کالمز

پاک چین اقتصادی راہداری اور گلگت بلتستان

چھتالیس ارب ڈالر لاگت سے شروع ہونے والے پاک چین اقتصادی راہدای کے بڑے منصوبے سے یقیناًپاکستان کی معاشی قسمت بدل جائے گی،اور ملک کی معیشت میں انقلاب برپا ہوگا۔ اچھی بات ہے۔ اس منصوبے کے شروع ہونے سے ہمیں خوشی ہے اور یقیناًخوشی ہونی بھی چاہیے۔ اس منصوبے کی ٹوٹل لمبائی 2395کلومیٹر ہے۔ منصوبے پر چھتالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی، جس میں سے35ارب ڈالر تونائی پر خرچ ہوگی۔ دستیاب معلومات کے مطابق 11.5ارب ڈالر سندھ 9.5ارب ڈالر خبیر پختون خواہ 7.1ارب ڈالر بلوچستان اور 6.9 ارب ڈالر پنجاب میں خرچ ہونگے۔ اس کے علاوہ 11ارب ڈالر سٹرکیں ،ریلوے اور فائبر آپٹکس منصوبوں  پر خرچ ہونگے۔ اس منصوبے کا ایک بہت اہم حصہ گلگت بلتستان سے گزرے گا۔ اس کے علاوہ خاص بات یہ بھی ہے اس منصوبے کا مین گیٹ یعنی ابتدائی روٹ، پہلا دروازہ گلگت بلتستان کے علاقے خنجراب سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان اور چین کے درمیان اس منصوبے کے حوالے سے ہونے والے معاہدے میں کسی جگہ پر بھی گلگت بلتستان کا نام شامل نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کو اس بڑے منصوبے میں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے یہ بات گلگت بلتستان کے ساتھ کس قدر ظلم اور ناانصافی ہے اس کا اندازہ شاید گلگت بلتستان کے عوام کو ہونے کے باوجود بھی احساس نہیں ہے اس پروجیکٹ کے حوالے سے وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں بنائے جانے والے کمیشن میں گلگت بلتستان سے کوئی ایک نمائندہ بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ سی پیک منصوبے کے سربراہ و فاقی وزیر احسن اقبال سمیت کوئی بھی نمائندے جو اس منصوبے کاکسی نا کسی حوالے سے حصہ ہے کسی بھی تقریب یا میڈیا ٹاک شو میں اس منصوبے پر بات کرتے ہوئے گلگت بلتستا ن کا نام لینا بھی گوارہ نہیں کرتے ہیں حالانکہ باقی تمام صوبوں کا نام لیتے ہیں جہاں سے اس کا روٹ گزر تاہے۔

سینئر صحافی اور جیونیوز کے پروگرام جرگہ کے میزبان جناب سلیم صافی کے 6فروری 2016کو نشر ہونے والے پروگرام کو دیکھنے کے بعد اس بڑے منصوبے کے حوالے سے وفاقی حکومت کی نیت کا اندازہ ہوگیا ۔میڈیا رپوررٹ کے مطابق لاہور سے ملتان موٹرے اور لاہور اورینج ٹرین منصوبہ سمیت متعد د پروجیکٹ کو اس منصوبے میں شامل کر کے کام شروع کیا گیاہے مگراس منصوبے کے تحت گلگت بلتستان میں کسی پروجیکٹ پر کام کرنا تو دور کی بات گلگت بلتستان کا نام تک شامل نہیں کیا گیا ہے میں جناب سلیم صافی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت شروع ہونے والے منصوبوں اور پاک چین حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور وفاقی حکومت کی اصل چہرے کو سامنے لا کر اس منصوبے کی حقیقت سامنے لایا۔ اس پروگرام کو دیکھنے کے بعد میرا شک یقین میں بدل گیا کہ وفاقی حکومت وفاق میں جھوٹ بول کر اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے تو ان کو گلگت بلتستان کے خوش آمد پسند سیاسی لوگوں کو بے وقوف بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

