کالمز

صوبائی حکومت کی انا

اِدھر اینٹی ٹیکس موومنٹ نے ۲۰ فروری سے ٹیکس کے خلاف گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا ہے اُدھر ارکاکینِ صوبائی اسمبلی کے ایک وفد پر مشاہد حسین سید کی وساطت سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کو رتی برابر بھی حصہ نہیں ملنے والا ہے۔ پی پی پی کی آل پارٹیز کانفرنس میں پہلے ہی دھواں دار تقریروں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے عہدداروں نے یہ عہد کیا تھاکہ وہ حقوق کے حصول اور اقتصادی راہداری میں اپنا حصہ لینے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ایسے میں مشاہد حسین سید کے اس نکشاف نے جلتی پر تیل کا کام دیا ہے۔ مشاہد حسین سید کے اس انکشاف کے بعد اراکین اسمبلی کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے ہیں اور وہ سپیکر فدا محمد ناشاد کی قیادت میںآج کل اسلام آباد اور لاہور میں مختلف شخصیات سے مسلسل ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔ ان ملاقاتوں میں ہر ایک سے ان کی صرف ایک ہی التجاء ہے وہ یہ کہ ہمیں کسی طرح وزیر اعظم پاکستان سے ملادو ہم آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولیں گے۔گورنر پنجاب نے ان کی حالت زار پر تر س کھا کر وزیر اعظم سے ان کی ملاقات کرانے کاوعدہ بھی کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ گورنر پنجاب کایہ وعدہ کب وفا ہوتا ہے۔ ہمارے خیال سے ایسی ملاقاتوں کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے کیونکہ گذشتہ دنوں صدر مملکت سے گلگت بلتستان کے اراکین اسمبلی کی گورنر گلگت بلتستان کی قیادت میں ملاقات ان کی سبکی کا باعث بنی ہے جس میں جنابِ صدر صاحب نے بار بار ان کو گلگت بلتستان کی بجائے بلوچستا ن کے گورنر اور اراکین اسمبلی کے نام سے پکارا ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کیونکہ وفاق کی ساری توجہ اقتصادی راہداری کے سلسلے میں اس وقت بلوچستان پر مر کوز ہے۔ ان کی سیاسی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا جا رہا ہے اور ان کے لئے بڑے بڑے پیکیجز کا بھی اعلان کیا جارہا ہے۔ ایسے میں ہمارے اراکین اسمبلی کا وزیر اعظم سے ملنا کتنا سود مند ہوگا یہ بتانا قبل از وقت ہوگا مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ملاقات سے کئی اراکین اسمبلی کا وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے ساتھ سلفی بنانے کا شوق ضرور پورا ہوگا۔ بہر صورت ہمیں امید ہے اس سارے کھیل تماشے سے وزراء اور اراکین اسمبلی کو اسلام آباد میں سردیاں گزارنے کا جواز مل گیا ہے ۔ کچھ ہو نہ ہو ہمارے یہ بات طے شدہ ہے کہ ہمارے عوامی نمائندے مارچ سے پہلے گلگت بلتستان کا ہر گزرخ نہیں کر یں گے۔

