کالمز

سرحد جذبات سے عاری ہیں انسان تو نہیں ۔۔۔۔۔۔ عارف سحاب 

 اللہ نے زمین بنائی اور انسانوں کو یہاں بسایا انسان نے اشرف الخلوقات ہونے کا استحقاق یوں استعمال کیا کہ زمین پرسرحدیں بنا دیں نتیجے میں ان ہی سرحدوں نے جہاں خطہ ارض کو ریاست کے طور پہچان بخشی وہیں جذبات سے عاری سر حدات نے جب انسانوں اور خاندانوں کو تقسیم کیا تو جدائی کا احساس ،درد اور کرب رگ جان میں اتر گیا ۔چاہے وہ تقسیم سرحدوں کی ہو یا قوموں کی ،مسلک میں کی جانے والی تقسیم ہو یا گروہوں کی ،سیاست کے نام پر بٹنا ہو یا قبیلے کے نام پر ۔نتیجہ ہر حال میں یہی نکلتا ہے کہ انسان جدا ہوجاتے ہیں ۔دوریاں بڑھ جاتی ہیں اور جب دوریاں فاصلوں کے ساتھ ساتھ وقت میں ڈھل جائیں تو پھر یا دیں بھی دھندلکوں کی طرح مبہم سے خاکوں کی شکل میں باقی رہ جاتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ دھندلکے بھی اپنے نقوش کھو بیٹھتے ہیں ۔لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس کے باوجود ان ہی سرحدات ،باڑ اوررکاوٹوں کے تحفظ کوبشر نے ہمیشہ اپنا فرض اولین سمجھا اور ان ہی لکیروں کی حفاظت کے لئے جنگیں لڑی گئیں ،خون بہایا گیا اور جانیں دی گئیں جبکہ جنہوں نے اس مقصد کے لئے جانیں دیں وہ اپنی قوم کے ہیروز کہلائے اور آج بھی یہی دستور ہے کہ جس نے بھی اپنی سرحد کو برقرار رکھنے کے لئے مزاحمت کی اس کا شمار مادر گیتی کے عظیم فرزندوں میں کیا گیا ۔ اس بحث کو طویل کرنے کی بجائے تمہید کو اسی نتیجے پر سمیٹا جائے تو بہتر ہے کہ بحرحال سرحدات ، ان کی حفاظت کی اولین ترجیح اور ساری دنیا میں اسی نظام کے رائج ہونے کی حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا اور یہی اقدام ریاستوں کی خودداری ،حمیت اور عزم کا پیمانہ ہے ۔

جہاں سرحدبنتی ہے وہیں ان سرحدات کو پار کرنے کے لئے راستے بھی بنائے جاتے ہیں اور ہر ریاست ان راستوں کو عبور کرنے کے خواہاں افراد کے لئے ریاستی قوانین کے مطابق سہولیات بھی فراہم کرتی ہے اورویزہ پالیسی بنا کر یہ حق دیتی ہے کہ وہ بین الممالک آمدورفت کریں ۔اور یہی طریقہ کار پوری دنیا میں رائج ہے ۔ مگر ریاستوں کے درمیان تعلقات استوار نہ ہوں اور سفارتی مراسم بگڑ جائیں یا سرحدات پر کشیدگی ہو تو پھر عمومی طور پر پہلا اقدام یہی ہوتا ہے کہ سرحدیں بند کر دی جاتی ہیں ۔یہی احوال پاک بھارت تعلقات کا بھی ہے کہ جس میں غیر یقینی کی صورت حال وقتا فوقتا پیدا ہوتی رہی اور بھارتی دوغلے پن ،دوہرے معیار اور بار بار کی دھوکہ دہی کے باعث ونوں ممالک کے درمیان ہونے والے مزاکرات بھی عمومی طور پر مکمل نتائج نہیں پا سکے تو دوسری آپس میں آمدورفت کا سلسلہ بھی محدود رہا ۔

