کالمز

غیرت کے نام پر قتل غیرت نہیں ہے

وزیر اعظم محمد نواز شریف نے حالیہ دنوں ایوان وزیر اعظم میں شر مین عبید چنائے کی غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر بنائی گئی فلم کی تقریب رونمائی سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ” غیرت کے نام پر قتل غیرت نہیں بلکہ سنگین جرم ہے اور اس قابل نفرت جرم کے خاتمے کے لئے حکومت کردار ادا کرے گی۔”
پاکستانی فلم ساز خاتون شیرمین عبید چنائے کی غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر بنائی گئی فلم ” A Girl in the River” کو عالمی آسکر ایواڑ کے لئے منتخب کیا گیا ہے ۔ اس سے قبل چہروں پر تیزاب پھینک کر ظلم کا شکار بنائی جانے والی خواتین کے موضوع پر "Saving Face” کے نام سے ان کی ایک اور فلم بھی عالمی شہرت حاصل کر چکی ہے جس کے لئے ان کو آسکر ایواڑ سے نوازا جاچکا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل دنیا کے کئی ممالک کا اہم مسلہ ہے مگر پاکستان میں یہ مسلہ بہت نمایا ں ہے۔ پاکستان میں 2008 ؁ء میں تین ہزار خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیاتھا ۔ ایچ آر سی پی کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 ؁ء میں23 9 خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی گئیں تھیں جن میں سے 82 کم عمر بچیاں تھیں۔ جبکہ 2015 ؁ء کے اعدادو شمار بھی ان سے مختلف نہیں ہیں۔
صرف گلگت بلتستان کا ذکر کیا جائے تو ایچ آر سی پی کے اعدادو شمار کے مطابق غیرت کے نام پر جرائم کی سالانہ تعداد 70 سے زائد ہے ۔ یہ وہ کیسز ہیں جو کہ ریکارڈ میں آئے ہیں، جو ریکارڈ میں نہیں آئے ہیں ان کی تعداد ان سے کئی گنا زیادہ ہے۔ گلگت بلتستان میں سال 2015 ؁ء میں50 سے زائد خواتین و مرد غیرت کے نام پر قتل ہوئے ہیں جن میں سے اکثر کو خود کشی یا طبی موت کا رنگ دیا گیا ہے۔ ماہانہ وار اعدادو شمار کا جائزہ لیا جائے تو سال 2015 ؁ء جنوری میں5، فروری میں4، مارچ میں 2، اپریل میں 4، مئی میں 2، جون میں 4، جولائی میں 3، اگست میں 9، ستمبر میں 5، اکتوبر میں 2، نومبر میں 4 اور دسمبر میں 6 کے قریب خواتین اور مرد غیرت کے نام پر قتل ہوچکے ہیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو ماہانہ غیرت کے نام پر اوسطا 4قتل ہوتے ہیں جبکہ ماہانہ 6کے قریب جرائم غیرت کے نام پر رونماء ہوتے ہیں۔ ان جرائم میں خاندان، قبیلہ ، رشتہ دار یا کمیونٹی کے مردوں کی طرف سے اکثر خواتین ٹارگٹ ہوتی ہیں۔ بعض اوقات مردوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ان جرائم میں مار پیٹ،تشدد، حراساں کرنا ، زبردستی شادی یا قتل کرنا شامل ہیں۔
غیرت کے نام پر جرائم کی اکثر وجوہات میں کردار پر شک، آشنا کے ساتھ فون پر گفتگو، ناجائز تعلقات یا جنسی تعلقات، پسند کی شادی، دوسرے فرقے میں شادی، خاندان کی طرف سے طے کی گئی پسند کی شادی سے انکار، گھر کے افراد کی طرف سے عائد پابندیوں کو خاطر میں نہ لانا، گھر کے افراد کی مر ضی کے بغیر تعلیم، شادی، روزگار وغیرہ کا خود فیصلہ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
2004 ؁ء میں دو آزاد محققین عزیز احمد اور سلطان رحیم برچہ کی طرف سے ضلع غذر میں خود کشیوں پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق جن واقعات کو خود کشیوں کا رنگ دیا جاتا ہے ان میں 60 فیصد غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ان واقعات پر تفتیش کا نظام موثر نہیں ہے اس لئے غیرت کے نام پر قتل اور خود کشی میں فرق نہیں کیا جاتا ہے۔
اکثر ایسے واقعات جن میں غیرت کے نام پر قتل کو خود کشی کا نام دیا جاتا ہے ان میں لواحقین پوسٹ مارٹم کرانے سے گریز کرتے ہیں اس کے لئے وہ سیاسی ، مذہبی اور دیگر اقسام کے اثر رسوخ کا استعمال کرتے ہیں۔