خیبر پختون خواہ کو اس منصوبے میں نظر انداز کرنے کے خدشے پر وہاں کے تمام سیاسی پارٹیاں یکجا ہو گئیں اور کئی بار آل پارٹی کانفرنس کر کے وفاقی حکومت کے سامنے احتجاج کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیر اعظم پاکستان خود وہاں جا کر ان کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی پاکستان اور چین کے درمیان اس منصوبے کے حوالے سے19اور23 اگست 2014کو ہونے والے میٹینگ میں کئے جانے والے فیصلے کے مطابق ارٹیکل ون کے سیکشن اے میں صرف قراقرم ہائی وے فیزٹوکا نام لکھا گیا ہے وہ بھی تھاکوٹ سے شروع ہوکر کے حوایلیاں تک ہے اس کے علاوہ اس میں لاہور ملتان موٹروے ،کراچی لاہور موٹروے، گوادر ایسٹ موٹروے اور نیو گوادر ایرپورٹ شامل ہے جو کہ ان منصوبوں کو اپریل 2015کوفائنل شکل دے دی گئی ہے اس کے علاوہ گزشتہ دنوں ہمارے کچھ دوست اس منصوبے کے اہم رکن سنیٹر مشاہد حسین سید سے ملاقات کی اور اس میں بھی مشاہد حسین سید نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ اس منصوبے میں گلگت بلتستان کا کئی حصہ شامل نہیں ہے اور نہ کیا جا رہا ہے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے اپوزیشن میں موجود سیاسی جماعتوں کی جانب سے صرف اخباروں کی حد تک کچھ دن شور مچایاگیا جو کہ اب وہ بھی خاموش ہو گئے ہیں حکومتی جماعت تو وفاق کے سامنے اللہ میاں کی گائے بنے ہوئے ہیں ان کو گلگت بلتستان کے ساتھ ہونے والے ناانصافی سے کوئی سروکار نہیں ہے ان کو صرف فکر ہے تو بس صرف اپنے سیٹ بچانے سے ہے انتے بڑے منصوبے پر وزیر اعظم پاکستان ہر دوسرے دن کسی نہ کسی شہر میں افتتاح کر کے کام کا آغاز کررہے ہیں مگر گلگت بلتستان کے حکمران جماعت کے نمائندے صرف اپنی کرسی بچانے پے لگے ہوئے ہیں گلگت بلتستان کے ساتھ اس وقت اس بڑے منصوبے میں ہونے والے زیادتی میں سیاسی لوگوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی شامل ہیں تمام چیزوں کا علم ہونے کے باوجود ابھی تک ہم خاموش بیٹھے ہوئے ہیں اس منصوبے میں اگر گلگت بلتستان شامل نہیں ہو گیا تو ہمارے آنے والے نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کرینگی۔

میں گلگت بلتستان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے لوگوں سے خواہ اسمبلی میں ہو یا نہ ہو گزارش کروں گا کہ وہ ہر فورم پر آواز بلند کر کے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ یہ وقت پھر کبھی نہیں آئے گا ہم نے بہت دیر کی ہے اب ہمارے لئے ایک ایک سکینڈانتہائی اہم ہے حکومت میں موجود سیاسی نمائندوں سے بھی گزارش ہے کہ یہ سیٹ پھر سے ملیں گے مگر یہ وقت پھر سے نہیں آئے گا وفاق میں موجود آپ کے جماعت ہمارے گلگت بلتستان سے ذر ا برابر مخلص نہیں ہے یہ بات حقیقت ہے اس میں آپ لوگوں کا کردار زیادہ بنتا ہے کیونکہ موجودہ وزیراعظم اور حکومت آپ کے پارٹی کا ہے آپ لوگ سب مل کر جائیں اور وفاق پر دباؤ ڈالیں آپ لوگوں کے پیچھے پورے گلگت بلتستان کے عوام کھڑے ہیں ہم کبھی اس بڑے منصوبے کے مخالف تھے اور نہ کبھی اس کی مخالف کریں گے ہم صرف اس میں اپنا حصہ چاہتے ہیں جو کہ ہمارا حق ہے۔

