چترالکالمز

عمران خان کے نام کھلا خط 

مکتوب نگار : شمس یار خان بونی چترال 

میرا تعلق ذاتی طور پر عمران خان کی پارٹی سے نہیں ہے اور نہ میں سیاسی شخصیت ہوں اور نہ میری سیاسی یا ذاتی مفادات ہیں ۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ ۔ آج سے بیس سال پہلے کی بات کہ جب عمران خان ابھی سیاسی اُفق پر نمودار ہوئے تھے تو ہمارے گاؤں بونی کا دورہ کیا اور میرے گھر کے ساتھ ہی میرے ایک اور بھائی کے باغیچے میں جلسہ منعقد کیا ۔جلسے سے خطاب کرتے ہوے انہوں نے زیادہ باتیں نہیں کیں البتہ یہ بات بار بار کہی کہ ملک میں ایک مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسا ملک ہو جہاں کوئی چوری چکاری نہ ہو کوئی قتل غارت اور کوئی اخلاقی برائی نہ ہو ۔ لوگ ایک دوسرے کو برداشت کر سکیں ۔ کسی مسئلے پر اگر اختلاف رائے ہو تو اُسے باہمی افہام و تفہیم سے حل کریں ۔ راستوں میں لوگ مسکراہٹ اور تبسم کے ساتھ ایک دوسرے کو ملیں ۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کو قدر اور پیار کی نگاہ سے دیکھیں۔ تھانوں میں پولیس لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آئیں اور لوگوں کے مؤلے حل کریں ۔ سکولوں میں استاتذہ اپنی حاضری کو یقینی بنائیں اور بچوں کو معیاری تعلیم دیں۔ ملازمتیں قابلیت کی بنیاد پر دی جائیں۔ دفتروں میں افیسروں کا رویہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ دوستانہ ہو ۔ لوگ محنت کریں اور انہیں ان کی محنت کا پھل وقت پر ملے ۔ کسی بھی دفتر میں رشوت کا بازار گرم نہ ہو۔

میں آج جناب عمران خان کو دل کی گہرائیوں سے سلوٹ پیش کرتا ہوں ۔ عمران خان نے وہی کچھ کرکے دکھایا ہے جو اُنہوں نے آج سے بیس سال پہلے قوم سے وعدہ کیا تھا ۔ میرے پاس خراج تحسین پیش کرنے کے لئے وہ الفاظ نہیں کہ جن سے میں عمران خان کی خدمات کا کما حقہ شکریہ ادا کر سکوں ۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ پشاور ہمارے صوبے کا سنٹر ہے ہم اپنی تعلیم ، صحت کے مسائل ، دفتری امور کی انجام دہی اور عدالتی مسائل تک کے لئے پشاور کا رخ کرتے رہے ہیں ۔ ہم جب شہر کا رخ کرتے تھے تو ہم ذہنی طور پر شدید نا آسودگی کا شکار رہتے تھے کیوں کہ ہمارے صوبے میں کوئی ادارہ اور شعبہ ایسا نہیں تھا جہاں سفارش کی بات نہ ہو جہاں رشوت کا تقاضا نہ ہو ۔ عمران خان کی حکومت جب سے آئی ہے تو لوگوں کو کہتے بار بار سنا تھا کہ ہمارے صوبے کے مرکز میں اور مضافات میں ایک غیر معمولی تبدیلی آگئی ہے لیکن آج میں نے اپنی دونوں انکھوں سے یہ تبدیلی دیکھی اور اتنا متاثرہوا کہ عمران خان کے نام کھلا خط لکھے بغیرنہیں رہ سکا۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ مجھے اپنی پنشن کے سلسلے میں پشاور اور پھر مردان جانا پڑا ۔ مجھے پہلی بار ایسا لگا کہ میں اپنے اُس ملک میں نہیں ہوں جہاں انسانیت کا فقدان ہوا کرتا تھا ، جہاں کوئی کسی کی قدر نہیں کرتا تھا ، جہاں قانون پاؤں تلے روندا جاتا تھا ۔ ایک عجیب تبدیلی آئی تھی : روڈ صاف و شفاف تھے ، پولیس اعلی ٰ اخلاقی اقدار کی حامل تھی ، ٹریفک اپنی اپنی لائنوں پر چل رہی تھی ۔ جس آفس میں میں گیا وہاں ایسے لوگ ملے جو کہ اخلاق کے اعلی درجے پر تھے ۔ میں نے اپنی باری کا انتظار کیا ، درست وقت پر میری باری آئی ، مجھ سے میری فائل اُٹھائی گئی اور مجھے واپس آنے کے لئے وقت دیا گیا ، جب میں واپس آیا تو میرا کام احسن طریقے سے ہوا تھا ۔ یہی نہیں بلکہ اُس آفس کے زمہ دار افیسر نے مجھے چائے کی تواضع کی ، میں نے جب شکرئے کے ایک دو الفاظ بولے تو انہوں نے بڑے ادب سے کہا کہ ’’ سر شکریہ آپ کا ہمیں ادا کرنا چاہیئے کہ آپ ہمارے دفتر تشریف لائے اور ہمیں اس قابل سمجھا کہ ہم آپ کے کام آسکتے ہیں ‘‘

جناب عمران خان صاحب ! ملک میں ان تمام مثبت تبدیلیوں کے لئے میں اپنے پورے خاندان کے ساتھ آپ کا مشکور ہوں ۔ آپ جیسے لیڈروں کی ہمیں ضرورت ہے ۔ میں آپ کی کامیابی اور درازی عمر کے لئے دعاگو ہوں ۔ آپ کا ہر قدم کامیابیوں سے ہم کنار ہو ۔ آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button