بلتستان کے کرگل لداخ کے ساتھ قدیم جغرافیائی،لسانی اور خونی اور سماجی رشتے ہیں اور بلتستان سے گرگل اور لداخ آمدورفت ،ان علاقوں کے درمیان تجارت اور سماجی تعلقات یوں استوار رہے ہیں کہ آج بھی کرگل اور لداخ میں بلتی تہذیب کی واضح جھلک دیکھی جاسکتی ہے جبکہ یہاں نصف صدی گزر جانے کے بعد اب بھی ایسے کئی رسوم و روجات اور تہذیبی خدوخال موجود ہیں کہ ان علاقوں کی مشترکہ تہذیبی رویات کی عکاسی کرتی ہیں ۔ تقسیم ہند اور گلگت بلتستان کی آزادی کے بعد ان علاقوں سے سفری ،اقتصادی اور دیگر مراسم ختم ہوگئے ۔ کشیدہ حالات اورجنگوں کے باعث سکردو سے کارگل اور سکردو سے لداخ جانے والے راستے بند کر دئے گئے اور آج بھی بند ہیں تاہم سرحد کی دونوں جانب ایسے سینکڑوں خاندان بستے ہیں کہ جو سرحد کے ساتھ ساتھ خود بھی منقسم ہوگئے ۔خصوصا 1971کی جنگ میں بھارتی غاصبانہ قبضے سے بٹ جانے والے خاندانوں کا حال یہ ہے کہ کنبے کے کنبے دو حصوں میں بٹ گئے ۔سرحد کی دونوں جانب ایسے متعدد خاندان بستے ہیں اور وہ اپنے پیاروں سے ملنے کے لئے ترس بھی رہے ہیں ۔ ان ہی میں سے ایک سکردو سے تعلق رکھنے والا سکردو کے 80سالہ بزرگ مولانا عبدلغفور بھی ہیں کہ جن کے علاقے پر1971کی جنگ میں بھارتی غاصبانہ قبضہ ہوا ۔اس موقع پر عبد الغفور روزگار کی تلاش میں سکردو آئے ہوئے تھے۔ جبکہ جنگ کے بعد نئی سرحد بندی میں عبدالغفور کا کنبہ بھارتی زیر قبضہ مقبوضہ کشمیر میں رہ گیا اور وہ اپنے چھ سالہ بیٹے ابراہیم ثانی، زوجہ اور بیٹی سے بچھڑ نے غم لئے زندگی گزارنے لگے۔ اور اسی غم میں ان کی زوجہ دنیا سے چل بسی ۔چھ سال کی عمر سے اپنی ماں اور بہن کا واحد کفیل بننے والے ابراہم ثانی نے بچھڑے خاندان کو اپنے والد سے ملانے کی بہت کوشش کی لیکن والدہ کی حیات میں یہ ملاقات ممکن نہ ہوسکی تاہم محمد ابراہیم 45 سال بعد اپنے والد سے ملنے ہزاروں میل طویل سفر طے کر کے سکردو پہنچ گیا ہے ۔

انٹوویو کے دوران لی گئی تصویر
انٹوویو کے دوران لی گئی تصویر

راقم نے گزشتہ روز ابراہیم ثانی سے ایک انٹرویو میں پوچھا کہ پاب کے سائیہ شفقت سے محروم ہو کر کس طرح زندگی گزاری ؟جواب میں ابراہیم کی آنکھیں بھیگ گئیں اور کہنے لگا کہ’’ کہنے کے لئے تو میرے اور میرے باپ کے درمیان چند گھنٹوں کا فاصلہ تھا اور ایسا لگتا تھا کہ سرحد کی جانب نظر آنے والے بڑے سے برفانی پہاڑ کے پیچھے وہ بھی اپنی نظریں جمائے اس جانب دیکھ رہے ہوں گے ۔مگر کیا معلوم تھا کہ اس فاصلے کو طے کرنے میں زندگی گزر جائے گی ۔بھارت میں جن مشکل حالات اور مسائل میں زندگی گزاری اس کا اظہار ممکن نہیں مگر یہ کہ میری ماں خواہش دید لئے اس دنیا سے گزر گئیں جبکہ بہن اب بھی بھارت میں ہیں اوراپنے والد سے ملنے کی خواہش مند ہیں ‘‘ ابراہیم ثانی کے مطابق اس کے علاقے سے تعلق رکھنے والوں میں لگ بھگ ہر خاندان تقسیم ہوا ہے اور ان کے دلوں میں بھی یہ تڑپ ہے کہ وہ اپنے عزیزوں سے مل سکیں ۔ ابراہیم کہتا ہے سکردو کارگل روڈسے اگر آمدورفت بحال ہو تو یہ سفر چار سے پانچ گھنٹوں کا ہے اور آسانی سے بچھڑے ہوئے مل سکتے ہیں ۔واہگہ بارڈر کے راستے آنے میں یہی مختصر سا سفر اس قدر طویل ہوگیا کہ سولہ دن آنے میں لگے جبکہ اڑھائی ہزار کلومیٹر سے زائد مسافت طے کرنا پڑی۔سکردو کارگل روڈکو ممکن ہو تو آمدورفت کے لئے کھولاجائے اور اگر ممکن نہ ہو تو سرحد پر کم سے کم سال میں ایک بار ایسا نظام بنایا جائے کہ منقسم خاندانوں کے افراد مل سکیں ۔ 