اِدھرسردی کی شدت میں لوڈشیڈنگ اور آٹے کے بحران سے دوچار زندگی کے تلخ ایام گذارنے والی عوام اینٹی ٹیکس مومنٹ اورعوامی ایکشن کمیٹی کی ہر ہڑتال کی کال پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان دو تحریکوں سے کچھ نہ کچھ حا صل ضرور ہو گا ۔ کیونکہ پچھلی دفعہ گندم کی سبسڈی کا معاملہ بھی عوامی ایکشن کمیٹی کے مرہون منت ہی حل ہوا تھا۔اس دفعہ ٹیکس ، اقتصادی راہداری اور آئینی حقوق جیسے بڑے ایشوز ہیں جن کے لئے دونوں تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ بظاہر ان ایشوز کے کوئی حل نہیں نظر نہیں آرہے ہیں مگر عوام کی توقعات اراکین اسمبلی سے زیادہ ان عوامی تحریکوں سے وابسطہ ہیں۔ کیونکہ مشاہد حسین سید کے انکشاف سے پہلے مسلم لیگ )ن (کے اراکین اسمبلی اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ اقتصادی راہداری میں بڑا حصہ ملنے والا ہے ۔ اب مشاہد حسین سید نے اس دعوی کاپول کھول دیا ہے اور عوام کو اقتصادی راہداری سمیت آئینی حقوق کے حوالے سے کوئی پیش رفت کی امید نہیں ہے۔ عوام کی اس ناامیدی اور احتجاجی تحریکوں سے وابسطگی کا ثبوت یہ ہے کہ ۲۸ جنوری کو اینٹی ٹیکس موومنٹ نے صرف احتجاج کی کال دی تھی مگر تاجروں اور ٹرانسپوٹرز نے از خود ۱۴ جنوری کی طرح کامیاب پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی تھی۔ آگے بھی یہ توقع کی جارہی ہے کہ عوام بڑی تعداد میں ان احتجاجی مظاہروں میں شر کت کرے گی۔

مگر میں پہلے کی طرح اب بھی اس بات پر حیران ہوں کی اِدھر احتجاجی تحریکیں چل رہی ہیں اُدھر حکومتی سطح پر کوئی ہل چل نظر نہیں آرہی ہے۔ نہ تو ان تحریک چلانے والوں سے کوئی بات چیت کی جارہی ہے اور نہ ہی وفاقی سطح پر ان مطالبات کے حل کے لئے کوئی کوشش نظر آرہی ہے۔ صوبائی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وفاق صرف ) ن ( لیگ کی ہونے کی بنا پر اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کو نوازے گی تو یہ ان کی بھول ہے اور ٹیکس سمیت آئینی حقوق کا مسلہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے حل نہیں ہوگا۔ ان تما م معاملات کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے ۔ وفاق میں ہر صوبے کی اپنی ا یک لابی ہے جبکہ گلگت بلتستان وفاق میں سٹیک ہولڈر نہ ہونے کی وجہ سے اس کی وہاں دال نہیں گھلتی ہے۔ اگر شعور نہ مچایا جائے تو گلگت بلتستان کا وہاں نام تک لینے کے لئے کو ئی تیار نہیں ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت اپنی انا کا بت توڈ دے اور جلد از جلد عوامی تحریکوں کے نمائندوں اور تمام اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا عمل شروع کرے اور گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے مل کر وفاق کو پیغام دیا جائے کہ گلگت بلتستان کے لوگ اپنے مشترکہ مفادات کے معاملے میں متحد ہیں۔ یہی پیغام کشمیر کی سیاسی قیادت کو بھی دیا جانا چاہیے جو کہ گلگت بلتستان کو حقوق دینے کے معاملے میں ہمیشہ ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں۔

صوبائی حکومت کی یہ بھی زمداری ہے کہ وہ گلگت بلتستان کی تمام جماعتوں کے مشتر کہ وفد کو ساتھ لے کر وفاقی حکومت اور پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور میڈیا سے مل کر یہاں کے ایشوز سے ان کو آگاہ کرے تاکہ وفاقی جماعتیں گلگت بلتستان کے مسائل کے حل کے لئے وفاق میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ بصورت دیگر تاریخ کے اس اہم موڈ میں کوتاہی برتنے پر آنے والی نسل اِس وقت کی سیاسی قیات کو معاف نہیں کرے گی۔ کیونکہ اپنی بات منوانے اور اپنا حق لینے کا ایک مناسب موقع ہوتا ہے اور ایسے مواقع بار بار دروازے پر دستک نہیں دیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے بعد محض کف افسوس ملنے سے کچھ نہیں ملے گا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button