نے کہا کہ ہم سیاحت کی فروغ کے لیے گلگت بلتستان کے ہوٹلوں میں شراب کی فراہمی کا لائسنس جاری کرنے کا سوچ رہے ہیں یعنی ہماری سیاحت کو اس وقت سب زیادہ ضرورت شراب کی ہے۔اس بیان کے رد عمل میں وزیر اعلیٰ کی خاموشی سے ایسا معلوم ہوا کہ شاید وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کو ہانگ کانگ بنانا چاہ رہے ہیں۔
نئی حکومت کے کارناموں اور بوالعجبیوں کا ذکر یہیں تک محدود نہیں ۔ جولائی کے مہینے میں خبرچلی کہ وفاق میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی تجاویز زیرگردش ہیں۔ یہ سُننا تھا کہ ہمارے سیاست دان سب مل کر بولے دیکھیں جی میاں صاحب عوامی مطالبے کو اہمیت دیتے ہوئے گلگت بلتستان کو صوبائی حیثیت دینے کا وعدہ پورا کر رہے ہیں لیکن افسوس کسی نے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ جناب یہ عبوری صوبے کی کہانی کیا ہے؟ خیر کوئی بات نہیں یہ بھی غیر سیاسی باتیں ہیں جن کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک کرسی، گاڑی اور سیکیورٹی ہی دراصل ریاستی حقوق ہیں۔
آج اگر ہم حکومت کے سیاسی کردار پر بحث کریں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے کوئی جامع حکمت عملی ہے نہ سوچ کیونکہ موجودہ نظام میں گلگت بلتستان کی مقامی حکومت کے پاس پالیسی سازی کے حوالے سے کوئی اختیار نہیں البتہ اگر ہے تو مراعات میں اضافے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ سابق حکومت نے بھی پانچ سالہ دور حکومت میں اراکین قانون ساز اسمبلی کی مراعات میں اضافے کو پہلی ترجیح قرار دیا۔ موجودہ حکومت نے بھی مہدی شاہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اراکین کی مراعات میں سوفیصد اضافے کی قراداد منظور کراکے یہ بات واضح کی کہ اقتدار کے ان کے نزدیک مقصد کیا ہے۔ایسے میں ہم ا س نظام کو سکھا شاہی نہ کہیں تو کیا نام دیں؟
جہاں ایک طرف عوام بھوک اور افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں،نظام تعلیم کا کوئی پرسان حال نہیں،ہسپتالوں سے لے کر تمام سرکاری محکمہ جات رشوت اور کرپشن کے گڑھ بن چُکے ہیں،مذہبی منافرت کو اب سرکاری حیثیت مل رہی ہے خطے پر دہشت گردی کے خطرات منڈلا رہے ہیں لیکن حکمران طبقے کو فکر ہے تو مراعات میں اضافے،مسئلہ کشمیر اورپنجاب جیسے نظام(یعنی گلوکریسی) حکومت کی تشکیل وغیرہ کی۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی ابھی حکومت کو آئے ہوئے دو مہینے ہی ہوئے ہوئے تھے کہ سیلاب نے تباہی مچائی، کوئی ایسا گاوں ایسا شہر نہیں تھا جو سیلاب سے متاثر نہ ہوا ہو لیکن ہمارے وزیر اعلیٰ صاحب نے تمام وقت خصوصی دوروں کے ذریعے فوٹو سیشن کراتے گزارا۔ سیلاب سے تباہ حال عوام کی کوئی داد رسی نہ ہوئی۔ ستم بالائے ستم متاثرین سیلاب ابھی بحالی کا انتظار کرہی رہے تھے کہ زلزلے نے خطے کا رخ کیا ۔ سردیوں کے موسم میںآنے والے زلزلے سے گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہواہے اور بیشتر علاقوں میں لوگ ابھی تک امداد کے منتظر ہیں۔ شدید تباہی اور قدرتی آفات کے باوجود ہمارے سلیم شاہی وزیراعلیٰ اسلام آباد میں سرکاری اور نجی چینلز پر بیٹھ کر ریاستی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں پر الزام تراشی کرتے رہے اورانہیں غدارقرار دیتے رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اُن کے نزدیک اُن تمام لوگوں کو جینے کا حق نہیں جو مسئلہ گلگت بلتستان کو پاکستان اور گلگت بلتستان دونوں کے مفاد میں اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔یعنی اس وقت گلگت بلتستان ایک طرح سے سیاسی مچھلی بازار بناہوا ہے جہاں تمام اختیارات فرد واحدکے ہاتھ میں ہیں۔ یہاں قومی ضرورت، عوامی توقعات اور مسائل کی کوئی اہمیت نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہاں کے وزیراعلیٰ اور کچھ وزارء کشمیری رہنماوں سے بڑھ کر کشمیر سے وفادری نبھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔
وزیراعلیٰ نے اب تک جتنے بھی انٹرویوز دیئے کسی بھی موقع پر یہ نہیں کہا کہ ہم مسئلہ کشمیر کے فریق ہیں حصہ نہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ گلگت بلتستان صوبہ بنا تو مسئلہ کشمیر پر منفی اثر پڑ سکتا ہے لہٰذا ہم چاہ رہے ہیں کہ ہمیں عبوری صوبہ بنایا جائے،ساتھ میں یہ بھی کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے حوالے کشمیری رہنماوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا یعنی اس وقت ریاست برائے فروخت کی منڈی لگی ہوئی ہے ۔ خطے میں امن امان کے حوالے سے بات کریں تو تاریخ میں پہلی بار دہشت گردں سے مذاکرات کی بات حکومتی سطح پر کی گئی، جیل توڑ کو بھاگنے والوں کو گرفتار کرنے میں حکومت ناکام رہی، داریل سے اغوا ہونے والے انجینئرز کو ٹوپی ڈارمے کے بعد ملک مسکین کی مداخلت سے کوہستان سے بازیاب کرایا گیا لیکن حکومت نے پوچھ گچھ کرنے کے بجائے اسے تاریخی فتح قراردیا۔
ماضی کے کئی اہم مقدمات کو ایک طرف رکھ کر سول کورٹ سے رہائی پانے والے کچھ افراد پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلانے کی بات شروع کی گئی یعنی عوام کو عوام سے لڑانے کے نت نئے حربے ایجاد کیے جا رہے ہیں۔ گلگت میں پہلی بار کئی اسلامی اور نجی چینلز کو بغیر کسی عذر کے کیبل پر دکھانے پر پابندی لگا دی گئی،چند افراد کی خوش نودی کے لیے میرٹ کی پامالی بھی عام ہوتی جارہی ہے۔مگر افسوس خطے کے مستقبل کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔حکمران بس یہی سوچ کر حکومت چلا رہے ہیں کہ جس طرح مہدی شاہ نے اس علاقے کو پانچ تک جنجال پورہ بنائے رکھا بالکل اسی طرح ہم بھی پانچ سال اپنی مرضی سے حکومت کریں گے۔
آخر میں عوام سے یہی گزارش کروں گا کہ ا س طرح کے مفاد پرست لوگوں کے کہنے میں آکر معاشرتی بھائی چارگی پر آنچ نہ آنے دیں کیونکہ اس وقت ایسا ماحول بنا ہوا ہے کہ سیاسی تنقید کو بھی فرقہ واریت سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔لہٰذا عوام کو سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے، آگاہ رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ عوامی بیداری کے خوف سے یہاں کے امن کو خراب کرنے کی سازشیں کرنا کوئی نئی بات نہیں۔آخر میں حفیظ صاحب سے بھی یہی کہوں گا کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ پہلی بار جمہوری سبق پڑھ رہے ہیں، آپ کے لیے اُس دائرے سے نکلنا ایک مشکل کام ہوگا جس میں آپ کی سیاسی تربیت ہوئی ہے لیکن زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے متوازن راہ پر خود کو گامزن کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہواتو مہدی شاہ کی کہانی آپ کے سامنے ہیں۔ اللہ ہم سب کو سچ اور حق بات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button