کالمز

’’کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے‘‘

پچھلے ہفتے میری طبیعت کچھ نا سا زہوگئی۔ آتی سردی کا ایسا حملہ ہوا نزلہ زکام کے ساتھ یوں پھونک کر بخار چڑھا کہ ہلنا مشکل ہوگیا۔لہذا مجھے اپنے ادارے سے دو دن کی چھٹی لینا پڑی ۔ میں بے شک چھٹی پر تھی مگر ایک دوست کے ساتھ فون پر مسلسل رابطے میں تھی ۔ میرا دوست بڑا معصوم اور نا تجربہ کار سا لڑکا تھا جو ہمارے ادارے میں پڑھتا ہے۔دو دن اس نے بھی ہر چھوٹی سی چھوٹی بات بھی مجھے بتانا فرض سمجھا۔ رات نو بجے کے قریب اس کا ایس ایم ایس آیا ، صرف اتنا جملہ لکھا تھا ’’ یار ادارہ ھذا میں سی سی ٹی وی کیمرے لگ گئے ہیں‘‘۔ میں نے بات کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ جس طرح سیکیورٹی کے پیش نظر اکثر دفاتر میں اداروں میں کیمرے لگے ہوتے ہیں اسطرح ہمارے ادارے میں بھی ہونے چاہئیں۔ اگلے دن میں ادارے میں پہنچ گیا تو رنگ ڈھنگ ہی بدلے ہوئے تھے ۔ گیٹ سے اندر داخل ہونے لگی تو سیکیورٹی نے سلام کیا ، میں نے ہمیشہ کی طرح اخلاقاََ خیریت دریافت کی تو وہ گھبرا کر کہنے لگا’’ شاد بھائی آپ کے چھٹی کے دنوں میں ادھر ’’سی سی ٹی وی کیمرے‘‘ لگ گیا ہے۔ اور ہماری ہر حرکات و سکنات کو صاحب دیکھتا ہے۔ میں نے مسکرا کر سر ہلایا اور اندر داخل ہوئی تو جلی حروف میں لکھا تھا’’خبردار! کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے‘‘ جملے کا واقعی اثر ہوا اور نا معلوم انداز میں میں نے بھی اپنی چال ڈھال اور رفتا ر میں کچھ وقار پیدا کر لیا۔
جیسے جیسے میں آگے بڑھ رہی تھی میری حیرت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ادارے کے تمام کیبن اور کمرے صاف ستھرے تھے، سارا سٹاف مع طلباء پہلے سے زیادہ مہذّب ، مؤدب اور فعال نظر آنے کی کوشش میں تھا۔ راہداری میں چلتے ہوئے سلام دعا کے ساتھ جو بے تکلفانہ گفتگو ہو جاتی، وہ مفقود تھی۔ جو لوگ ادارے میں آچکے تھے وہ اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان تھے ۔ جو پہنچ رہے تھے وہ جلدی میں تھے ، اپنے کمرے تک پہنچتے پہنچتے یہی چہ میگوئیاں سننے کو ملیں۔ہر ایک کو احساس تھا کہ ہماری تمام حرکات و سکنات کسی کی نگاہ میں ہیں۔ مجھے خود پر بھی ہنسی آئی کیونکہ اندر آتے وقت خود مجھ پر بھی تو ایسی ہی کیفیت گزری تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ یہ سی سی ٹی وی کیمرے ہمارے کردار اور شخصیت کو سنوارنے میں مددگار ثابت ہونگے۔اسی اثناء میں صاحب تشریف لا چکے تھے ، انہوں نے ہمیں ڈرا دیا کہ آج سے یہ کیمرے کام کرنے لگیں لگے ۔ وہ ہمیں بتا رہے تھے کہ تمھارے کمرے کی سکرین میرے کمرے میں ہے تا کہ مجھے بھی تمام صورتحال سے آگاہی رہے۔ میری عدم موجودگی میں بھی یہ کیمرے تمھارے تمام حرکات و سکنات کو ریکارڈ کر سکتے ہیں، اور پھریہ بھی بتایا کہ بہر حال خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کسی ایسی مشکل حالات سے دوچار ہی نہ کرے۔صاحب ہمیں بتا رہے تھے اور میرے ذہن میں چوکیدار سے لیکر باقی تمام سٹاف مع طلباء کی حالت گھوم رہی تھی جو یہ جانے بغیر کہ کیمرے چل بھی رہے ہیں یا نہیں ، ان کو نصب کرنے کا مقصد کیا ہے۔ صرف اسی خوف سے ہی درست ہوگئے تھے کہ ان کے اعمال و افعال کی نگرانی ہو رہی ہے۔
ایسی صورتحال دیکھ کر میرے ذہن میں آیا کہ ہمیں اس آنکھ کا خوف کیوں نہیں رہا جو کیمروں کی ایجاد سے بھی پہلے سے ہم پر نصب ہے اور ان دائیں بائیں بیٹھے فرشتوں کی موجودگی کا احساس کیوں نہیں جو ہماری ہر حرکت لکھ رہے ہیں اور اس فوٹیج کی پرواہ کیوں نہیں جو ہمیں روز محشر دکھائی جائے گی ۔ ہماری زندگی کی فوٹیج جس میں کوئی کمی نہیں ہوگی وہ صرف ہمارے اپنے اعمال ہونگے ۔ اگر ہمیں اس آنکھ کے دیکھنے کا جس کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند، احساس زندہ ہوجائے تو کیا اس معاشرے میں چوری چکاری، منافقت، جھوٹ، بد عنوانی، رشوت ستانی، ڈاکہ زنی جیسی کوئی بُرائی باقی رہے؟۔
قلم ایں جا رسید و سر بشکست…..!!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button