اس منصوبے سے متعلق تمام تر حقیقت سامنے موجود ہے آپ لوگوں کو وفاقی حکومت کے سامنے جا کر جھکنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کب تک آپ لوگ اپنے مفاد کے سامنے علاقے کے مفادات بیچتے رہیں گے؟

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں موجود تمام اراکین مل کر آواز بلند کریں اگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو اسلام آباد جا کر نیشنل اسمبلی کے سامنے دھرنے دیں۔ گلگت بلتستان کے عوام نے اس لئے آپ لوگوں کی اسمبلی میں نہیں بھیجا ہے کہ گلگت بلتستان کے ساتھ ہونے والے ہر ناانصافی پہ آپ خاموش رہیں، بلکہ اس لئے ووٹ دیا ہے کہ آپ لوگ گلگت بلتستان کی حقوق کی تحفظ کریں۔

وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن صاحب آپ گلگت بلتستان کے سربراہ بھی ہیں، اس لئے آپ عہدہ بچانے کی بجائے وفاق کے سامنے ڈٹ جائیں اور اپنے قائد کی جانب سے گلگت بلتستان پر کئے جانے والے ظلم کا دفاع نہ کریں۔

اس منصوبے سے گلگت بلتستان محروم ہونے کی صورت میں بحیثیت وزیر اعلیٰ کے گلگت بلتستان کی قوم آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ وقت تیزی سے گزرتاجا رہا ہے اور آپ سمیت حکومت میں موجود تمام اراکین خاموش ہیں۔ وزیر اعلیٰ صاحب آپ کو یہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے عوام نے بنایا ہے اس لئے آپ کو گلگت بلتستان اور یہاں کے عوام کی مفادات کو زیادہ ترجیح دینی چاہیے۔ آپ لوگوں کے اخباروں میں دینے والے سیاسی بیانات سے یہاں کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام یہ چاہتے ہیں کہ اس منصوبے کے فوائد میں یہ خطہ بھی شامل ہو جائے، ہمیں بھی حصہ ملے جو کہ ابھی تک ہمیں محروم رکھا گیا ہے۔ میں اس کالم کو پڑھنے والے تمام لوگوں سے بھی گزارش کروں گا کہ وہ اس حقیقت سے اپنے آس پاس کے لوگوں کو آگاہ کریں اورگلگت بلتستان کو اس منصوبے میں شامل کرانے کے لئے ہر ایک اپنا کردار ادا کریں کیونکہ یہ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ گلگت بلتستان میں اس منصوبے کے حوالے سے ہمارے سیاسی نمائندے غلط بیانی کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گلگت بلتستان میں اکنامک زون بنائے جائیں گے میرے گلگت بلتستان کے لوگو تھوڑاغور کرو کہ اس منصوبے سے ہمیں مکمل طور پر باہر کر کے اس کے تحت ہونے والے کسی بھی پروجیکٹ میں ہمیں حصہ نہیں دیا کیا گیا ہے تو کیا ہمارے یہاں اکنامک زون بنے گا؟حالانکہ پاکستان کے دیگر شہروں میں دیگر منصوبوں پرکام بھی شروع ہوچکا ہے جب اکنامک زون کے حوالے سے کام شروع ہو گا تو ہم دیکھیں گے ۔مگر بات یہ بھی حقیقت ہے کہ اکنامک زون کے جگہ کے تعین کے لئے بھی چینی حکام نے پاکستان کو مکمل اختیارات دی ہیں۔ اس کا فیصلہ بھی پاکستان کی گورنمنٹ نے کرنا ہے۔ ابھی تک کی تمام تر صورت حال کو دیکھنے کے بعد لگتا ہے کہ اکنامک زون سے بھی گلگت بلتستان کو محروم کیا جائے گا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button