کالمز

تدریسی زبان

تحریر: اے ۔زیڈ ۔ شگری
تدریسی زبان پاکستان میں ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اردو چونکہ قومی زبان ہے لہٰذا تدریس کا کام شروع سے آخر تک اردو میں ہی ہونی چاہیے یا کم از کم میٹرک تک کی تدریس اردو زبان میں ہی ہونی چاہیے جبکہ دوسرے مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے، انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔ اردو زبان کا علمی دائرہ بہت محدود ہے اور اردو علمی ضروریات کو پوری نہیں کر سکتی لہٰذا دنیا میں ترقی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان میں ہی تدریس ہونی چاہیے۔ اس بحث میں پاکستان میں دوسرے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے طبقہ کی جیت ہوئی اور مملکت عزیز میں انگریزی زبان کو تدریسی زبان قرار دینے کے احکامات تعلیمی اداروں کے لیے جاری ہوئے۔ اسکے کئی محرکات ہیں۔
۱۔ عوامی سطح پر اور مقتدر حلقوں میں بھی گورنمنٹ اسکولوں کا تقابلی جائزہ پرائیویٹ اسکولوں سے کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پرائیویٹ اسکولوں نے شروع سے ہی انگلش میڈیم کوترجیح دی ہے۔ بچوں میں کامیابی اور قابلیت کی شرح عام طور پرائیویٹ اسکولوں میں نسبتاً بہتر ہے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ان کی کامیابی کی وجہ ہو نہ ہو، انگلش میڈیم ہی ہے۔ پس فیصلہ ہوا کہ سرکاری یا عوامی تعلیمی اداروں میں بھی انگریزی زبان میں تدریس کی جائے تو نتائج بہتر رہیں گے۔ اور احکامات جاری ہو گئے۔
۲۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی فیصلہ ہوا تھا کہ پاکستان میں اردو ہی تدریسی اور دفتری زبان بھی ہوگی۔ اردو کی علمی استعداد کو بڑھانے کے لئے اور علمی مواد کو دوسری زبان سے اردو میں منتقل کرنے کے لیے مقتدرہ قومی زبان کی بنیاد رکھی گئی۔ مقتدرہ قومی زبان نے علمی مواد کو اردو میں منتقل کرنے کی بجائے علمی اصطلاحات کا حلیہ بگھاڑنے کے پیچھے پڑ گئے اور مقتدرہ قومی زبان سے نیشنل لنگویج اتھارٹی بن گئی۔ اس ادارے نے علمی مواد کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بجائے ادبیات اور لغات پر توجہ مرکوز کی اور نتیجتاً اردو زبان کی کوکھ علمی مواد کے حوالے سے بانجھ ہو گئی۔ اس کا حل ہمارے منصوبہ سازوں نے انگریزی کو تدریسی زبان قرار دے کر نکالا۔
۳۔ مغرب زدگی پاکستانی قوم میں 70 کے عشرے سے زیادہ رواج پا گیا۔ رفتہ رفتہ اردو زبان کی وقعت ہماری ہی نظروں میں گِر گئی اور انگریزی زبان کو امتیاز کی وجہ جانا جانے لگا۔ جب قوم اپنی زبان اور ثقافت سے نالاں ہو تو غیر کی زبان اور کلچر کا غلبہ حتمی نتیجہ ہے۔
۴۔ پاکستان کی چار قوموں کا بھی اردو زبان کو اس نہج تک لانے میں کلیدی کردار رہا ہے۔ ان چار قوموں میں سے کسی بھی قوم نے ارد و کو قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا اور اسے صرف رابطے کی زبان سمجھا گیا۔ اردو میں تدریس پر یہ اعتراض تھا کہ ہمیں اپنی زبان میں تعلیم دی جائے۔ ہماری زبانوں کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے، ہماری زبان کے خاتمے کی کوشش کی گئی تو صفحہء ہستی سے مٹا دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن جب انگریزی زبان کی بات ہوتی ہے تو کسی کو اپنی زبان کی فکر نہیں ہوتی۔ کوئی نہیں روتا، کوئی نہیں چلّاتا۔
