کالمز

۲۳ مارچ  اور ہماری اجتمائی بے حسی

تاریخ پاکستان میں23مارچ کے دن کی اہمیت اس اعتبار سے بہت زیادہ ہے کہ1940ء میں منٹو پارک لاہور میں برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ مملکت کے قیام کا عہد کیا۔ اس روز برصغیر کے کونے کونے سےآئے ہوئے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے اپنے محبوب قائد محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کے چونتیسواں سالانہ اجلاس کے موقع پر مسلمانوں کی آزادی اور ایک الگ وطن کے قیام کے لئے قرارداد منظور کی۔ جسے قرارداد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہندوہستان کے مسلمانوں نے قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی قیادت میں اس قرارداد کی منظوری کے صر ف سات سال ،دو ماہ اور گیارہ دن بعد 3جون 1947ءکے تقسیم ہند کے منصوبہ کا اعلان کرکے قیام پاکستان کے مطالبہ کو تسلیم کرلیا اور 14  اگست 1947ءکو دنیا کے نقشہ پرسب سے بڑی اسلامی نظریاتی مملکت معرض وجود میں آگئی۔

اس تاریخی قرارداد کو اس لیے بھی اہم مقام حاصل ہے کہ یہ ایک اجتماعی سوچ کا شاخسانہ تھا۔ اجتماعی طور پر تمام مسلمان ایک قوت اور ایک تحریک کا روپ دھارے ہوئے تھے۔ قرار داد کی منظوری کے بعد مسلمان ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ ایک روشن صبح کی جانب اپنا سفر شروع کرنے جا رہے تھے جس کی سربراہی تاریخ کے عظیم ترین لیڈر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کر رہے تھے ۔انہوں نے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلمانوں کو ایک آزاد ریاست فراہم کی جہاں ہم آزادی کے ساتھ سکھ کا سانس لے سکیں ۔آج بھی ہمیں اپنے اندر 23 مارچ 1940 ء کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور تجدید عہد وفا کرتے ہوئے قرار داد پاکستان کے اغراض و مقاصد کی تکمیل اور قائد اعظم ؒ اور دیگر قومی رہنماؤں کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں پھر سے ایک قوم بننا ہوگا ، دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان کے قیام کے خواب کو پورا کیا تھا، ہم وہی قوم ہیں جس نے  اپنا سب کچھ قربان کر کے گلگت بلتستان کی سر زمین کو جسے سر زمین بے آئین کہتے ہوئے سر شرم سے جھک جاتا ہے پاکستان اور اپنے محبوب قائد محمد علی جناح کی جھولی  میں ڈال دیا تھا ۔

گلگت بلتستان  کے لوگوں نے  آزادی پاکستان  کی خوشی میں سب کچھ بیچ کر جانین گنوا کر  اپنی سر زمین کو   سکھوں سے آزاد کرا کے پاکستان سے ملحق کی تاکہ اس اسلامی ملک میں سکھ کے ساتھ زندگی گزار سکیں ۔پاکستان قائم ہوا تو  شاید قائد اعظم کے ساتھ ساتھ  گلگت بلتستان کے لوگوں نے یہی سوچاہوگا کہ ہم  آزاد ہو گئے ہر طرف اسلام کا بول بالا ہوگا ہر طرف ایک آواز ہوگی ہم پاکستانی ہیں لیکن اس لمحوں میں شاید آسمان ہنسا ہوگا کیونکہ  جو لوگ پاکستان کے لئے مررہے تھے وہ68 سالوں سے  اپنے آپ کو پاکستانی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن  آج وہ  بلتی  اور شین ہیں  لیکن پاکستانی نہیں ۔ یہاں کے ذخائر ، سیاحتی مقامات ،یہاں سے گزرنے والا دریا ئے سندھ ، شندور ،خنجراب ،K2، نگاپربت ،دیوسائی ،نلتر  ، شاہراہ  ریشم  کارگل   سیکٹر،سیاچن سیکٹر اور سست بارڈر پاکستانی ہے لیکن یہاں بسنے والے لوگ پاکستانی نہیں ۔آج گلگت بلتستان میں جس بے دردی سے  بیورو کریٹ اور سیاستدان  عوام کا گلہ گھونٹ رہا ہے کسی کو معلوم نہیں ۔کیسے اقربا پروری کا بازار گرام ہے ،منشیات کس طرعام کیا جا رہا ہے تہذیبی اور تمدنی یلغار کس طرح یہاں کے کلچر پر اثر انداز ہو رہا ہے کسی کو  معلوم   نہیں ۔سب کو اپنی پڑی ہے پھربھی ہماری آنکھیں نہیں کھلی ہم  اظہار یکجہتی کرنے میں بھی  ناکام ہو چکے ہیں  ، ہم ایک دوسرے کے لئے قربانی  نہیں دے رہے ہیں  بلکہ ہم ایک دوسرے کو مار رہے ہیں اپنےبھائی کو اقتصادی  اور معاشی طور پر مفلوج کر رہے ہیں  ہم خود ہی تماشا اور خود ہی تماشای ہیں ۔ہماری  آزادی کو 68 سال بیت چکے ہیں  مگر ذہنوں سے لپٹی غلامی کی زنجیروں میں آج تک  ہم قید ہیں۔ ہمیں اب بھی اپنے اسلاف کی دی ہوئی قربانیوں کو یاد رکھنا ہوگا کیونکہ  جو قومیں اپنا ماضی اور اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں تاریخ انہیں بھلا دیتی ہے ۔

23 مارچ ایک عہد کا دن بھی ہے کہ ہم یکجان ہو کر اس وطن عزیز  اور  علاقے کے پھر سے قربانیاں دیں اور اپنی حقوق کے لیے ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ یہ  تاریخی دن زندہ و بیدار قوموں کے لیئے ایک سنگ میل ہوتا ہے تاکہ اس دن وہ اپنے گذرے ہوئے کل پر  نظر ڈالیں , سرزرد ہونے والی کوتاہیوں کا مشاہدہ کریں اور آئندہ کے لیئے ان غلطیوں کے ارتکاب سے گریز کریں۔تاکہ ہم  بے یقینی ،خود غرضی ، اجتمائی بے حسی اور  تمام قومی بیماریوں سے چھٹکارہ  پا سکیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button