کالمز

ایک نئی جدوجہد کا آغاز۔۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک محترم دوست نے مجھے سوشل میڈیا پر کسی کشمیری فورم پر مباحثے میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔ بحیثیت باشندہ گلگت بلتستان میں اُن افراد کے ساتھ شامل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا جو پچھلے اٹھاسٹھ سالوں سے حقوق گلگت بلتستان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوں۔ لیکن اُن صاحب کے اصرار پر میں نے حامی بھر لی اور اس نیت کے ساتھ اس فورم میں شامل ہوا کہ آزاد کشمیر کے حکمرانوں اور عوام سے اُنہی کے انداز میں جارحانہ گفتگو کرنا ہے۔

یہ پہلا موقع تھا کہ میں اُن کے درمیان جا رہا ہوں جو دنیا بھر میں مقیم ہیں اور سیاسی حوالے سے ہم سے ذیادہ شعور رکھتے ہیں لہذا اس شک کی پراہ کئے بغیر کہ مجھے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا،میں نے اٹھاسٹھ سالہ محرمیوں کا ایک ہی دن میں انتقام لینے کی نیت سے غم اور غصے کا پہلا توپ چلایا ۔ ابھی میں اپنی بے عزت کا انتظار کر رہا تھااگلے لمحے میں ایک دھیمی آواز میں ایک صاحب میری باتوں کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگے آپ بلکل حق بجانب ہے اور ہم کشمیر ی عوام آپ کے مجرم ہیں اور ہم معذرت خواہ ہیں۔

میں بے یقینی کے عالم میں ابھی سوچ ہی رہا تھا ایک اور صاحب مجھے ویلکم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ واقعی میں جی بی کی عوام کے ساتھ مظفرآباد کے حکمرانوں نے بہت ذیادتی کی ہے جس کا ہم دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کو احساس ہے اور ہم ازالہ کرنا چاہتے ہیں یوں ہر ایک نے میری تائید کی اورسب کا یہی رائے تھا کہ واقعی میں ہمارے عوام کے ساتھ ذیادتی ہوئی ہے۔یہ پہلا موقع تھا کہ میں کشمیری باشندوں کے ساتھ مباحثے میں حصہ لیکر خوشی محسوس کرتے ہوئے سوچ رہا تھاکہ مظفر آباد کی دنیا سے نکل کر بھی لوگ ہیں جو پڑھے لکھے ، سمجھدار اور یورپ ،امریکہ ،افریقی اور خلیجی ممالک ،بھارت اور چین،ہانک کانگ میں بیٹھ کر گلگت بلتستان کی مستقبل کے حوالے سے فکرمند رہتے ہیں ۔ورنہ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ایک مظفر آباد کے حکمران ہی متحدہ کشمیر کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہی لوگ سیاسی طاقت کی بنیاد پرجی بی کو آزاد کشمیر کے ساتھ ضم کرکے ہماری تاریخی اہمیت اور حیثیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کام کیلئے حکومت گلگت بلتستان بشمول کچھ مقامی افراد بھی برسرپیکار ہیں۔

یہاں قارئین کی آسانی کیلئے اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ وفاق پاکستان نے جس انداز میں بڑی بے رخی کے ساتھ اس بات کا اعلان کیا کہ ہم مسلہ کشمیر کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں کوئی رد بدل کرنا نہیں چاہتاجس سے کشمیر کاز کو نقصان پونچے،یعنی گلگت بلتستان کا آئینی صوبہ بننا ہمارے لئے آج آٹھاسٹھ سال بعد بھی خواب بن کر رہ گیا جو کہہ ہم سب کیلئے یقیناًباعث تکلیف ہیں چونکہ چود ہ نومبر انیس سو ستالیس لیکر آج تکہمارے عوام اس امید سے جی رہے تھے کہ وہ دن دور نہیں جب گلگت بلتستان کے عوام بھی قانونی اور آئینی طور پر پاکستانی کہلائیں گے لیکن تمام تر اُمیدوں پر پانی پھر گیا اور اقتصادی راہداری سے لیکر ریاستی حقوق اور دیگر تمام معاملات میں گلگت بلتستان کو بلکل ہی نظرانداز کیاگیا۔ یہاں تک کہ گلگت بلتستان کی موجودہ جغرافیے کو تبدیل کرنے کی بات اپنے کارندوں سے کروایا گیا۔

عام طور ہمارے معاشرے میں ہماری محرومیوں کا اصل ذمہ دار آزاد کشمیر کے حکمرانوں کو سمجھتے ہیں جنہوں نے معاہدہ کراچی میں ہمیں باندھ کر کبھی پلٹ کر پوچھا بھی نہیں اور جب کبھی وفاق کی طرف سے گلگت بلتستان کو لولی پاپ دینے کی بات آئی تو مظفر آباد کے حکمرانوں کاجارحانہ رویہ ہم سب کیلئے نہایت ہی تکلیف دہ رہا ہے۔یہی سارے شکوے شکایت لیکر جب ہم اُس فورم پر گئے تو اُن سب نے پہلے فراخ دلی کے ساتھ مجھ سمیت گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے تمام ممبران فورم کی بات کوسُننے کے بعد مشورہ دیا کہ ہم مسلہ گلگت بلتستان کویہاں کے عوام کی اُمنگوں اور عالمی قوانین کی روشنی میں حل کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے ہم سب نے ملکر ایک قومی پلیٹ فرام بنا کر عالمی سطح پر گلگت بلتستان ،لداخ ،اور جموں کشمیر کی حقوق کیلئے آواز بلند کرنا ہے اور اس سلسلے میں متازعہ ریاست کے تمام اکائیوں کو یکجا کرکے۔ ایک متفقہ قراداد پیش کرنے کی سفارش کی گئی ۔جس پر گلگت بلتستان، آزاد کشمیر،مقبوضہ کشمیر اور لداخ سے تعلق رکھنے والے تمام ممبران نے اعتماد کا اظہار کیا اور نہایت ہی کم وقت میں ایک چارٹرڈ آف ڈیمانڈ مرتب کیا جس کے تحت مستقبل میں متازعہ گلگت بلتستان اور ریاست جموں کشمیر اور لداخ کے عوام کی حقوق کیلئے ہر فورم پر کوشش کی جائے گی۔