انگریزی زبان کو تدریسی زبان قرار دیے جانے کے حوالے سے اول الذکر دو محرکات کا زیادہ کردار ہے۔ ایک تو یہ کہ پرائیویٹ اسکول انگریزی تدریس کی وجہ سے زیادہ کامیاب رہے ہیں حالانکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی کامیابی کی اصل وجہ انگریزی زبان میں تدریس نہیں ہے ، انگریزی زبان تو محض عوام کی مغرب زدہ نفسیات کے تناظر میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے اپنائی ہے۔ ان کی کامیابی کے پیچھے تعلیمی ادارے کے مالک کی کاروباری ذہنیت، بہتر انتظام و انصرام،اساتذہ کی مناسب تعداد، مناسب ماحول کی دستیابی بشمول مناسب تعداد میں انفراسٹرکچر، اساتذہ کی محنت اور جوابدہی، اساتذہ کی تربیت اور مناسب رہنمائی ، والدین کی شمولیت اور دلچسپی جیسے عوامل کار فرما ہیں۔ اگر انہی تمام چیزوں کے ساتھ اردو زبان میں تدریس کی جائے تو بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں، بلکہ یقیناًبہتر نتائج حاصل ہوں گے کیونکہ بچے اپنی تعلیم کو سمجھ رہے ہوں گے۔ ان کے لیے علم کو سمجھنے کے لیے زبان کا مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔ جتنی توانائی زبان کو سمجھنے کے لیے ضائع کی جاتی ہے اگر اسی توانائی کو علم کے حصول میں صرف کیا جائے تو یقیناًبچے کامیاب ہوں گے۔
دوسرا اہم مسئلہ اردو زبان کی علمی ذخائر کی تہی دستی کا ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت پہلے ہی مقتدرہ قومی زبان قائم کر چکی ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ مقتدرہ قومی زبان علمی اصطلاحات کو بگھاڑنے کی بجائے صرف علمی مواد کا اردو میں ترجمہ کر کے اپنے فرائض اوّلی کو انجام دیں تو کیا ہی بات ہو گی۔ علمی اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ یہ بچے کی مشکلات میں اضافہ کر دیتا ہے۔ مثلاً مجھے میٹرک کی فزکس میں اسراع پڑھایا گیا تھا۔ جب انٹر میں Acceleration کا پوچھا گیا تو پتا ہی نہیں چلا کہ کس چیز کی بات ہو رہی ہے اور پوری کلاس کے سامنے نکما ٹھہرا اور جب دوسرے لڑکے نے جواب دیا تو معلوم ہوا کہ یہ تو اسراع کی بات ہو رہی تھی۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ علمی اصطلاح کو انگریزی میں ہی رہنے دیا جائے باقی مواد کی زبان کو انگریزی کی بجائے اردو میں کیا جائے۔
رہی بات انگریزی زبان کی اہمیت کا کہ بندہ خواہ جتنا بھی پڑھے انگریزی کے بغیر اس دنیا میں جی ہی نہیں سکتا۔ مجھے بھی اتفاق ہے کہ دنیا میں کیا پاکستان میں بھی جب تک ہر جملے میں انگریزی کے دو چار ثقیل قسم کے الفاظ نہ بولے جائیں جینے نہیں دیا جاتا۔ اس کا سیدھا حل یہ ہے کہ انگریزی زبان کو میتھ اور سائنس کی طرح پڑھانے کی بجائے زبان کی طرح پڑھایا جائے۔ زبان سیکھنے کے لیے ماحول بہت ضروری ہے۔آپ گرامر رٹوا کر انگریزی زبان کا ماہر بنانے سے تو رہے۔ زبان بول چال سے ہی سیکھی جاسکتی ہے۔ کہیں اگر گرامر کی غلطی کر بیٹھے تو گناہ کبیرہ کا مرتکب نہیں ہو جاتا۔ جب بول چال سیکھ لے گا تو گرامر بھی سمجھنے لگے گا۔ جب ایک بچہ بولنے لگتا ہے تو کتنی غلطیاں کرتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی اپنے بچے کے غلط بولنے پر ، گرامر کی غلطی پر سزا دی ہے؟ ہرگز نہیں دی ہوگی بلکہ آپ تو اس کے توتلے زبان سے محظوظ ہوئے ہوں گے۔ اسکول میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ بچوں کو شروع سے ہی انگریزی بول چال کی تربیت دی جائے بجائے اس کے کہ گرامر کے ذریعے بور کیا جائے۔ اگر آپ جماعت پنجم تک بچے کو بول چال سکھانے میں کامیاب ہو جائیں تو ششم تا ہشتم کے تین سال میں بچے کو پوری گرامر پڑھایا جا سکتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button