کالمز

گلگت بلتستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آئینی حقوق کا راستہ

جب بھی ریاست جموں وکشمیر کا نام لیا جاتا ہے تو ان سے ہندوستان کے زیر نگران کشمیر جموں و لداخ اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل علاقے  مراد لئے جاتے ہیں اسطرح  ریاست کا مجموعی  رقبہ چوراسی ہزار چار سو اکہتر مربع میل بنتا ہے۔۔کشمیر کے ان خطوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ برصغیر میں دو آزاد مملکتوں کے وجود میں آنے کے فوراً بعد ہی ان خطوں میں بسنے والوں  کے درمیان  خلیج اور دوریاں بڑھنے لگی۔ ایک آزاد ریاست  دو ملکوں کے درمیان متنازعہ بن کے رہ  گئی ۔بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ریاست کی متنازعہ حثیت سے  ان خطوں میں رہنے والوں کے درمیان شکوک و شہبات  بھی بڑھ گئے   اور ایک دوسرے پر بھروسے کا فقدان کے علاوہ  ان کے درمیان   غلط فہمیوں اور دیگر مسائل کو جنم دینے کا باعث بھی بنی  ۔اس پہ بس نہیں رہا  اس  کی وجہ سے ہی پاکستان اور ہندوستان  کے مابین تین جنگیں بھی لڑی گئی لیکن  مسلہ  اب تک جوں کا توں ہے۔۔

اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ  مسلے کا حل  جنگ میں نہیں بلکہ  با مقصد مذاکرات میں  ہے۔ مذاکرات بھی کئی بار ہو چکے ہیں  لیکن  نتیجہ بے سود ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مذاکرات میں کشمیریوں کی شرکت  نہیں ہوتی   اور جب ان  مذاکرات  میں اصل شراکت دار کشمیری  موجود نہ ہوں تو  وہ کیونکر کامیاب یا  قابل قبول ہو سکتے ہیں ۔ جب تک   ایسا ہوتا رہیگا  مسائل کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جائینگے  جس کا حل شائد ممکن نہ ہو ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جغرافیائی  لحاظ سے ایک ریاست میں  رہنے والوں کو  ریاست کے نام کے حوالے سے  پکارا جاتا ہے۔ جیسے پاکستان میں رہنے والوں کو پاکستانی کہا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر   کے ان تینوں خطوں میں  رہنے والوں کو  کشمیری کہا جا ئے تو کوئی قباحت نہیں لیکن نہ جانے کیوں  گلگت بلتستان   کے باسیوں کو کشمیر اور کشمیریوں کے نام سے چڑ  ہے۔۔حالانکہ  مہارجہ کشمیر کے سو سالہ حکومت میں    کسی نے یہاں بسنے والوں  کو نہ کشمیری بنایا اور  نہ ہی  یہاں کے لوگوں کو کشمیری کہا۔  یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے۔اگر میں غلط نہیں ہوں تو کشمیری بذات خود کوئی قوم نہیں  بلکہ کشمیر تو وہ خطہ ہے جس کا تعلق کشمیر کے  اندر  بسنے والی  مختلف  قوموں سے ہے جیسے  میر ، راٹھور، لون، بٹ، ڈار وغیرہ یہی حال جموں کا ہے اور ایسے ہی  گلگت بلتستان میں جیسے شین یشکن ، ڈوم کمین  ۔ ریاست  جموں و کشمیر نام ہے  مختلف مذاہب اور قومیت سے تعلق رکھنے والے  افراد کا ۔۔ گلگت بلتستان کے باسیوں کو کشمیر سے متعلق  صحیح معلومات سے اگاہ ہی نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہاں کے لوگوں نے  اس مسلے کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ بس ان کو ایک ہی سبق پڑھایا گیا  کہ سانپ اور کشمیری  دونوں ایک ساتھ ملیں تو سانپ کو چھوڑو کشمیری کو  ہلاک کرو۔۔  نوبت یہاں تک کیسی پہنچی اس کی الگ ایک لمبی کہانی ہے۔ اور اس پہ بحث  یہاں مقصود نہیں ۔

بس اتنا کہنا ہے کہ جہاں سے آئینی حقوق ملنے کا راستہ ہے  اس راستے کو تو یہاں کے لوگوں نے اب تک  دیکھا ہی نہیں   یہ تو  پاکستان اور ہندوستان  کے درمیان  مذکرات والی بات ہے جس میں  اصل فریق  کشمیری شامل نہیں ہوتے اور کشمیر متنازعہ ہی چلا آرہا ہے  اسی طرح گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کا راستہ  کشمیر ہے اور  ہم کشمیر کے ساتھ ناطہ جوڑے بغیر آئینی حقوق لینے چلے ہیں  اور  یوں آج ستر سال تک کبھی صوبہ کبھی آزاد ریاست اور کبھی کچھ اور کبھی وفاق  کا مطالبہ کرتے  نہیں تھکتے  لیکن ہماری شینوائی نہیں ہوتی ۔۔۔ایک نقطہ پر متفق نہ ہونا بھی  ہماری سیاسی نابالغی کا ثبوت ہے۔۔کسی کو کسی پر برتری نہیں  ریاست کے یہ تینوں خطے  مل کر ہی ریاست جموں و کشمیر کا نقشہ  مکمل کرتے ہیں ۔یہ تمام خطے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ اور جغرافیائی لحاظ سے کشمیر کہلاتے  ہیں ۔اور اس ریاست میں نافذ سٹیٹ سبجیکٹ کا قانون ہی یہاں کے باشندگان کو  منفرد مقام اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔

جی بی والوں کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اگر  گلگت بلتستان میں یہ قانون معطل نہ ہوتا تو ان کی حالت آج یکسر مختلف ہوتی۔ اس لئے  ضروری ہے کہ  تقسیم جی بی و کشمیر کی راہ ہموار کرنے کے بجاے  وحدت  جموں وکشمیر کی طرف  قدم بڑھایا جائے۔نہ آزاد کشمیر گلگت بلتستان کا حصہ ہے اور نہ ہی  گلگت بلتستان  آزاد کشمیر کا۔۔ اس کا ایک بہترین اور آسان حل تو یہ ہے کہ پاکستان کے زیر نگران ان دو خطوں  کو یکجا کرکے ایک مشترکہ  نام دیکر  مشترکہ  کشمیراسمبلی   کی راہ  ہموار  کی جائے۔۔ جس کی  تفصیل میں  اپنے ایک کالم میں پہلے ہی کر چکا ہوں ۔اس کا دوسرا اور  آسان ترین  حل یہ بھی ہے کہ کون کس کا حصہ ہے کی  لڑائی میں پڑے بغیر گلگت بلتستان کو پاکستان  کا صوبہ بنانے کے بجائے آزاد کشمیر طرز کی حکومت تشکیل دیکر  اسے ریاست آزاد  گلگت بلتستان  کا نام دیا جائے۔ اس سلسلے  ریاست آزاد کشمیر کی اسمبلی کی حالیہ قرارداد جس میں  آزاد کشمیر طرز کی حکومت قائم کرنے کی حمایت کی گئی ہے ایک خوش آئند اورمثبت پیش رفت ہے ۔  آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے باسی ایک دوسرے سے نفرت اور عداوت کے بجائے مثبت رویے اپنا کر  ریاست آزاد کشمیر اور ریاست گلگت بلتستان کو خوشحالی کی طرف لے جا سکتے ہیں اور یوں  کشمیر بارے پاکستانی موقف میں بھی کوئی فرق  نہیں پڑیگا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button