اس قرارداد کے مندرجات کچھ اس طرح سے ہیں:

1۔ مسئلہ کشمیر کے متاثرہ فریقوں (گلگت بلتستان، پاکستانی اور ہندوستانی زیر انتظام کشمیر) کے لوگوں کو قریب لانا اور ان کے درمیان مفاہمت پیدا کرنا تاکہ غلط فہمیوں اور دوریوں کا خاتمہ کرکے محبتوں اور تعاون کی فضا کو فروغ دیا جا سکے۔

2۔ مسئلہ کشمیر کے متاثرہ و متنازعہ علاقوں بلخصوص گلگت بلتستان کے لوگوں کی بنیادی حقوق کیلئے کوششیں کرنا اور ان کو حق حکمرانی دلانے کیلئے جدو جہد کرنا تاکہ مسئلہ کشمیر کو متاثر کئے بغیر گلگت بلتستان کی قومی محرومیوں کا خاتمہ کیا جا سکے ۔

3۔ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر گلگت بلتستان کے لوگوں کے درمیان ایک ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک متاثرہ عوام کو اقوام متحدہ کی قرارد ادوں کے مطابق ان کاجائز مقام اور حق دلایا جا سکے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عوامی سطح پر جدو جہد کیا جا سکے۔

4۔ پاکستان، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کے بہتر نظام زندگی کیلئے متعلقہ حکومتوں کو سفارشات پیش کرنا اور ان شفارشات پر عملدرآمد کیلئے کوششیں کرنا نیز مسئلہ کشمیر سے تعلق تمام فریقوں کو عوامی رائے اور مطالبات سے با خبر رکھنا تاکہ کسی بھی ممکنہ فیصلہ سازی میں عوامی رائے اور عوامی مفادات کا خیال رکھا جا سکے۔

5۔سی پیک، دیامر بھاشا ڈیم سمیت دیگر میگا پراجیکٹس میں گلگت بلتستان کے حقوق کی تحفظ اور گلگت بلتستان کے عوام کو مکمل حصہ دار بنانے کیلئے مشترکہ جد و جہد کرنا۔

6۔تینوں منقسم خطوں میں غیر متشدد عوامی اور جمہوری جد و جہدکرنے ولے سیاسی قائدین اور کارکنوں کو اخلاقی اور سیاسی سپورٹ دینا اور متعلقہ حکومتوں کی طرف سے ان پر بلاجواز اور سیاسی بنیاد پر قائم کئے جانیوالے مقدمات کی حوصلہ شکنی کرنا تاکہ سیاسی قائدین اور کارکن اپنے حقوق کیلئے آزادانہ جمہوری جدو جہد کیا جاسکے اور جمہوری اقدار کو بھی فروغٖ مل سکے۔

7۔ تینوں منقسم خطوں کے دریاوں، ڈیموں اور معدنیات اور ریگر قدرتی وسائل پر متعلقہ خطے کا پہلا حق تسلیم کرتے ہوے پوری پوری رائلٹی حاصل کرنے کیلئے متعلقہ خطے کے عوام کی اخلاقی و سیاسی مدد کرنا۔

8۔گلگت بلتستان سے متعلق معاہدہ کراچی کی منسوخی اور گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کیلئے مشترکہ جد و جہد کرنا۔

9۔ عالمی جمہوری اصولوں کے تحت تینوں متنازع خطے پاکستان اور ہندوستان کے لئے متنازع ہیں یہاں کے عوام کیلئے حق حکمرانی اور حق ملکیت ہر گز متنازع نہیں لہذا اقوام متحدہ کے قرادادوں کے مطابق تینوں منقسم خطوں میں آزاد خود مختار عوامی اسمبلی کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے مشترکہ جد وجہد کرنا۔

10۔مسئلہ کشمیر کے تینوں منقسم خطوں سے ہندوستانی اور پاکستانی افواج کا انخلاء اور آزادانہ رائے شماری کے زریعے تینوں خطوں کے عوام کو آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے راہ ہموار کرنے کیلئے جد و جہد کرنا۔

11۔ گلگت بلتستان اور آذاد میں اکتوبر، نومبر 1947میں قائم شدہ خود مختار مقامی حکومتیں بحال کرنے کیلئے جدوجہد کرنا۔

12۔ سی پیک کے منصوبے کو جی بی میں ایک آئین ساز اسمبلی کی منظوری سے مشروط کرنے کیلئے جدوجہد کرنا۔

اس مسودے کی روشنی میں کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ سب سے پہلے 25 اپریل کو یوم یکجہتی گلگت بلتستان منانا اور اس چارٹرڈ کی روشنی میں حقوق گلگت بلتستان کے حوالے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں تاکہ مسلہ گلگت بلتستان کو عالمی سطح پر اُجاگر کر سکے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button