اگر کوئی شخص غیر ت کے نام پر قتل کے بعد اس کا اعتراف بھی کر لے تو قانونِ دیت کے تحت وارثین ان کو فی سبیل اللہ معاف کر دیتے ہیں اور ملزم بری ہوجاتا ہے ۔خاندان میں بھائی یا کوئی اور فرد اگر کسی خاتون کو قتل کرتا ہے تو اس میں وہ گھر کے دیگر افراد کو پہلے ہی اعتماد میں لیتا ہے پھر قتل کے بعد اس واقع کی ایف آئی آر درج کرانے کے لئے کوئی مدعی نہیں بنتا ہے ۔ اگر کوئی فرد مد عی بن بھی جائے تو وہ بعد ازاں قاتل کو معاف کر دیتا ہے۔ اس لئے اکثر ملزمان کو غیرت کے نام پر قتل کا ارتکاب کرتے وقت اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ وہ بعد ازاں با آسانی چھٹ جائیں گے ۔تاہم خاندان سے باہر کسی کو غیرت کے نام پر قتل کیا جائے تو مدعی یا تو بھاری رقم لے کر صلح کرتا ہے یا ملزم کو سزامل جاتی ہے۔
پاکستان میں 1990 ؁ء میں پاکستان انگریزوں کے دور سے چلنے والے قانون، پینل کوڈ کا دفعہ 238 اور 229 میں ترمیم کر کے اسلامی قانون یعنی قصاص اور قانون دیت متعارف کرایا گیا تھا۔ جس کے تحت کریمنل پروسیجر کوڈ میں ترمیم کر کے مقتول کے قانونی وارثین کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ قتل کے مقدمے میں قصاص کے بدلے میں دیت کا معاوضہ (خون بہا) ادا کر کے صلح کر سکتے ہیں۔ 1997 ؁ء میں اس آرڈننس کو پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت قانون کا درجہ دیا گیا۔ جس کے تحت قتل کوریاست یا معاشرے کے خلاف جرم کی بجائے دو افراد کے آپس کا جرم قرار دیا گیا۔لہذا اس قانون کے تحت کسی بھی قتل کے مقدمے کی پیروی کرنا،مقدمہ بازی کرنااور ملزم کو سزا دلانامقتول کے قانونی وارثین کی مر ضی پر منحصر ہے ۔ چند سال قبل لاہور میں قتل کے ایک امریکی ملزم ریمن ڈیوس کو اسی قانون کے تحت رقم لے کر رہائی دلائی گئی تھی۔ غیرت کے نام پر جتنے قتل ہوتے ہیں وہ بھی اسی قانون سے فائدہ اُ ٹھاتے ہیں اور ان کو مختصر وقت میں رہا ئی مل جاتی ہے۔ قتل کے دیگر واقعات میں خو ن بہا دیا جاتا ہے مگر غیرت کے نام پہ قتل میں اکثر گھر کا کوئی فرد ملوث ہوتا ہے اس لئے اس میں اکثر فی سبیل اللہ معاف کیا جاتا ہے۔
شیرمین عبید چنائے اور پاکستان کی سول سوسائٹی کا بنیادی مطالبہ یہ رہا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے جرم کو دہشت گردی کی طرح ریاست اور معاشرے کے خلاف جرم تصور کیا جائے تاکہ کوئی شخص مقدمے میں مدعی بن کر قاتل کو بلامعاوضہ معاف نہ کر سکے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو سزا مل سکے۔ مگر اس میں اسلامی قانون آڑے آتا ہے جس کے لئے آئین کی رو سے کونسل آف اسلامک آئیڈیلوجی پاکستان سے رائے لینا ضروری ہے۔
اب وزیر اعظم نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف سخت اقدامات اُٹھانے کی بات کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا وزیر اعظم اب اس معاملے میں کوئی نیاء قانون متعارف کراتے ہیں جس کے تحت کسی شخص کا قتل اس کی ذات کی بجائے معاشرہ اور ریاست کے خلاف جرم تصور ہو گایا کوئی اور اقدام کرتے ہیں جس کے تحت صرف غیرت کے نام پر قتل کے مجرم کو گرفت میں لایا جا سکے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ غیرت کے نام پر بڑھتے ہوئے اس قابل نفرت جرم کے خلاف ایسے ضروری اقدامات کئے جائیں جن سے اس جرم کے مرتکب ہونے والے افراد کو قرار واقعی سزا مل سکے۔ اس ضمن میں کونسل آف اسلامک آئیڈیلوجی پاکستان کی مدد سے قومی سطح پر قانونی پیچیدگیوں کو دور کرے کے اس جرم کے مرتکب ہونے والوں کو سزا دلائی جاسکتی ہے وگرنہ معاشرے میں اس جرم کا ارتکاب ہوتا رہے گا اور سالانہ سیکنڈوں لوگ اسی طرح لقمہ اجل بنتے رہیں گے۔
ختم شد

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button