کالمز

میاں نواز شریف کا سرُور محل ۔۔۔۔ دوسری قسط۔۔۔۔۔۔

( میں اس وقت پی ٹی آئ سے منسلک نہیں تھا)

جب ہم سرُور محل کے مہمان خانے میں پہنچے میاں محمد شریف صاحب اور میاں شہباز شریف صاحب کے اس ہال میں داخل ھونے سے قبل جب اس حال میں موجود مہمانوں کو ہمارا بے آئین دھرتی گلگت بلتستان سے تعلق کا پتہ چلا تو ایک کشمیری بھائ جو ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکا تھا نے حسب عادت اپنا تاریخی جملہ دھرا دیا کہ” گلگت بلتستان تو کشمیر کا حصہ ھے*۔۔۔۔

مجھے دو باتوں پہ غصہ آتا ھے ایک مجھے خان صاحب کے نام سے پکارا جائے . وہ اس لئے کہ مجھے ایسا لگتا ھے کہ مجھے بیوقوف سرپھرا جاہل سمجھ کر اور نسوار کھانے کا طعنہ دیا جاتا ھے۔ خیر ایسی بات بھی نہیں ہے۔ پٹھان ایک عظیم قوم ھے۔ ہمیں پشتو نہیں آتی اور پٹھانوں کو شینا اور بلتی نہیں آتی۔ صرف ظاہری شکل و صورت یا پھر لباس میں مماثلت کی وجہ سے ہمیں خان صاحب کے لقب سے خاص کر پنجاب کے بھائی پکارتے ھیں۔ لفظ خان صاحب سے صرف میں نہیں میرا تجربہ یہ ھے کہ گلگت بلتستان کے اکثر افراد غصہ کر جاتے ھیں .ہماری اور پٹھانوں کی کچھ مماثلتوں کی ہی وجہ سے تو وفاقی حکومت اکثر کشمیر آفیرزاور گلگت بلتستان کا وزیر کسی پٹھان کو مقرر کرتی رھی ھے.

دوسرا جملہ جس پر مجھے شدید غصہ آتا ہے یہ ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ھے. اس پر اس لیئے کہ کشمیر ایشو کی وجہ سے ہم نہ ادھر کے رھے ہیں، نہ ادھر کے۔ ہم 68 سال سے بنیادی حقوق سے محروم رھے۔ ہم گلگت بلتستان بنے گا پاکستان کا نعرہ لگا کر بھی غدار کہلائے اور کشمیری کشمیر بنے گا خود مختار کا نعرہ لگا کر بھی پاکستان کی آنکھوں کا تارا رھے۔ اس کا ثبوت کشمیری دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پنڈی اسلام آباد آ کر بھی کہتے ہیں کہ پاکستان گیُے سیں اور گلگت بلتستان کا باسی سیاچن کے دامن گومہ، خنجراب، یاسین، منی مرگ، استور سے سینکڑوں میل سفر کر کے پنڈی اسلام آباد آ کر بھی نہیں کہتا ھے کہ پاکستان گیا تھا بلکہ اس شہر کا نام بتاتا ھے۔ پاکستان کو اپنا ملک سمجھتا ھے۔

میرے بتانے کا مقصد یہ ھے دوسرا کوئ ٹورسٹ پاکستان کے کسی بھی شہر سے گلگت بلتستان آتا ھے تو مقامی لوگ ان سے سوال کرتے ھیں کس شہر سے آئیے ھو اور جب یہی ٹورسٹ آذاد کشمیر کہیں بھی جاتا ھے تو کوئ بھی شخص ان سے پہلا سوال یہ کرے گا کہ پاکستان سے آئے ھو تو یہ جملہ اس کو سوچنے پر مجبور کرتا ھے کہ ہم تو کہتے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان اور ان کے ذہن میں ابھی سے خود مختاری کا بھوت سوار ھے اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خود مختاری کا جن بوتل سے باہر آئے گا۔

تب شاید گلگت بلتستان میں بھی وفاق کے خلاف ایک مظبوط تحریک جنم لے چکی ھوگی۔ تب استصواب رائے کا نقشہ کیا ھوگا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔

ھاں تو بات لمبی ھو گئ جب مہمانوں میں موجود ایک کشمیری بھائی نے وہی وراثت کا دعوہ کیا گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ھے تو میں نے اس کی مخالفت کی آپ کے حساب سے اگر تاریخی طور پر گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ھے تو پھر تو کشمیر گلگت بلتستان اور موجودہ اور سابقہ بشمول بنگال پاکستان بر صغیر پاک وہند کا حصہ رھے ھیں اور بر صغیر پاک وہند برطانیہ کا حصہ رہا ھے تو اب ان سب ممالک اور علاقوں پر تو برطانیہ کا دعوی ذیادہ مضبوط ھے اور منوانے کی پوزیشن میں بھی ھیں تو پھر یہ تقسیم کی لائنیں مٹ جانی چائیے اور تاج برطانیہ کا پرچم ہمارے سروں پر دوبارہ لہرانا چاھئے تاکہ نہ رھے بانس اور نہ بجے بانسری۔

میری اس بات کی تائید بریگیڈئیر جاوید جو میاں صاحب کے ملٹری سیکریٹری ھوا کرتے تھے بھی کریں گے۔ میاں نواز شریف صاحب کے ساتھ برگیڈئیر جاوید بھی جلاوطنی گزار رھے تھے وہ بھی ہمارے ساتھاس ہال میں میاں نواز شریف صاحب کا انتظار کررھے تھے.وہ بھی اسی سرُور محل میں رھائش پزیر تھے صرف وہ نہیں میاں برادران کی تمام فیملی کے علاوہ نوکر چاکر خانسامے سوائے حمزہ شہباز کے شاید جسے برادر یوسف ؑ کی طرح مشرف صاحب نے معاہدے پر عمل درآمد کے لیئے بطورضمانت پاکستان میں رکھا تھا .

اتنے میں میاں شہباز شریف میاں محمد شریف صاحب جو ایک وہیل چیئر پر دونوں ہال میں داخل ھو جاتے ھیں مہمانوں سے علیک سلیک کے بعد میاں محمد شریف صاحب کی نشت میاں نواز شریف کی نشست کے ساتھ لگا دی جاتی ھے اب ہم سب کو مہمان خصوصی میاں نواز شریف صاحب کا انتظار رھتا ھے اتنے میں ہال میں میاں نواز شریف کے آنے کی اطلاع پر ہل چل مچ جاتی ھے آگیاآ گیا ۔۔۔۔۔جاری ھے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button