1971کی جنگ میں بچھڑ نے والابیٹا اپنے باپ سے ملنے 45سال بعد سکردو پہنچ گیابیٹا چھ سال کی عمر میں اپنے باپ سے بچھڑ گیا تھا ۵۱ سالہ بیٹے کی ضعیف باپ سے ملاقات میں شریک ہر رشتہ دار کی آنکھ اشکبار تھی۔ 

1971کی جنگ میں عبد الغفور کے گاوں پر بھارتی فوج نے غاصبانہ قبضہ کرلیا ا س وقت عبد الغفور روزگار کی تلاش میں سکردو آئے ہوئے تھے۔ جکبہ جنگ کے بعد نئی سرحدی بندی میں عبدالغفور کا کنبہ بھارتی زیر قبضہ مقبوضہ کشمیر میں رہ گیا اور وہ اپنے چھ سالہ بیٹے ابراہیم ثانی، زوجہ اور بیٹی سے بچھڑ نے غم لئے زندگی گزارنے لگا اور اسی غم میں اس کی زوجہ دنیا سے چل بسی ۔چھ سال کی عمر سے اپنی ماں اور بہن کا واحد کفیل بننے والے ابراہم ثانی نے بچھڑے خاندان کو اپنے والد سے ملانے کی بہت کوشش کی لیکن والدہ کی حیات میں یہ ملاقات ممکن نہ ہوسکی تاہم محمد ابراہیم 45 سال بعد اپنے والد سے ملنے ہزاروں میل طویل سفر طے کر کے سکردو پہنچ گیا ہے جہاں باپ بیٹے کی پہلی ملاقات نے سکردو ائر پورٹ پر موجود ہر فر د کی آنکھ نم کر دی۔

80سالہ مولانا عبد الغفور کو بیٹے سے ملنے کی خوشی تو ہے لیکن اپنی مرحومہ شریک حیات او ر بچپن کے دوستوں اور رشتہ داروں سے ملاقات نہ ہونے کا شدید غم بھی ہے۔ 

 جنگ کے بعد بلتستان اور لداخ کارگل کے ہزارون خاندان ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے جن میں سے کچھ تو اپنے منقسیم خاندانوں سے ملاقات کی آس لئے دنیا سے چل بسے لیکن بہت سے ضعیف افراد اپنے بچھڑے بچوں سے ملنے کی آس لئے زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ان منقسیم خاندانوں کے افراد پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے کارگل سکردو اور لداخ گانچھے روڈ کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

گلگت بلتستان اور لداخ کارگل کا علاقہ قدیم جغرافیائی،لسانی اور خونی رشتوں سے بندھا ہوا ہے جہاں پاک بھارت جنگوں سے تو یہ دونوں خطے بہت متاثر ہوتے رہے لیکن دونوں ممالک کے دومیان اعتماد سازی کیلے ماضی میں اٹھائے گئے اقدامات کے ثمرات سے یہ خطہ یکسر محروم رہا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر کے دونوں جانب کے منقسیم خاندانوں کو ملانے اور تجارت کو فروغ دینے کیلئے سرحدوں کو کھولا گیا ہے اسی طرح کارگل لداخ اور بلتستان کی سڑکیں بھی کھولیں جائیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button